نازکا خطوط

500 مربع میل پر پھیلے تعویز، صرف فضا ہی سے دکھائی دیتے ہیں.

نازکا خطوط۔ فوٹو: فائل

ناز کا خطوط (Nazka Lines) دنیا بھر کی ارضی کندہ کاری میں سب سے اہم حیثیت کے حامل ہیں۔

کندہ کاری سے مراد ہے پتھر یا کسی دھات پر کوئی تحریر یا تصویر کندہ کرنا۔ ناز کا خطوط پرو (Peru) کے جنوب میں واقع دشتِ نازکا میں دریافت ہوے ہیں۔ انہیں 1994 میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیراہتمام عالمی ورثہ (Unesco world Heritage site) قرار دے دیا گیا ہے۔ ان خطوط کا مقام پرو کے صدر مقام لیما سے کوئی 400 کلومیٹر دور جنوب کی سمت ہے جو 80 کلومیٹر کے بارانی سطح مرتفع پر نازکا اور پالپا کے شہروں کے درمیان ہے۔ اس مقام کو پامپادی جمانا (Pampa de Jumana) بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ خطوط چوتھی سے ساتویں صدی عیسوی کے درمیانی عرصے میں تخلیق کیے گئے ہیں۔

ان خطوط کی تعداد دو چار دس یا بیس نہیں بل کہ یہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان میں پرندوں، مکڑیوں، بندروں، مچھلیوں اور چھپکلیوں کی اشکال شامل ہیں اس کے علاوہ پیچیدہ ہندسائی (Geometrical) اشکال بھی کھینچی گئی ہیں۔ آپ بہ جا طور پر سوچ سکتے ہیں کہ اس میں حیرت کی ایسی کون سی بات ہے، ایسی اشکال اور مصوری کے قدیم نمونے تو دنیا میں بے شمار دریافت ہو چکے ہیں اور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جی ہاں درست سوچا آپ نے لیکن یہ خطوط اس لحاظ سے تحیر خیزہیں کہ یہ خطوط زمین پرچلتے ہوے سمجھ میں نہیں آتے۔ ممکن ہے جب آپ اس خطے سے گزر رہے ہوں تو آپ کے لیے ان کی کوئی اہمیت نہ بن پائے۔

آپ یہ ہی سمجھتے ہوے گزر جائیں گے کہ کسی نے بے ہنگم لکیریں کھینچ دی ہیں۔ یہ اشکال آپ پر تب کھلتی ہیں جب آپ اس خطے پر سے ہوائی جہاز میں پرواز کر رہے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس قدر بڑی بڑی ہیں کہ انہیں فضاء ہی سے دیکھا جائے تو واضح ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیکڑوں برس پہلے ان کا توازن ان لوگوں نے کیسے برقرار رکھا ہوگا؟ کیا ان کے پاس فضاء میں بلند ہونے کا کوئی طریقہ تھا؟ کیا وہ اڑ سکتے تھے؟ یا وہ بہت ہی قدآور تھے؟اب تک ان لکیروں یا خطوط کی جتنی تصاویر سامنے آئی ہیں اور جن میں سے چند ایک آپ اس صفحے پر دیکھ رہے ہیں یہ سب فضاء سے سیٹلائیٹ کے ذریعے لی گئی ہیں۔ یہ اشکال اس صحرائی علاقے کی سرخی مائل سطح کو ادھیڑ کر نیچے سے برآمد ہونے والی سفید یا سفیدی مائل زمین پر کھینچی گئی ہیں۔

ان میں سیکڑوں تو سادہ سادہ سے خطوط یا جیومیٹری کی اشکال ہیں۔ 70 سے زیادہ جانوروں کی (Zoomorophic) تصاویر ہیں جن میں پرندے، مچھلیاں، شیر، بندر اور انسانی اشکال شامل ہیں۔ بعض درختوں اور پھولوں کے (Phytomorphic) ڈیزائن ہیں۔ ان میں بڑی اشکال دو، دو سو میٹر یعنی 6 سے ساڑھے چھے سو فٹ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ارضیات، سماجیات، عمرانیات اور دیگر علوم کے علماء اپنے اپنے طور پر ان اشکال کے مقاصد کی شرح کرتے ہیں، بعض کے قریب یہ خطوط ناز کا لوگوں کی مذہبی اسراریات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کا قیاس ہے کہ زمین میں کھدے یہ خطوط دراصل وہ نالیاں ہیں جن کا مقصد دیوتائوں سے پانی یا بارش طلب کرنے کا ایک طرح سے تعویز ہیں، مکڑوں، پرندوں، درختوں اور پودوں کی اشکال زرخیزی کی علامات ہیں۔ بعض اسے آب پاشی کی سکیمیں قرار دیتے ہیں اور بعضوں کا خیال ہے کہ یہ عظیم الجثہ فلکیاتی جنتریاں ہیں۔ غرض یہ کہ جو جس علم سے تعلق رکھتا ہے وہ اسی طور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہاں موسم اکثر خشک رہتا ہے اور ہوا کا گزر بھی برائے نام ہوتا ہے جس کے باعث یہاں انسان کی آمد ورفت بھی بہت برائے نام رہی ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ قدیم سے تنہا اور الگ تھلگ سا چلا آ رہا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ یہ خطوط کسی طرح کی دست برد سے محفوظ رہ گئے ہیں ورنہ یہ کندہ کاری زمین میں بہت گہری نہیں ہے البتہ اسے اقوام متحدہ نے جب سے بین الاقوامی ورثہ قرار دیا ہے تب سے سیاحوں کا رخ ادھر ہوا ہے جس سے خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ یہ بارک خطوط مٹ نہ جائیں۔

یہ اشکال جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے اپنی جسامت میں اس قدر بڑی بڑی ہیں کہ انہیں یا تو دوران پرواز دیکھا جا سکتا ہے یا پھر اردگرد کے بلند و بالا پہاڑوں پر کھڑے ہو کر، تاہم یہ ہوائی جہاز سے زیادہ واضح نظر آتی ہیں۔ انہیں پہلی بار 1927 میں پرو کے ماہر آثار قدیمہ توریبو میجیا زسپے (Toribo Mejia Xesspe) نے یہاں کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران دریافت کیا تھا۔ ان صاحب نے 1939 میں لیما میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران ان کا ذکر بھی کیا تھا تاہم اس وقت ان خطوط کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ بعد میں لونگ آئی لینڈ یونی ورسٹی کے ایک ماہر تاریخیات پال کوسوک نے اس پر سنجیدگی سے کام کیا وہ 1940-41 میں آب پاشی کے قدیم نظاموں کا مطالعہ کر رہے تھے اور اسی سلسلے میں انہوں نے یہاں پر سے پرواز کی۔

دوران پرواز انہوں نے محسوس کیا کہ زمین پر ایک پرندے کی دیوپیکر شبیہ بنی ہوئی ہے۔ وہ حیرت سے دوچار ہوے اور یہ جاننے کی کوشش میں لگ گئے کہ یہ خطوط تخلیق کیسے کیے گئے، اس کے ساتھ ہی وہ ان کے مقاصد کا تعین بھی کرنے کی کوشش کرنے لگ گئے۔ دریافت کے اس عمل میں ایک جرمن خاتون ماریا ریشے، جو قدیم آثار کی ماہر ہونے کے علاوہ ریاضی دان بھی تھیں، ان کے ہم راہ تھیں۔ ناز کا خطوط کے حوالے سے ان کی تشریحات اس ذیل میں سب سے اوّلیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خطوط نشانات ہیں اس امر کے کہ، سورج اور دوسرے سماوی اجسام کہاں کہاں سے نمودار ہوتے ہیں۔ ان کے بعد متعدد ماہرین آثار قدیم، تاریخ دان اور ماہرین ریاضیات ان خطوط کے مقاصد متعین کرنے پر جٹ گئے۔


یہ تعین کرنا بہ ہرحال آسان رہا کہ ان خطوط کو کھینچا کیسے گیا ہے۔ نظریہ ساز دانش وروں کا کہنا ہے کہ ناز کا لوگوں نے ان کے لیے سادہ سادہ سے اوزار اور سروے کے سیدھے سبھائو آلات استعمال کیے ہیں۔ آثار کے سروے کرنے والوں کو بعض خطوط کے اختتام پر لکڑی کی بعض نوکیلی کھونٹیاں سی ملی ہیں جس سے ان کے خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جوئے نِکل نامی ایک ماہر نے، جو کنٹکی یونی ورسٹی میں پڑھاتے ہیں، نازکا عہد کے لوگوں کے اوزاروں اور آلات کے خاکے بھی تیار کر دیے۔ جنہیں دی نیشنل جیوگرافک نے اصل خطوط کی ہیئت کے قریب تر تسلیم کرکے اسے جوئے نکل کا ''قابل ذکر'' کام قرار دیا اور کہا کہ چند افراد کی ایک چھوٹی سی ٹیم محتاط منصوبہ بندی اور انتہائی سادہ ٹیکنالوجی کے ذریعے چند دنوں ہی میں نازکا خطوط سے زیادہ بڑی اشکال بنا سکتے ہیں اور اس کے لیے کسی فضائی نگہ داری کی ضرورت بھی نہیں تاہم نازکا تہذیب کا زمانہ اس طرح کا دعویٰ کرنے سے پہلے نظر میں ضرور رکھنا چاہیے۔

خطوط کے مقام کی زمین لوہے کے زنگ چڑھی سرخی مائل بھوری کنکریوں پر مشتمل ہے۔ نازکا خطوط یہ کنکریاں ہٹا کر کھینچے گئے ہیں۔ خطوط کی گہرائی 10 سے 15 سینٹی میٹر یا یوں سمجھیے تقریباً چار سے چھ انچ ہے۔ ان کنکریوں کے نیچے کی زمین سفید یا ہلکے آسمانی رنگ کی ہے۔ یہ رنگ سطح زمین کے رنگ کے ساتھ تقابلی تاثر بناتا ہے اور بہت واضح نظر آنے لگتا ہے۔ خطوط والی سطح میں چونے یا مرمر کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اس مقام پر صبح بننے والی دھند ایک طرف ان خطوط کو زیادہ مضبوط بھی کرتی ہے اور ایک طرح سے ہوا کے خلاف اس کی ڈھال بھی بنتی ہے جس کی وجہ سے یہ خطوط یا زمین پھٹنے سے محفوظ ہے اور ان کی اصل شکل صدیاں گزرنے کے باوجود جوں کی توں ہے۔ اسی ٹیکنیک میں اس زمین پر نازکوں نے یہ عظیم الجثہ خطوط کھینچ کر ان سے انسانی شبیہوں کے علاوہ جانور اور درختوں کی تصاویر تخلیق کی ہیں۔

آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ یہ خطوط میل دو میل پر نہیں پھیلے بل کہ انہوں نے 5 سو مربع کلومیٹر کا علاقہ گھیر رکھا ہے۔ ان میں سب سے بڑی شکل 890 فٹ پر بنی ہوئی ہے۔ ان میں ہمنگ پرندے (Humming Bird) کی شبیہ 310 فٹ، کونڈو کی شبیہ 440 فٹ، بندر کی 310 X 190 فٹ اور مکڑی کی ''تصویر'' ڈیڑھ سو فٹ پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ سب کچھ بے تغیر موسم کی وجہ سے آج تک یوں محفوظ ہیں جیسے کچھ عرصہ پہلے بنائی گئی ہوں۔ واضح رہے کہ دشتِ ناز کا دنیا کے خشک ترین خطوں میں سے ایک ہے، اس کا درجہ حرارت سال بھر 25 سینٹی گریڈ یا 77 فارن ہیٹ ہی رہتا ہے اور ہوا کا گزر انتہائی کم ہے۔ ہوا اگر وہاں اپنی موجود رفتار سے تیز چلتی تو ممکن ہے گرد اس بین الاقوامی ورثے کو اب تک تہہ خاک کر چکی ہوتی۔

2011 میں جاپان کی یاماگاتا یونی ورسٹی کی ایک ٹیم نے یہاں دو نئی مگر چھوٹی اشکال دریافت کی ہیں۔ ان میں ایک انسان کے سر سے مشابہ ہے اور اس کی قدامت نازکا تہذیب کے اوائل یا غالباً اس سے بھی قدیم تر ہے۔ دوسری شکل ایک جانور کی ہے لیکن اس کی قدامت کا اندازہ فی الحال نہیں ہو پایا۔ یونی ورسٹی نے اس دشت میں ستمبر 2012 تک ایک نیا تحقیقی مرکز قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جو اب غالباً قائم ہو چکا ہوگا۔ یہ مرکز یہاں آئندہ 15 سال تک تحقیق کرے گا۔ ویسے یونی ورسٹی کی ٹیم یہاں 2006 سے کام کر رہی ہے اور یہ اب تک تقریباً ایک سو نئی اشکال دریافت کر چکی ہے۔

پرانے آثار، نسلیات اور عمرانیات کے ماہرین قدیم ناز کا تہذیب کے مطالعے میں مسلسل مصروف ہیں تاکہ ان خطوط کے اسرار کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ نازکا دیوتا پرستوں نے اتنی عظیم الجثہ اشکال اس لیے تخلیق کی ہیں تاکہ آسمانوں پر بیٹھے ''خدائوں کے گروہ'' انہیں با آسانی دیکھ سکیں۔ کوسوک اور ریشے انہیں نجومیات اور فلکیات سے منسلک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطوط دراصل ایک طرح کی رصدگاہ ہیں جن کے ذریعے دور افق میں ان دور دراز مقامات کا تعین کیا جا سکے جہاں سورج اور دوسرے اجرامِ فلکی طلوع وغروب ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکا کے مختلف علاقوں اور دنیا کے دیگر مقامات پر زمین پر متعدد ایسے کام کیے گئے ہیں جن کا مقصد کائنات کی الوہی تشریح کرنا تھا وہ اپنے دعوے کے حق میں کاہوکیا کے مسس پی کلچر کی مثال دیتے ہیں جو آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شامل ہے۔ اس کی اور مثال انگلستان کے سٹون ہنج کی ہے۔ انتھونی ایوینی اور جیرالڈ ہاکنز جیسے ماہرین اس مفروضے کو رد کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو کوئی استدلال تقویت نہیں دیتا۔

ریشے کا کہنا ہے کہ ان میں سے خاص طور پر بعض اور عمومی طور پر تمام خطوط اور شبیہیں کائنات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ شکاگو میں ایڈلرپلینی ٹیریئم کی ماہر فلکیات فیلس پٹلوگا نے اخذ کیا ہے کہ ان میں جو شبیہیں جانوروں کی ہیں وہ آسمان پر دکھائی دینے والی اشکال کو ظاہر کرتی ہیں وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ شبیہیں افلاک پر نظر آنے والی اشکال کی نقول نہیں بل کہ ان کا رد ہیں تاہم وہ بھی اپنے دعوے کو تفصیل کے ساتھ ثابت نہیں کر پائیں۔

1985 میں ایک معروف ماہر آثار قدیمہ جوہن رینہرڈ نے ایک تفصیل شائع کی جس میں انہوں نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ نازکا مذہب میں پہاڑوں اور آبی وسائل و ذخائر کے مقامات کی پوجا کی جاتی تھی۔ سو یہ سیکڑوں میل پر پھیلے خطوط اور اشکال دراصل ان کی ایسی مذہبی رسومات سے متعلق ہیں جو مذکورہ وسائل کی دیویاں یا دیوتا ہیں تاکہ وہ خوش ہو کر انہیں پانی اور دوسرے لوازمات زندگی سے نوازتے رہیں اور فصلیں لہلہاتی رہیں۔ یہ خطوط دراصل ان مقامات کی طرف لے جاتے ہیں جہاں پوجا کی رسومات ادا کرنا ہوتی تھیں تاہم تاحال ان پر اسرار خطوط کے بارے میں کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آ پائی۔

سوئیزر لینڈ کے تاریخ فنون کے ماہر ہنری سٹیئرلین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ خطوط دراصل حنوط کیے گئے مردوں کے کفن بننے والی عظیم الشان کھڈیوں (Looms) کے نشانات ہیں۔ ان پر بہت لمبائی اور چوڑائی والا کپڑا بنا جاتا تھا۔ اس کے ثبوت میں وہ اسی علاقے سے برآمد ہونے والی پاراکاس تہذیب کے لوگوں کی حنوط شدہ لاشیں پیش کرتے ہیں جنہیں ایک خاص طرح کے بنے ہوے کپڑے میں کفنایا گیا ہے تاہم اس نظریے کو بھی پذیرائی نہیں ملی، البتہ یہ ضرور ہے کہ لاشوں کو جن کپڑوں میں لپیٹا گیا ہے ان پر بنے ڈیزائن ان خطوط سے ملتے جلتے ہیں۔

کب کھلے گا یہ اسرار؟ کیا کہا جا سکتا ہے۔ مورخین، دانش ور، ماہرین مذہبیات، آثار قدیم کے ماہر اور مختلف علوم کے جید لوگ برسوں سے اس پیچ دار گرہ کو کھولنے میں کوشاں ہیں۔ شاید کسی روز یہ سب کسی ایک نظریے پر متفق ہو جائیں۔
Load Next Story