کاٹھ کی الف لیلہ ایک محل جو اپنے ہی مکینوں کا مزار بن گیا
چنیوٹ کے چوبی فن پارے ’’عمر حیات محل‘‘ کی تعمیر کا ماجرا، بسنے کا قصہ، اجڑنے کا نوحہ.
چنیوٹ کی آتی جاتی سڑکوں اور نئے نئے دفاتر سے آگے بڑھیں تو گلیوں میں کہیں ایک پرانی عمارت ہے، جس کا نام عمر حیات محل ہے ۔
گلیوں کے بیچوں بیچ اس گھر کو محل کیوں کہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بہت سے آشفتہ سر اس جگہ آتے ہیں۔
شہر کے عین درمیان واقع اس محلے کو قلعے کی مناسبت سے ریختی محلہ کہا جاتا ہے ۔ سامنے پرانے قلعے کی دیوار کے کچھ حصے ہیں، جو گر گئے ہیں، جو باقی بچے ہیں انہیں آس پاس کے مکانوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ یہ شہر کا اہم مقام ہے۔ محل کے داہنے ہاتھ مدرستہ البنات اور بائیں جانب مسلم بازار ہے۔ محل، مدرسہ اور بازار کا تسلسل شاید انسان جتنا ہی قدیم، سبق آموز اور دل آویز ہے۔
چنیوٹ کی شیخ برادری انسانی قابلیت کے بلند معیار کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہاں کے تاجر اپنی محنت، کاروباری فطانت اور محتاط رویوں کے سبب پچھلے دو سو سال سے برصغیر کی تجارت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ چھوٹی عمر کی شادیاں، بزرگوں کا احترام اور انتہائی منظم طور پر ایک دوسرے سے پیوستہ خانگی زندگیاں، ان کی شناختی علامات ہیں۔
تقسیم سے پہلے یہ لوگ کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے اور چنیوٹ میں گھر بناتے تھے۔ پاکستان بن گیا تو انہوں نے پاک سر زمین کے سمندر سے اپنا ناتا جوڑ لیا۔ یہی سبب ہے کہ ہر چنیوٹی کی زندگی میں دو شہر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور ملتے ہیں، چنیوٹ اور کراچی۔
شیخ عمر حیات کا تعلق بھی انسانوں کے اسی باکمال گروہ سے تھا ۔ وہ چنیوٹ میں مقیم تھے اور کاروبار کے سلسلے میں کلکتے آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنے وقت کا یہ سخی، شام کو بازار میں بیٹھ کر ایک طرف سے پیسے بانٹنا شروع کرتا تو شام ڈھل جاتی، مگر دام نہیں ڈھلتے۔ ایسے ہی ایک لمحے میں الٰہی بخش پرجھا کا وہاں سے گزر ہوا۔ چند منزل کے تعزیے میں کئی جہان دکھانے والا یہ فن کار بھی اپنی طرز کا منعم تھا، جس کے ہاتھ میں آتے ہی لکڑی موم ہو جاتی تھی۔ پرجھا کی شہرت بکنگھم پیلس تک پھیل چکی تھی اور ملکہ برطانیہ اپنے محل کی آرایش الٰہی بخش کے سوا کسی اور سے کروانے پہ رضا مند نہیں تھی۔
اس فن کار کے بازار سے گزرنے کی دیر تھی کہ سب لوگ اس کے فن کی تعریف کرنے لگے۔ عمر حیات نے ایک راہ گیر سے اس کا پس منظر پوچھا، تو اس نے بتایا کہ یہ ایک فن کار ہے اور تم سرمایہ دار۔ تمھارا روپیہ ختم ہو جائے گا، مگر پرجھا کے فن کا تذکرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ عمر حیات نے کچھ دن سوچا اور پھر پرجھا کو بلا کر کہا کہ وہ ایک محل تعمیر کرنا چاہتا ہے، جو شان و شوکت اور خوب صورتی کا مرقع ہو۔ الٰہی بخش نے جواب دیا کہ تمھارا سرمایہ میرے فن کا بوجھ نہیں ا ٹھا سکتا۔ بھلے وقت تھے، اور لوگ مان لینے کو عافیت جانتے تھے، سو دونوں کی گفتگو کا حاصل عمر حیات محل کی صورت 1922میں بننا شروع ہوا۔
آج سے تقریباً نوے سال پہلے چار لاکھ روپے سے تیار ہونے والے اس محل میں تہ خانوں کو ملا کے پانچ منزلیں ہیں۔ اس محل کو گل زار محل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چودہ مرلے پر محیط اس عمارت کے باہر موجود باغ بعد میں تعمیر کیا گیا۔
کچھ سال پہلے یہ خوب صورت یادگار اردگرد بے طرح بننے والے گھروں کے اندر چھپ کر رہ گئی تھی۔ ''اخوت'' والے ڈاکٹر امجد ثاقب شہر میں نئے نئے آئے، تو انہیں اسے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ڈپٹی کمشنر ہونے کے علاوہ وہ صاحبِ ذوق بھی تھے، سو انھوں نے آس پاس کے گھر خرید کر جگہ صاف کروائی او ر گھاس کے تختے لگوائے۔ قلعے کی دیوار کے ساتھ اندر مڑیں اور محل کے احاطے میں داخل ہوں تو نظر ایک جھروکے پر جا رکتی ہے، جس کے نیچے ایک داخلی دروازہ ہے۔ جھروکے کی بات بعد میں اور دروازے کا ذکر پہلے۔
گھر کے اس مرکزی دروازے کے ساتھ ایک تختی پر ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان جیسے دوسرے اصحاب کا ذکر ہے، جنھوں نے اس عمارت کو موجودہ شکل میں بحال کیا۔ ایک اور تختی پر ان تمام کاری گروں کے نام درج ہیں جنھوں نے اس خواب کو تعبیر سے ہم کنار کیا۔
پانچ کھڑکیوں اور دوپہلو دریچوں پر مشتمل اس جھروکے کو اگر لکڑی کی شاعری کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دیوار سے قدرے باہر کو نکلتے ہوئے اس چوبی شاہ کار کو سہا را دینے کے لیے لکڑی کے آٹھ ستون بنائے گئے ہیں۔ پانچوں کھڑکیوں کے پٹ جُڑے ہو ئے ہیں، جو باہر کو بند ہونے پر ایک بیل کی شکل بناتے ہیں اور اندر کو کھلنے پر پھول کی صورت اختیار کرتے ہیں۔
الٰہی بخش پرجھا کی اس تخلیق کے تقریباً اسّی سال بعد ان کے پوتے اختر پرجھا نے ایسا ہی ایک جھروکا بنایا جو فیصل آباد کے ایک اور چنیوٹی گھر کی زینت ہے۔ تین تہوں میں بنے اس جھروکے کے تا ج سے لے کر ستون تک اور برجیوں سے لے کر چٹخنیوں تک ایک ایک نقش ہنر مندی کی داستان بیان کرتا ہے۔
اندر داخل ہوں تو میلا مگر خوب صورت فرش اعلیٰ ذوق کی یاد دلاتا ہے۔ دالان کے درمیان کمرۂ عدالت جیسا لکڑی کا ایک کٹہرا کھڑا ہے۔ آٹھ سال میں مکمل ہونے والا یہ محل خوب صورتی اور حسرت کا مر قع ہے ۔ روایات کے مطابق محل مکمل ہونے سے پہلے ہی عمر حیا ت انتقال کر گئے۔ شوہر کی موت سے عمر حیات کی بیوہ اور اکلوتے بیٹے کی زندگی تاریک ہو گئی۔ گھر پر چھائی افسردگی کی خاطر بیوہ ماں نے کچھ عرصے بعد اپنے بیٹے گل زار کی شادی کا اہتمام کیا۔ شادی کے کارڈ چھپے اور گل زار محل کو پہلی بار پوری طرح سجا یا گیا۔ شہر کے تما م رئوساء کو بھی بلایا گیا اور آس پاس کے دیہات کے لوگوں کو بھی کھلی دعوت دی گئی۔
ولیمے کی صبح ا س گھر کے مکینوں پر ایک اور قیامت کا سامان لائی۔ حادثے کی اصل وجہ کا علم تو اب تک نہیں ہو سکا، مگر سنا ہے کہ دولہا غسل خانے میں نصب حمام میں دم گھٹنے سے انتقال کرگیا۔ بیوہ ماں نے جنازہ نہ اٹھنے دیا اور محل کے دالان ہی میں دفن کروا دیا۔ بیٹے کی موت کے ایک ہی سال بعد عمر حیات کی بیوہ بھی چل بسییں اور وہ بھی اپنے بیٹے کے پہلو میں ہی دفن ہوئیں۔ کٹہرے میں موجود دو قبریں عمر حیات کی بیوہ اور ان کے بیٹے گل زار کی ہیں۔
صحن کے وسط میں پہلے ایک فوارہ ہوا کرتا تھا۔ فوارے سے بلند ہوتی پانی کی دھار چھت سے ٹنگے فانوس کی نوک سے متصادم ہوتی تھی ۔ زندگیوں کے چراغ گل ہوئے تو جھاڑ فانوس بھی اتر گئے اور فواروں کی جگہ قبروں نے لے لی۔ اسی صحن میں آس پاس کی دیواروں پر خوب صورت نقش و نگار بنے ہیں اور دروازوں میں شیشے جَڑے ہیں۔ اٹلی سے لائے گئے یہ رنگ دار شیشے تقریباً ایک صدی گزرنے کے با وجود آج بھی ایسے دِکھتے ہیں، گویا کل ہی بھٹی سے نکلے ہوں۔ بحالی کے دوران جب نئے شیشے لگائے گئے تو ان کی چمک کچھ عرصے بعد ماند پڑ گئی مگر پرانے شیشوں کی دمک ابھی تک ویسے ہی ہے۔
گھر کے تمام کمرے اس صحن میں بھی کھلتے ہیں اور دوسرے کمرے میں بھی۔ ہر کمرے کا فرش اور چھت کا طرز تعمیر انتہائی دل کش ہے اور دوسرے کمرے سے یک سر مختلف ہے۔ عمر حیات نے اکثر کمروں میں اپنے نام کے حروف مختلف انداز میں کندہ کروا رکھے تھے۔ کسی کمرے میں U کے درمیان H پیوست ہے، تو کہیں پھول کی پتیوں میں U اور H کی تکرار ہے۔ کھڑکیوں پر چڑھا طلائی رنگ اب بھی ماند پڑنے سے منکر ہے۔ ایک کمرے میں ٹائل اپنی جگہ سے اکھڑی تو اس کی پشت پر جاپان کی کسی فیکٹری کا پتا ملا۔ مدتوں سے برباد اس گھر میں اب بھی کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو معمولی معیار کی ہو۔
ماں اور بیٹے کی موت کے بعد عمر حیات کے خاندان کا کوئی فرد نہیں رہا۔ کہا جاتا ہے، ورثاء نے گھر کو منحوس قرار دے کر اس میں رہنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں شہر کی ایک مخیر ہستی نے یہاں یتیم خانہ کھلوا دیا۔ کچھ عرصے گھر پر ناجائز قبضہ بھی رہا اور پھر شہر میں ایک نئے ڈپٹی کمشنر آئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اطہر طاہر کی مدد سے چنیوٹ کے اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے باقاعدہ اہتمام کیا۔ اب عمر حیات محل ایک لائبریری کی حیثیت سے ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔
ایک کمرے میں لائبریری کا دفتر ہے اور دوسرے میں اس وقت کی ثقافت کی چند جھلکیاں محفوظ کی گئی ہیں، جن میں فریم میں جڑے ناخن نگاری کے چند نمونے اور عمر حیات کے استعمال میں رہنے والی گاڑ ی کے پہیے وغیرہ شامل ہیں۔ گھریلو سازو سامان میں ایک ٹارچ باقی ہے اور دولہے کا کُرتا۔ شادی کا دعوت نا مہ بھی یہیں بوسیدہ حالت میں موجود ہے۔ سامنے کے کمرے میں کچھ بھی نہیں، فقط ایک چپ چاپ سی تصویر آتش دان پر دھری ہے۔ یہ تصویر گل زار محل کے مکمل ہونے پر لی گئی تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی بالائی منزلیں گر چکی ہیں۔
بغل کے دو کمروں میں تہہ خانے ہیں۔ اچھے وقتوں میں ان میں رہایش کا سامان بھی ہوتا تھا۔ اب صرف بوسیدہ سیڑھیاں رہ گئی ہیں۔ محل کے نگراں نے جب تہ خانے کو جا نے والی سیڑھیوں کا دروازہ کھولا تو معلوم نہیں کب سے اندر قید ہوا نے سانس لیا۔ باہر کا اکتوبر اندر کے اکتوبر سے بہت مختلف تھا۔
ہر پرانی عمارت کی طرح یہاں بھی سیڑھیوں پر لکڑی کے تختے منڈھے ہیں۔ یہ تختے اس لیے چڑھائے جاتے تھے کہ چڑھتے اترتے وقت دھمک کا احساس دماغ تک نہ پہنچے۔ جس رنگ کی پچی کاری نیچے کی دیواروں پر چلی ہے، ویسے ہی نقش نگاری اوپر کی منزل میں بھی ہوئی ہے۔ پہلی منزل کی چھت اطالوی کلیسائوں کی طرز پر بنائی گئی ہے، جس پہ چاروں اطراف ہندوستان کے تاریخی مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ لاہور کے شالامار باغ سے آگرے کے تاج محل تک اور کانگڑہ کی پہاڑیوں سے جے پور کے جنتر منتر تک بنانے والے نے اس وقت کا پورا ہندوستان اس چھت پہ رنگ ڈالا ہے۔ کمروں کی ترتیب، تزئین اور آرایش قریب قریب نیچے کی منزلوں ایسی ہی ہے۔ دروازوں کی چوکھٹیں البتہ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے راستہ روکتی ہیں۔ قبضوں سے لے کر درزوں تک ہر چوکھٹ لکڑی پر شاعری کا منظر پیش کرتی ہے۔
کھڑکیوں اور دیواروں میں ہم آہنگی اس قدر نمایاں ہے، گویا ایک ہی شخص نے دونوں ہاتھوں سے اس گھر کو تعمیر کیا ہے۔ دوسری منزل البتہ بربادی کی داستان دکھاتی ہے۔ لکڑی کے چند تختے ہیں، جو اکھڑے پڑے ہیں اور چھتیں ہیں جو ادھڑ چکی ہیں۔ فرش پر کچھ بھولے بسرے نشان اب بھی باقی ہیں۔ سیڑھیوں کے کھنڈر کے ساتھ توش دان ہے، جو رات کو پانی کے برتن وغیرہ رکھنے کے کام آ تا تھا۔
یہاں سے شہر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ چھتوں سے جُڑی چھتیں اور ان کے درمیان ایک دوسرے سے بظاہر بے نیاز مگر امر بیل جیسی ایک دوسرے سے گلے ملتی اور جدا ہوتی زندگیاں، بیچ بیچ میں مسجدوں کے مینار اور ان پر چہار اطراف کو رخ کرتے لائوڈ اسپیکر، دور چمکتا موبائل ٹاور! اس آخری منزل پر شام ان تمام جزئیات کے ساتھ ہر آنے والے کا پرتپاک استقبال کرتی ہے۔
مشتاق صاحب اس محل کے نگراں بھی ہیں، تاریخ داں بھی اور نوحہ گر بھی۔ داڑھی تیزی سے سفید ہو رہی ہے۔ سوال کرو تو منہ سے معلومات کا ایک سیل بہتا ہے، ایسا لگتا ہے، گھر کے سب سے پہلے مکین وہی تھے، اور ملال ایسا کہ ہر دروازے اور ہر چوکھٹ کو چھو کر ایک ہی بات بار بار کہتے ہیں، ''محل اپنے ہی مکینوں کا مزار بن گیا!!''
گلیوں کے بیچوں بیچ اس گھر کو محل کیوں کہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بہت سے آشفتہ سر اس جگہ آتے ہیں۔
شہر کے عین درمیان واقع اس محلے کو قلعے کی مناسبت سے ریختی محلہ کہا جاتا ہے ۔ سامنے پرانے قلعے کی دیوار کے کچھ حصے ہیں، جو گر گئے ہیں، جو باقی بچے ہیں انہیں آس پاس کے مکانوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ یہ شہر کا اہم مقام ہے۔ محل کے داہنے ہاتھ مدرستہ البنات اور بائیں جانب مسلم بازار ہے۔ محل، مدرسہ اور بازار کا تسلسل شاید انسان جتنا ہی قدیم، سبق آموز اور دل آویز ہے۔
چنیوٹ کی شیخ برادری انسانی قابلیت کے بلند معیار کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہاں کے تاجر اپنی محنت، کاروباری فطانت اور محتاط رویوں کے سبب پچھلے دو سو سال سے برصغیر کی تجارت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ چھوٹی عمر کی شادیاں، بزرگوں کا احترام اور انتہائی منظم طور پر ایک دوسرے سے پیوستہ خانگی زندگیاں، ان کی شناختی علامات ہیں۔
تقسیم سے پہلے یہ لوگ کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے اور چنیوٹ میں گھر بناتے تھے۔ پاکستان بن گیا تو انہوں نے پاک سر زمین کے سمندر سے اپنا ناتا جوڑ لیا۔ یہی سبب ہے کہ ہر چنیوٹی کی زندگی میں دو شہر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور ملتے ہیں، چنیوٹ اور کراچی۔
شیخ عمر حیات کا تعلق بھی انسانوں کے اسی باکمال گروہ سے تھا ۔ وہ چنیوٹ میں مقیم تھے اور کاروبار کے سلسلے میں کلکتے آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنے وقت کا یہ سخی، شام کو بازار میں بیٹھ کر ایک طرف سے پیسے بانٹنا شروع کرتا تو شام ڈھل جاتی، مگر دام نہیں ڈھلتے۔ ایسے ہی ایک لمحے میں الٰہی بخش پرجھا کا وہاں سے گزر ہوا۔ چند منزل کے تعزیے میں کئی جہان دکھانے والا یہ فن کار بھی اپنی طرز کا منعم تھا، جس کے ہاتھ میں آتے ہی لکڑی موم ہو جاتی تھی۔ پرجھا کی شہرت بکنگھم پیلس تک پھیل چکی تھی اور ملکہ برطانیہ اپنے محل کی آرایش الٰہی بخش کے سوا کسی اور سے کروانے پہ رضا مند نہیں تھی۔
اس فن کار کے بازار سے گزرنے کی دیر تھی کہ سب لوگ اس کے فن کی تعریف کرنے لگے۔ عمر حیات نے ایک راہ گیر سے اس کا پس منظر پوچھا، تو اس نے بتایا کہ یہ ایک فن کار ہے اور تم سرمایہ دار۔ تمھارا روپیہ ختم ہو جائے گا، مگر پرجھا کے فن کا تذکرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ عمر حیات نے کچھ دن سوچا اور پھر پرجھا کو بلا کر کہا کہ وہ ایک محل تعمیر کرنا چاہتا ہے، جو شان و شوکت اور خوب صورتی کا مرقع ہو۔ الٰہی بخش نے جواب دیا کہ تمھارا سرمایہ میرے فن کا بوجھ نہیں ا ٹھا سکتا۔ بھلے وقت تھے، اور لوگ مان لینے کو عافیت جانتے تھے، سو دونوں کی گفتگو کا حاصل عمر حیات محل کی صورت 1922میں بننا شروع ہوا۔
آج سے تقریباً نوے سال پہلے چار لاکھ روپے سے تیار ہونے والے اس محل میں تہ خانوں کو ملا کے پانچ منزلیں ہیں۔ اس محل کو گل زار محل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چودہ مرلے پر محیط اس عمارت کے باہر موجود باغ بعد میں تعمیر کیا گیا۔
کچھ سال پہلے یہ خوب صورت یادگار اردگرد بے طرح بننے والے گھروں کے اندر چھپ کر رہ گئی تھی۔ ''اخوت'' والے ڈاکٹر امجد ثاقب شہر میں نئے نئے آئے، تو انہیں اسے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ڈپٹی کمشنر ہونے کے علاوہ وہ صاحبِ ذوق بھی تھے، سو انھوں نے آس پاس کے گھر خرید کر جگہ صاف کروائی او ر گھاس کے تختے لگوائے۔ قلعے کی دیوار کے ساتھ اندر مڑیں اور محل کے احاطے میں داخل ہوں تو نظر ایک جھروکے پر جا رکتی ہے، جس کے نیچے ایک داخلی دروازہ ہے۔ جھروکے کی بات بعد میں اور دروازے کا ذکر پہلے۔
گھر کے اس مرکزی دروازے کے ساتھ ایک تختی پر ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان جیسے دوسرے اصحاب کا ذکر ہے، جنھوں نے اس عمارت کو موجودہ شکل میں بحال کیا۔ ایک اور تختی پر ان تمام کاری گروں کے نام درج ہیں جنھوں نے اس خواب کو تعبیر سے ہم کنار کیا۔
پانچ کھڑکیوں اور دوپہلو دریچوں پر مشتمل اس جھروکے کو اگر لکڑی کی شاعری کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دیوار سے قدرے باہر کو نکلتے ہوئے اس چوبی شاہ کار کو سہا را دینے کے لیے لکڑی کے آٹھ ستون بنائے گئے ہیں۔ پانچوں کھڑکیوں کے پٹ جُڑے ہو ئے ہیں، جو باہر کو بند ہونے پر ایک بیل کی شکل بناتے ہیں اور اندر کو کھلنے پر پھول کی صورت اختیار کرتے ہیں۔
الٰہی بخش پرجھا کی اس تخلیق کے تقریباً اسّی سال بعد ان کے پوتے اختر پرجھا نے ایسا ہی ایک جھروکا بنایا جو فیصل آباد کے ایک اور چنیوٹی گھر کی زینت ہے۔ تین تہوں میں بنے اس جھروکے کے تا ج سے لے کر ستون تک اور برجیوں سے لے کر چٹخنیوں تک ایک ایک نقش ہنر مندی کی داستان بیان کرتا ہے۔
اندر داخل ہوں تو میلا مگر خوب صورت فرش اعلیٰ ذوق کی یاد دلاتا ہے۔ دالان کے درمیان کمرۂ عدالت جیسا لکڑی کا ایک کٹہرا کھڑا ہے۔ آٹھ سال میں مکمل ہونے والا یہ محل خوب صورتی اور حسرت کا مر قع ہے ۔ روایات کے مطابق محل مکمل ہونے سے پہلے ہی عمر حیا ت انتقال کر گئے۔ شوہر کی موت سے عمر حیات کی بیوہ اور اکلوتے بیٹے کی زندگی تاریک ہو گئی۔ گھر پر چھائی افسردگی کی خاطر بیوہ ماں نے کچھ عرصے بعد اپنے بیٹے گل زار کی شادی کا اہتمام کیا۔ شادی کے کارڈ چھپے اور گل زار محل کو پہلی بار پوری طرح سجا یا گیا۔ شہر کے تما م رئوساء کو بھی بلایا گیا اور آس پاس کے دیہات کے لوگوں کو بھی کھلی دعوت دی گئی۔
ولیمے کی صبح ا س گھر کے مکینوں پر ایک اور قیامت کا سامان لائی۔ حادثے کی اصل وجہ کا علم تو اب تک نہیں ہو سکا، مگر سنا ہے کہ دولہا غسل خانے میں نصب حمام میں دم گھٹنے سے انتقال کرگیا۔ بیوہ ماں نے جنازہ نہ اٹھنے دیا اور محل کے دالان ہی میں دفن کروا دیا۔ بیٹے کی موت کے ایک ہی سال بعد عمر حیات کی بیوہ بھی چل بسییں اور وہ بھی اپنے بیٹے کے پہلو میں ہی دفن ہوئیں۔ کٹہرے میں موجود دو قبریں عمر حیات کی بیوہ اور ان کے بیٹے گل زار کی ہیں۔
صحن کے وسط میں پہلے ایک فوارہ ہوا کرتا تھا۔ فوارے سے بلند ہوتی پانی کی دھار چھت سے ٹنگے فانوس کی نوک سے متصادم ہوتی تھی ۔ زندگیوں کے چراغ گل ہوئے تو جھاڑ فانوس بھی اتر گئے اور فواروں کی جگہ قبروں نے لے لی۔ اسی صحن میں آس پاس کی دیواروں پر خوب صورت نقش و نگار بنے ہیں اور دروازوں میں شیشے جَڑے ہیں۔ اٹلی سے لائے گئے یہ رنگ دار شیشے تقریباً ایک صدی گزرنے کے با وجود آج بھی ایسے دِکھتے ہیں، گویا کل ہی بھٹی سے نکلے ہوں۔ بحالی کے دوران جب نئے شیشے لگائے گئے تو ان کی چمک کچھ عرصے بعد ماند پڑ گئی مگر پرانے شیشوں کی دمک ابھی تک ویسے ہی ہے۔
گھر کے تمام کمرے اس صحن میں بھی کھلتے ہیں اور دوسرے کمرے میں بھی۔ ہر کمرے کا فرش اور چھت کا طرز تعمیر انتہائی دل کش ہے اور دوسرے کمرے سے یک سر مختلف ہے۔ عمر حیات نے اکثر کمروں میں اپنے نام کے حروف مختلف انداز میں کندہ کروا رکھے تھے۔ کسی کمرے میں U کے درمیان H پیوست ہے، تو کہیں پھول کی پتیوں میں U اور H کی تکرار ہے۔ کھڑکیوں پر چڑھا طلائی رنگ اب بھی ماند پڑنے سے منکر ہے۔ ایک کمرے میں ٹائل اپنی جگہ سے اکھڑی تو اس کی پشت پر جاپان کی کسی فیکٹری کا پتا ملا۔ مدتوں سے برباد اس گھر میں اب بھی کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو معمولی معیار کی ہو۔
ماں اور بیٹے کی موت کے بعد عمر حیات کے خاندان کا کوئی فرد نہیں رہا۔ کہا جاتا ہے، ورثاء نے گھر کو منحوس قرار دے کر اس میں رہنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں شہر کی ایک مخیر ہستی نے یہاں یتیم خانہ کھلوا دیا۔ کچھ عرصے گھر پر ناجائز قبضہ بھی رہا اور پھر شہر میں ایک نئے ڈپٹی کمشنر آئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اطہر طاہر کی مدد سے چنیوٹ کے اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے باقاعدہ اہتمام کیا۔ اب عمر حیات محل ایک لائبریری کی حیثیت سے ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔
ایک کمرے میں لائبریری کا دفتر ہے اور دوسرے میں اس وقت کی ثقافت کی چند جھلکیاں محفوظ کی گئی ہیں، جن میں فریم میں جڑے ناخن نگاری کے چند نمونے اور عمر حیات کے استعمال میں رہنے والی گاڑ ی کے پہیے وغیرہ شامل ہیں۔ گھریلو سازو سامان میں ایک ٹارچ باقی ہے اور دولہے کا کُرتا۔ شادی کا دعوت نا مہ بھی یہیں بوسیدہ حالت میں موجود ہے۔ سامنے کے کمرے میں کچھ بھی نہیں، فقط ایک چپ چاپ سی تصویر آتش دان پر دھری ہے۔ یہ تصویر گل زار محل کے مکمل ہونے پر لی گئی تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی بالائی منزلیں گر چکی ہیں۔
بغل کے دو کمروں میں تہہ خانے ہیں۔ اچھے وقتوں میں ان میں رہایش کا سامان بھی ہوتا تھا۔ اب صرف بوسیدہ سیڑھیاں رہ گئی ہیں۔ محل کے نگراں نے جب تہ خانے کو جا نے والی سیڑھیوں کا دروازہ کھولا تو معلوم نہیں کب سے اندر قید ہوا نے سانس لیا۔ باہر کا اکتوبر اندر کے اکتوبر سے بہت مختلف تھا۔
ہر پرانی عمارت کی طرح یہاں بھی سیڑھیوں پر لکڑی کے تختے منڈھے ہیں۔ یہ تختے اس لیے چڑھائے جاتے تھے کہ چڑھتے اترتے وقت دھمک کا احساس دماغ تک نہ پہنچے۔ جس رنگ کی پچی کاری نیچے کی دیواروں پر چلی ہے، ویسے ہی نقش نگاری اوپر کی منزل میں بھی ہوئی ہے۔ پہلی منزل کی چھت اطالوی کلیسائوں کی طرز پر بنائی گئی ہے، جس پہ چاروں اطراف ہندوستان کے تاریخی مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ لاہور کے شالامار باغ سے آگرے کے تاج محل تک اور کانگڑہ کی پہاڑیوں سے جے پور کے جنتر منتر تک بنانے والے نے اس وقت کا پورا ہندوستان اس چھت پہ رنگ ڈالا ہے۔ کمروں کی ترتیب، تزئین اور آرایش قریب قریب نیچے کی منزلوں ایسی ہی ہے۔ دروازوں کی چوکھٹیں البتہ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے راستہ روکتی ہیں۔ قبضوں سے لے کر درزوں تک ہر چوکھٹ لکڑی پر شاعری کا منظر پیش کرتی ہے۔
کھڑکیوں اور دیواروں میں ہم آہنگی اس قدر نمایاں ہے، گویا ایک ہی شخص نے دونوں ہاتھوں سے اس گھر کو تعمیر کیا ہے۔ دوسری منزل البتہ بربادی کی داستان دکھاتی ہے۔ لکڑی کے چند تختے ہیں، جو اکھڑے پڑے ہیں اور چھتیں ہیں جو ادھڑ چکی ہیں۔ فرش پر کچھ بھولے بسرے نشان اب بھی باقی ہیں۔ سیڑھیوں کے کھنڈر کے ساتھ توش دان ہے، جو رات کو پانی کے برتن وغیرہ رکھنے کے کام آ تا تھا۔
یہاں سے شہر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ چھتوں سے جُڑی چھتیں اور ان کے درمیان ایک دوسرے سے بظاہر بے نیاز مگر امر بیل جیسی ایک دوسرے سے گلے ملتی اور جدا ہوتی زندگیاں، بیچ بیچ میں مسجدوں کے مینار اور ان پر چہار اطراف کو رخ کرتے لائوڈ اسپیکر، دور چمکتا موبائل ٹاور! اس آخری منزل پر شام ان تمام جزئیات کے ساتھ ہر آنے والے کا پرتپاک استقبال کرتی ہے۔
مشتاق صاحب اس محل کے نگراں بھی ہیں، تاریخ داں بھی اور نوحہ گر بھی۔ داڑھی تیزی سے سفید ہو رہی ہے۔ سوال کرو تو منہ سے معلومات کا ایک سیل بہتا ہے، ایسا لگتا ہے، گھر کے سب سے پہلے مکین وہی تھے، اور ملال ایسا کہ ہر دروازے اور ہر چوکھٹ کو چھو کر ایک ہی بات بار بار کہتے ہیں، ''محل اپنے ہی مکینوں کا مزار بن گیا!!''