تعلیم جعل سازوں کے نرغے میں
جو شکایت سامنے آتے ہی انتہائی سرعت کے ساتھ اس جرم میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے آتے ہیں۔
KABUL:
امریکا کے اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک پاکستانی کمپنی کے بارے میں یہ انکشاف کر کے تہلکہ مچا دیا کہ وہ گزشتہ 20 برس سے جعلی ڈگریاں فروخت کر رہی ہے۔ اس خبر کے شایع ہوتے ہی ہمارے تمام ریاستی ادارے یکدم فعال ہو گئے، چھاپوں اور گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس تفتیش کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ تو عدالتی تحقیق کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جعل سازی اور دھوکا دہی صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا بھر میں اس قسم کی سرگرمیوں کی سرکوبی کے لیے فعال قوانین اور مستعد انتظامی مشنری موجود ہے۔
جو شکایت سامنے آتے ہی انتہائی سرعت کے ساتھ اس جرم میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے آتے ہیں۔ جب کہ وطن عزیز میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس حوالے سے قوانین کم از کم ڈیڑھ سو برس پرانے ہیں، جب کہ ریاستی انتظامی ادارے اس اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہیں جو اس قسم کے واقعات کو گرفت میں لانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ لہٰذا ناجائز کاروبار اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایسی بے شمار کمپنیاں اور نجی ادارے ہیں جو حکومت اور اس کے انتظامی شعبہ جات کی ناک کے نیچے دھڑلے کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔
جعل سازی اور دھوکا دہی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی خود انسانی سماج کی۔ جعل ساز، دھوکے باز اور ٹھگ ہر دور میں ایک نئے انداز اور ایک نئی جہت کے ساتھ منظر عام پر آتے ہیں۔ ہر بار کسی نئے طریقے اور جدت طرازی کے ساتھ عام لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ گویا سانپ اور نیولے کا یہ کھیل جو صدیوں سے جاری ہے اور شاید جب تک اس کرہ ارض پر انسان موجود ہے، جاری رہے گا۔ جعل سازی اور دھوکا دہی دراصل منفی ذہانت (Evil Genius) رکھنے والے لوگوں کے ذہن کی اختراع ہوتی ہے، جو معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹتے ہیں۔ لیکن اکثر دولت مند افراد اپنے ناجائز کاموں کے لیے جعل سازی اور جعل سازوں کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ہمیشہ دولت مند اشرافیہ اور عمال ریاست کی سرپرستی اور تحفظ حاصل رہتا ہے اور اس چھتری تلے وہ باآسانی اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ جعل سازی اور دھوکا دہی کے لیے کوئی شعبہ مخصوص نہیں رہا ہے، بلکہ جب اور جہاں موقع ملا، انھوں نے ہر اس شعبے میں طبع آزمائی کی ہے، جس کا نظم و نسق کمزور رہا ہو۔
چونکہ زیر بحث معاملہ جعلی تعلیمی اسناد کا ہے، اس لیے اپنی گفتگو کو صرف تعلیم کے شعبے تک محدود رکھتے ہیں۔ لیکن ان معاملات کو سمجھنے کے لیے تاریخ پر سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل تعلیم معاشروں کی عام ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیمی ادارے عموماً مختلف مذاہب و عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد یا مشنری تنظیمیں قائم کیا کرتی تھیں۔ لیکن صنعتی انقلاب کے بعد تعلیم اور ہنرمند افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے ریاستوں کو مجبور کیا کہ وہ عام آدمی کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ اس مقصد کے لیے ہر ملک نے طول و عرض میں تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کیے۔
لارڈ برٹرینڈ رسل اپنی کتاب On Education میں لکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ریاستوں کو تیزی کے ساتھ پھیلتے اور پیچیدہ ہوتے ریاستی انتظامی ڈھانچے اور صنعتکاری کے ذریعے معاشی ترقی کے لیے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور ہنرمند افرادی قوت کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ لہٰذا تعلیمی اداروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی قومی تشخص کو برقرار رکھنے اور ثقافتی اقدار کی پاسداری کے معاملات بھی درپیش تھے۔ اس لیے حکومتوں نے تعلیمی اداروں کے قیام، ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کی تیاری اور تعلیمی نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں رکھنے کو ترجیح دی۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ نے اپنے ملک کے علاوہ اپنی نوآبادیات میں بھی جدید عصری تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔ لارڈ میکالے نے 1835ء میں برطانوی دارالعوام میں خطاب کے دوران برٹش انڈیا میں جدید عصری تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ چنانچہ کلکتہ کے مقام پر ہندوستانی زبانوں اور علوم سے کمپنی کے اہلکاروں کی آگہی کے لیے 1800ء میں قائم کیا جانے والا فورٹ ولیم کالج 1850ء میں بند کر دیا گیا۔ 1857ء میں کلکتہ ہی کے مقام پر برٹش انڈیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی۔ 1857ء سے 1947ء کے دوران 90 برس کے عرصے میں انگریزوں نے پبلک سیکٹر میں 21 جامعات قائم کیں، جب کہ نجی شعبے میں قائم ہونے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہندو یونیورسٹی اس کے سوا ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی تعلیمی اداروں کے معاملات میں بھی مداخلت نہیں کی۔ یوں دو متوازی تعلیمی نظاموں کی بنیاد پڑی۔
انگریزوں نے عصری تعلیم کی تمام جامعات کے نصاب اور طریقہ تدریس کو کم و بیش وہی رکھا، جو برطانیہ میں تھا۔ یوں بے شمار ہندوستانیوں نے اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ نجی شعبہ میں قائم جامعات کے لیے بھی نصاب کی تیاری اور طریقہ تدریس کا ایک نظام وضع کیا گیا۔ یوں نجی شعبے میں قائم عصری تعلیم کی جامعات کی تعلیم پبلک سیکٹر کی تعلیم سے کسی طور مختلف نہیں تھی۔ برطانیہ کی ہی طرز پر دیگر یورپی ممالک نے اپنے اپنے ممالک اور نوآبادیات میں تعلیمی نظام وضع کیا۔ یورپی ممالک میں نصاب تعلیم کی تیاری وفاقی یا مرکزی ریاست کی ذمے داری تصور کی جاتی ہے۔ جب کہ تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام مقامی سطح پر چلانے کی روایت ہے۔
امریکا اور کینیڈا میں تعلیم مکمل طور پر ریاستی (صوبائی) سبجیکٹ ہے۔ یعنی ہر ریاست کا اپنا علیحدہ نصاب ہے۔ برطانیہ میں تعلیمی اداروں کی اکثریت (تقریباً 95 فیصد) پبلک سیکٹر میں ہے۔ امریکا میں 1960ء کے عشرے سے نجی شعبے میں تعلیمی اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جب کہ 1980ء کے عشرے میں دنیا کے مختلف ممالک میں امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز کھولنے کی روایت شروع ہوئی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب دنیا یک قطبی (uni-Polar) ہو گئی اور سرمایہ داری ناقابل شکست تصور کی جانے لگی تو تعلیمی اداروں کو فرنچائز کرنے کا ایک نیا کلچر سامنے آیا۔
آج دنیا بھر میں صحت اور تعلیم کا شعبہ دولت کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کسی مرض میں مبتلا شخص کو ڈاکٹر، مریض یا Patient سمجھنے کے بجائے گاہک یا Customer کہتے ہیں، جو فکری رجحان میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا مظہر ہے۔ اسی طرح استاد اور طالب علم کا روایتی رشتہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ آج استاد کا میٹر بھی ٹیکسی کی طرح ڈاؤن رہتا ہے اور وہ گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے پیسے وصول کرتا ہے۔ اس کی طالب علم کے ساتھ کس قسم کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں رہی ہے۔ یہی حال طالب علموں کا ہے، جو تعلیمی اداروں میں اسی طرح جاتے ہیں، جیسے کسی دکان پر سودا لینے جا رہے ہوں۔
اس صورتحال نے روایتی سقراطی طریقہ تدریس کو ختم کر دیا ہے اور علم بازار میں بکنے والی شے ہو کر رہ گیا ہے۔ پھر AXACT جیسی کمپنیوں کی مارکیٹ میں بھرمار ہو گئی ہے، جو جعلی اسناد کے علاوہ ہر شعبہ میں تحقیق کے لیے تحقیقی مقالے (Research Theses) بھی فروخت کرتی ہیں، یعنی آپ اگر جعلی ڈگری نہیں چاہتے اور کسی مستند عالمی جامعہ سے تحقیق اور محنت کیے بغیر Ph.D کی ڈگری حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں، تو بھی اس قسم کی کمپنیاں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ Ph.D کے کسی بھی مضمون یا موضوع پر تیار تحقیقی مقالے مختلف قیمتوں پر ان کمپنیوں سے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں، یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا۔
پاکستان میں نجی شعبہ میں جامعات کو چارٹر دینے کا سلسلہ 1990ء کے عشرے میں شروع ہوا۔ اس سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بعض انقلابی اقدامات کیے۔ انھوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائیر ایجوکشن کمیشن بنا کر اس کی کارکردگی کو وسعت دی۔ ڈاکٹر عطاالرحمان نے بحیثیت بانی سربراہ اس ادارے کو بام عروج تک پہنچایا۔ ان کے بعد ڈاکٹر جاوید لغاری نے بھی اپنی ماہرانہ اہلیت کی بنیاد پر اس ادارے کی اہمیت اور افادیت کو برقرار رکھا۔ لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد جب تعلیم صوبائی سبجیکٹ قرار پائی اور پھر جعلی ڈگریوں کے معاملے پر حکومت جاوید لغاری سے ناراض ہوئی، تو دانستہ اس ادارے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران اس ادارے کی سرکاری اور نجی جامعات پر مانیٹرنگ کمزور پڑ گئی ہے۔ کئی ایسے اداروں کو چارٹر جاری ہوئے ہیں، جن کا مقصد فروغ تعلیم نہیں صرف دولت کمانا ہے۔ کئی ایسی جامعات ہیں، جہاں اساتذہ کی تقرری میں پیشہ ورانہ اہلیت اور میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نجی شعبہ کی بعض جامعات پر جعلی ڈگریاں تفویض کرنے کا بھی الزام لگتا رہتا ہے۔
متذکرہ بالا حوالہ جات اور ایک کمپنی کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات اس بات کی متقاضی ہیں کہ حکومت نجی شعبہ میں قائم تعلیمی اداروں کا سختی کے ساتھ ہر طرح کا آڈٹ کرے (تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی) اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے ادارے تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور کون سے تعلیم کو تجارت بنائے ہوئے ہیں۔ معاملہ صرف نجی شعبہ میں قائم جامعات تک محدود نہیں ہے۔ بگاڑ کا اصل سبب گلی گلی محلے محلے کھلے وہ نام نہاد انگریزی میڈیم اسکول بھی ہیں، جنہوں نے تعلیم کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں۔ ساتھ ہی محکمہ تعلیم میں بھی تطہیر کی ضرورت ہے، جہاں کرپشن اور بدعنوانی کے سبب تعلیم کا قتل عام ہو رہا ہے۔ لہٰذا حکومت کو صرف ایک کمپنی کے معاملات کی چھان بین تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی تمام کمپنیوں کا کھوج لگا کر ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے جو جعل سازی اور دھوکا دہی کے گھناؤنے افعال کی مرتکب ہیں۔
امریکا کے اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک پاکستانی کمپنی کے بارے میں یہ انکشاف کر کے تہلکہ مچا دیا کہ وہ گزشتہ 20 برس سے جعلی ڈگریاں فروخت کر رہی ہے۔ اس خبر کے شایع ہوتے ہی ہمارے تمام ریاستی ادارے یکدم فعال ہو گئے، چھاپوں اور گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس تفتیش کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ تو عدالتی تحقیق کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جعل سازی اور دھوکا دہی صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا بھر میں اس قسم کی سرگرمیوں کی سرکوبی کے لیے فعال قوانین اور مستعد انتظامی مشنری موجود ہے۔
جو شکایت سامنے آتے ہی انتہائی سرعت کے ساتھ اس جرم میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لے آتے ہیں۔ جب کہ وطن عزیز میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس حوالے سے قوانین کم از کم ڈیڑھ سو برس پرانے ہیں، جب کہ ریاستی انتظامی ادارے اس اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہیں جو اس قسم کے واقعات کو گرفت میں لانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ لہٰذا ناجائز کاروبار اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایسی بے شمار کمپنیاں اور نجی ادارے ہیں جو حکومت اور اس کے انتظامی شعبہ جات کی ناک کے نیچے دھڑلے کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔
جعل سازی اور دھوکا دہی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی خود انسانی سماج کی۔ جعل ساز، دھوکے باز اور ٹھگ ہر دور میں ایک نئے انداز اور ایک نئی جہت کے ساتھ منظر عام پر آتے ہیں۔ ہر بار کسی نئے طریقے اور جدت طرازی کے ساتھ عام لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ گویا سانپ اور نیولے کا یہ کھیل جو صدیوں سے جاری ہے اور شاید جب تک اس کرہ ارض پر انسان موجود ہے، جاری رہے گا۔ جعل سازی اور دھوکا دہی دراصل منفی ذہانت (Evil Genius) رکھنے والے لوگوں کے ذہن کی اختراع ہوتی ہے، جو معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹتے ہیں۔ لیکن اکثر دولت مند افراد اپنے ناجائز کاموں کے لیے جعل سازی اور جعل سازوں کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ہمیشہ دولت مند اشرافیہ اور عمال ریاست کی سرپرستی اور تحفظ حاصل رہتا ہے اور اس چھتری تلے وہ باآسانی اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ جعل سازی اور دھوکا دہی کے لیے کوئی شعبہ مخصوص نہیں رہا ہے، بلکہ جب اور جہاں موقع ملا، انھوں نے ہر اس شعبے میں طبع آزمائی کی ہے، جس کا نظم و نسق کمزور رہا ہو۔
چونکہ زیر بحث معاملہ جعلی تعلیمی اسناد کا ہے، اس لیے اپنی گفتگو کو صرف تعلیم کے شعبے تک محدود رکھتے ہیں۔ لیکن ان معاملات کو سمجھنے کے لیے تاریخ پر سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل تعلیم معاشروں کی عام ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیمی ادارے عموماً مختلف مذاہب و عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد یا مشنری تنظیمیں قائم کیا کرتی تھیں۔ لیکن صنعتی انقلاب کے بعد تعلیم اور ہنرمند افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے ریاستوں کو مجبور کیا کہ وہ عام آدمی کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ اس مقصد کے لیے ہر ملک نے طول و عرض میں تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کیے۔
لارڈ برٹرینڈ رسل اپنی کتاب On Education میں لکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ریاستوں کو تیزی کے ساتھ پھیلتے اور پیچیدہ ہوتے ریاستی انتظامی ڈھانچے اور صنعتکاری کے ذریعے معاشی ترقی کے لیے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور ہنرمند افرادی قوت کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ لہٰذا تعلیمی اداروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی قومی تشخص کو برقرار رکھنے اور ثقافتی اقدار کی پاسداری کے معاملات بھی درپیش تھے۔ اس لیے حکومتوں نے تعلیمی اداروں کے قیام، ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کی تیاری اور تعلیمی نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں رکھنے کو ترجیح دی۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ نے اپنے ملک کے علاوہ اپنی نوآبادیات میں بھی جدید عصری تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔ لارڈ میکالے نے 1835ء میں برطانوی دارالعوام میں خطاب کے دوران برٹش انڈیا میں جدید عصری تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ چنانچہ کلکتہ کے مقام پر ہندوستانی زبانوں اور علوم سے کمپنی کے اہلکاروں کی آگہی کے لیے 1800ء میں قائم کیا جانے والا فورٹ ولیم کالج 1850ء میں بند کر دیا گیا۔ 1857ء میں کلکتہ ہی کے مقام پر برٹش انڈیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی۔ 1857ء سے 1947ء کے دوران 90 برس کے عرصے میں انگریزوں نے پبلک سیکٹر میں 21 جامعات قائم کیں، جب کہ نجی شعبے میں قائم ہونے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہندو یونیورسٹی اس کے سوا ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی تعلیمی اداروں کے معاملات میں بھی مداخلت نہیں کی۔ یوں دو متوازی تعلیمی نظاموں کی بنیاد پڑی۔
انگریزوں نے عصری تعلیم کی تمام جامعات کے نصاب اور طریقہ تدریس کو کم و بیش وہی رکھا، جو برطانیہ میں تھا۔ یوں بے شمار ہندوستانیوں نے اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ نجی شعبہ میں قائم جامعات کے لیے بھی نصاب کی تیاری اور طریقہ تدریس کا ایک نظام وضع کیا گیا۔ یوں نجی شعبے میں قائم عصری تعلیم کی جامعات کی تعلیم پبلک سیکٹر کی تعلیم سے کسی طور مختلف نہیں تھی۔ برطانیہ کی ہی طرز پر دیگر یورپی ممالک نے اپنے اپنے ممالک اور نوآبادیات میں تعلیمی نظام وضع کیا۔ یورپی ممالک میں نصاب تعلیم کی تیاری وفاقی یا مرکزی ریاست کی ذمے داری تصور کی جاتی ہے۔ جب کہ تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام مقامی سطح پر چلانے کی روایت ہے۔
امریکا اور کینیڈا میں تعلیم مکمل طور پر ریاستی (صوبائی) سبجیکٹ ہے۔ یعنی ہر ریاست کا اپنا علیحدہ نصاب ہے۔ برطانیہ میں تعلیمی اداروں کی اکثریت (تقریباً 95 فیصد) پبلک سیکٹر میں ہے۔ امریکا میں 1960ء کے عشرے سے نجی شعبے میں تعلیمی اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جب کہ 1980ء کے عشرے میں دنیا کے مختلف ممالک میں امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز کھولنے کی روایت شروع ہوئی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب دنیا یک قطبی (uni-Polar) ہو گئی اور سرمایہ داری ناقابل شکست تصور کی جانے لگی تو تعلیمی اداروں کو فرنچائز کرنے کا ایک نیا کلچر سامنے آیا۔
آج دنیا بھر میں صحت اور تعلیم کا شعبہ دولت کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کسی مرض میں مبتلا شخص کو ڈاکٹر، مریض یا Patient سمجھنے کے بجائے گاہک یا Customer کہتے ہیں، جو فکری رجحان میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا مظہر ہے۔ اسی طرح استاد اور طالب علم کا روایتی رشتہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ آج استاد کا میٹر بھی ٹیکسی کی طرح ڈاؤن رہتا ہے اور وہ گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے پیسے وصول کرتا ہے۔ اس کی طالب علم کے ساتھ کس قسم کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں رہی ہے۔ یہی حال طالب علموں کا ہے، جو تعلیمی اداروں میں اسی طرح جاتے ہیں، جیسے کسی دکان پر سودا لینے جا رہے ہوں۔
اس صورتحال نے روایتی سقراطی طریقہ تدریس کو ختم کر دیا ہے اور علم بازار میں بکنے والی شے ہو کر رہ گیا ہے۔ پھر AXACT جیسی کمپنیوں کی مارکیٹ میں بھرمار ہو گئی ہے، جو جعلی اسناد کے علاوہ ہر شعبہ میں تحقیق کے لیے تحقیقی مقالے (Research Theses) بھی فروخت کرتی ہیں، یعنی آپ اگر جعلی ڈگری نہیں چاہتے اور کسی مستند عالمی جامعہ سے تحقیق اور محنت کیے بغیر Ph.D کی ڈگری حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں، تو بھی اس قسم کی کمپنیاں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ Ph.D کے کسی بھی مضمون یا موضوع پر تیار تحقیقی مقالے مختلف قیمتوں پر ان کمپنیوں سے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں، یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا۔
پاکستان میں نجی شعبہ میں جامعات کو چارٹر دینے کا سلسلہ 1990ء کے عشرے میں شروع ہوا۔ اس سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بعض انقلابی اقدامات کیے۔ انھوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائیر ایجوکشن کمیشن بنا کر اس کی کارکردگی کو وسعت دی۔ ڈاکٹر عطاالرحمان نے بحیثیت بانی سربراہ اس ادارے کو بام عروج تک پہنچایا۔ ان کے بعد ڈاکٹر جاوید لغاری نے بھی اپنی ماہرانہ اہلیت کی بنیاد پر اس ادارے کی اہمیت اور افادیت کو برقرار رکھا۔ لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد جب تعلیم صوبائی سبجیکٹ قرار پائی اور پھر جعلی ڈگریوں کے معاملے پر حکومت جاوید لغاری سے ناراض ہوئی، تو دانستہ اس ادارے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران اس ادارے کی سرکاری اور نجی جامعات پر مانیٹرنگ کمزور پڑ گئی ہے۔ کئی ایسے اداروں کو چارٹر جاری ہوئے ہیں، جن کا مقصد فروغ تعلیم نہیں صرف دولت کمانا ہے۔ کئی ایسی جامعات ہیں، جہاں اساتذہ کی تقرری میں پیشہ ورانہ اہلیت اور میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نجی شعبہ کی بعض جامعات پر جعلی ڈگریاں تفویض کرنے کا بھی الزام لگتا رہتا ہے۔
متذکرہ بالا حوالہ جات اور ایک کمپنی کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات اس بات کی متقاضی ہیں کہ حکومت نجی شعبہ میں قائم تعلیمی اداروں کا سختی کے ساتھ ہر طرح کا آڈٹ کرے (تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی) اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ کون سے ادارے تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور کون سے تعلیم کو تجارت بنائے ہوئے ہیں۔ معاملہ صرف نجی شعبہ میں قائم جامعات تک محدود نہیں ہے۔ بگاڑ کا اصل سبب گلی گلی محلے محلے کھلے وہ نام نہاد انگریزی میڈیم اسکول بھی ہیں، جنہوں نے تعلیم کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں۔ ساتھ ہی محکمہ تعلیم میں بھی تطہیر کی ضرورت ہے، جہاں کرپشن اور بدعنوانی کے سبب تعلیم کا قتل عام ہو رہا ہے۔ لہٰذا حکومت کو صرف ایک کمپنی کے معاملات کی چھان بین تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی تمام کمپنیوں کا کھوج لگا کر ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے جو جعل سازی اور دھوکا دہی کے گھناؤنے افعال کی مرتکب ہیں۔