بجلی پانی اور منصوبہ بندی کا فقدان
ان تشویشناک حالات میں متحدہ کی جانب سے پانی کے قحط کے خلاف جن مسلسل مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے
ISLAMABAD:
اگر حکمران طبقہ ملک و قوم کے مفادات اور عوام کے مسائل حل کرنے میں مخلص ہو تو اس کی نظر حال پر ہی نہیں مستقبل پر بھی ہوتی ہے۔ آج پاکستانی عوام بجلی، گیس اور پینے کے پانی جیسی لازمی ضرورت سے جس طرح محروم کر دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقات نے آج کے ان مسائل کا احساس کر کے ماضی میں ان کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اگرچہ اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے آج کا حکمران طبقہ کل (گزرے ہوئے کل) کے حکمرانوں کو مجرم ٹھہراتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا حکمران طبقہ ان جرائم کا اتنا ہی ذمے دار ہے جتنا کل کا حکمران طبقہ ذمے دار ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مسائل کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ آج کے پیدا کردہ نہیں بلکہ برسوں بلکہ عشروں پہلے کے پیدا کردہ ہیں اور آج جو حکمران ہیں وہ کل (ماضی) میں بھی حکمران رہے ہیں، اگر حکمران طبقات بجلی، گیس، پانی جیسی عوام کی ناگزیر ضرورتوں کے حوالے سے مخلص اور دور اندیش ہوتے تو وہ برسوں پہلے ہی آنے والے کل میں پیدا ہونے والے ان سنگین مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر لیتے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقات عوام سے مخلص بھی نہیں ہیں اور ان میں دور اندیشی کا فقدان بھی ہے۔
فوجی حکومتیں عام طور پر مقبول عوام نہیں کہلائیں لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ فوجی حکومتوں کے دوران عوامی مفادات کے حوالے سے اہل سیاست سے زیادہ متحرک رہے۔ مثال کے طور پر جو خرابیاں ہم آج دیکھ رہے ہیں ان کا بڑا سبب بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طویل جمہوری دور میں ایک بار بھی بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے؟ اور ہر فوجی حکومت کے دور میں ہی بلدیاتی انتخابات کیوں کرائے گئے؟
آج ملک میں پانی کا جو قحط ہے اگر ماضی میں اس حوالے سے موثر منصوبہ بندی کر لی جاتی تو آج ملک خصوصاً کراچی کو پانی کے اس قحط سے دوچار ہونا نہ پڑتا۔ آج کل پانی کے جن منصوبوں K-3، K-4 وغیرہ پر عمل درآمد نہیں ہونے کا جو رونا رویا جا رہا ہے ان منصوبوں کا آغاز بھی مشرف دور میں ہوا تھا۔ اگر حکمران طبقہ عوام سے مخلص، اہل اور فرض شناس ہوتا تو ان منصوبوں پر ترجیحاً عمل درآمد کرتا لیکن عوامی مسائل کا حل اگر حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہ ہو تو پھر ایسی ہی سنگین صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کا ہمیں آج سامنا ہے۔
بعض حلقوں بلکہ ذمے دار حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان میں غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے کے لیے سیاست دانوں کے خلاف ماحول پیدا کر رہا ہے، ہماری یہ بڑی عجیب و غریب نفسیات ہے کہ ہم اپنی غلطیوں اور حماقتوں کو چھپانے کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ بھارت خود سیاست کے حوالے سے اس قدر بدنام ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری کا مقبول موضوع ہی بھارتی راج نیتی کی کرپشن ہے۔ پاکستان میں اگر بجلی گیس کا قحط ہے، پانی نایاب ہے تو اس کی ساری ذمے داری ہمارے حکمرانوں اور اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اگر ماضی میں ان پیش آنے والے مسائل کی منصوبہ بندی کر لی جاتی تو آج ہمیں اس سنگین صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اس نااہلی کی ذمے داری اگر بھارت پر ڈالی جائے تو اسے حماقت کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بھارت بڑا معصوم ملک ہے اور ہمارے مسائل سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رائج الوقت جمہوری حکومتوں میں بھی ایک دوسرے ملکوں میں مداخلت کو جائز سمجھا جاتا ہے اور اس نیک کام میں ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
شدید گرمی کے اس موسم میں عوام بجلی، گیس کے علاوہ پانی سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں اور ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر کا حال یہ ہے کہ کراچی کربلا بنا ہوا ہے، ہر طرف پانی پانی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ ہماری اپوزیشن بجلی، پانی کے اس ہولناک قحط کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر شدت کے ساتھ آواز اٹھاتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہمارے پارلیمنٹیرین اپنی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافوں کو انجوائے کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز ترقیاتی فنڈز ہوتے ہیں۔ ایک ایک ایم این اے، ایم پی اے کروڑوں روپوں کے ترقیاتی فنڈ حاصل کرتا ہے اور اس کا استعمال کیا ہوتا ہے یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ ہے جس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہمارے منتخب نمایندوں کی ترجیحات یہ ہوں تو پھر بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کے قحط جیسے مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔
کراچی کی اس بدترین صورت حال کے خلاف ہم دوسری سیاسی جماعتوں کی چشم پوشی کی شکایت اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کے ایجنڈے، ان کے منشور میں عوامی مسائل کا ذکر اول تو ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا بھی ہے تو اس کا مقصد محض عوام کو دھوکا دینا ہوتا ہے لیکن وہ پارٹیاں جو عوامی سیاست کی دعویدار ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ہمارا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے، کے نعرے لگاتی ہیں وہ بھی ان سنگین عوامی مسائل پر منہ بند کیے بیٹھے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اگر مضطرب، بے چین اور مشتعل عوام سڑکوں پر نکل آئیں تو پھر 1968ء اور 1977ء کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔
اس ممکنہ خطرناک صورت حال سے دوچار ہونا کوئی سیاسی پارٹی خاص طور پر وڈیرہ شاہی سیاست کرنے والی پارٹیاں بالکل پسند نہیں کرتیں، اس کے برخلاف حکومت کو یہ فراخدلانہ پیش کرتی نظر آتی ہیں کہ ''ہم ہر قیمت پر حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دیں گے اور اگر حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو اس کی مزاحمت کریں گے''۔ حتیٰ کہ نئے پاکستان والے کپتان صاحب بھی کراچی کے ان سلگتے ہوئے مسائل پر زبانی کلامی گفتگو اور مذمت سے آگے جانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
ان تشویشناک حالات میں متحدہ کی جانب سے پانی کے قحط کے خلاف جن مسلسل مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے یہ بلاشبہ ایک عوام دوست رویہ ہے اور یقیناً عوام متحدہ کے ان اقدامات کو توصیف کی نظر سے دیکھیں گے، متحدہ کا یہ احتجاجی سلسلہ پرامن ہے لیکن اس سے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان مسائل خصوصاً پانی کے قحط کے حوالے سے بنیادی ذمے داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے جو پانی کی عدم دستیابی کے حوالے سے بالکل بے بس نظر آتی ہے۔
کراچی کی انتظامیہ نے پانی کے فری ٹینکروں کے ذریعے پانی کی قلت پر قابو پانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے ذریعے پانی کی قلت پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ سارا شہر ہی پانی کی قلت کا شکار ہے اور دو کروڑ سے زیادہ عوام کو ٹینکروں کے ذریعے پانی فراہم کرنا آسان نہیں۔ رمضان کی آمد آمد ہے، پانی کی سپلائی ٹینکروں سے کی جائے یا پانی سپلائی کے نظام کو بہتر بنا کر کی جائے ہر حال میں پانی کی فراہمی ضروری ہے، ورنہ عوام سڑکوں پر ہوں گے اور مفاہمتی سیاست اور فرینڈلی اپوزیشن پانی بھرتی رہ جائیں گی۔
اگر حکمران طبقہ ملک و قوم کے مفادات اور عوام کے مسائل حل کرنے میں مخلص ہو تو اس کی نظر حال پر ہی نہیں مستقبل پر بھی ہوتی ہے۔ آج پاکستانی عوام بجلی، گیس اور پینے کے پانی جیسی لازمی ضرورت سے جس طرح محروم کر دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقات نے آج کے ان مسائل کا احساس کر کے ماضی میں ان کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اگرچہ اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے آج کا حکمران طبقہ کل (گزرے ہوئے کل) کے حکمرانوں کو مجرم ٹھہراتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا حکمران طبقہ ان جرائم کا اتنا ہی ذمے دار ہے جتنا کل کا حکمران طبقہ ذمے دار ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مسائل کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ آج کے پیدا کردہ نہیں بلکہ برسوں بلکہ عشروں پہلے کے پیدا کردہ ہیں اور آج جو حکمران ہیں وہ کل (ماضی) میں بھی حکمران رہے ہیں، اگر حکمران طبقات بجلی، گیس، پانی جیسی عوام کی ناگزیر ضرورتوں کے حوالے سے مخلص اور دور اندیش ہوتے تو وہ برسوں پہلے ہی آنے والے کل میں پیدا ہونے والے ان سنگین مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر لیتے۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقات عوام سے مخلص بھی نہیں ہیں اور ان میں دور اندیشی کا فقدان بھی ہے۔
فوجی حکومتیں عام طور پر مقبول عوام نہیں کہلائیں لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ فوجی حکومتوں کے دوران عوامی مفادات کے حوالے سے اہل سیاست سے زیادہ متحرک رہے۔ مثال کے طور پر جو خرابیاں ہم آج دیکھ رہے ہیں ان کا بڑا سبب بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طویل جمہوری دور میں ایک بار بھی بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے؟ اور ہر فوجی حکومت کے دور میں ہی بلدیاتی انتخابات کیوں کرائے گئے؟
آج ملک میں پانی کا جو قحط ہے اگر ماضی میں اس حوالے سے موثر منصوبہ بندی کر لی جاتی تو آج ملک خصوصاً کراچی کو پانی کے اس قحط سے دوچار ہونا نہ پڑتا۔ آج کل پانی کے جن منصوبوں K-3، K-4 وغیرہ پر عمل درآمد نہیں ہونے کا جو رونا رویا جا رہا ہے ان منصوبوں کا آغاز بھی مشرف دور میں ہوا تھا۔ اگر حکمران طبقہ عوام سے مخلص، اہل اور فرض شناس ہوتا تو ان منصوبوں پر ترجیحاً عمل درآمد کرتا لیکن عوامی مسائل کا حل اگر حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہ ہو تو پھر ایسی ہی سنگین صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کا ہمیں آج سامنا ہے۔
بعض حلقوں بلکہ ذمے دار حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان میں غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے کے لیے سیاست دانوں کے خلاف ماحول پیدا کر رہا ہے، ہماری یہ بڑی عجیب و غریب نفسیات ہے کہ ہم اپنی غلطیوں اور حماقتوں کو چھپانے کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ بھارت خود سیاست کے حوالے سے اس قدر بدنام ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری کا مقبول موضوع ہی بھارتی راج نیتی کی کرپشن ہے۔ پاکستان میں اگر بجلی گیس کا قحط ہے، پانی نایاب ہے تو اس کی ساری ذمے داری ہمارے حکمرانوں اور اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اگر ماضی میں ان پیش آنے والے مسائل کی منصوبہ بندی کر لی جاتی تو آج ہمیں اس سنگین صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اس نااہلی کی ذمے داری اگر بھارت پر ڈالی جائے تو اسے حماقت کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بھارت بڑا معصوم ملک ہے اور ہمارے مسائل سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رائج الوقت جمہوری حکومتوں میں بھی ایک دوسرے ملکوں میں مداخلت کو جائز سمجھا جاتا ہے اور اس نیک کام میں ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
شدید گرمی کے اس موسم میں عوام بجلی، گیس کے علاوہ پانی سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں اور ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر کا حال یہ ہے کہ کراچی کربلا بنا ہوا ہے، ہر طرف پانی پانی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ ہماری اپوزیشن بجلی، پانی کے اس ہولناک قحط کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر شدت کے ساتھ آواز اٹھاتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہمارے پارلیمنٹیرین اپنی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافوں کو انجوائے کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز ترقیاتی فنڈز ہوتے ہیں۔ ایک ایک ایم این اے، ایم پی اے کروڑوں روپوں کے ترقیاتی فنڈ حاصل کرتا ہے اور اس کا استعمال کیا ہوتا ہے یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ ہے جس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہمارے منتخب نمایندوں کی ترجیحات یہ ہوں تو پھر بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کے قحط جیسے مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔
کراچی کی اس بدترین صورت حال کے خلاف ہم دوسری سیاسی جماعتوں کی چشم پوشی کی شکایت اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کے ایجنڈے، ان کے منشور میں عوامی مسائل کا ذکر اول تو ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا بھی ہے تو اس کا مقصد محض عوام کو دھوکا دینا ہوتا ہے لیکن وہ پارٹیاں جو عوامی سیاست کی دعویدار ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ہمارا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے، کے نعرے لگاتی ہیں وہ بھی ان سنگین عوامی مسائل پر منہ بند کیے بیٹھے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اگر مضطرب، بے چین اور مشتعل عوام سڑکوں پر نکل آئیں تو پھر 1968ء اور 1977ء کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔
اس ممکنہ خطرناک صورت حال سے دوچار ہونا کوئی سیاسی پارٹی خاص طور پر وڈیرہ شاہی سیاست کرنے والی پارٹیاں بالکل پسند نہیں کرتیں، اس کے برخلاف حکومت کو یہ فراخدلانہ پیش کرتی نظر آتی ہیں کہ ''ہم ہر قیمت پر حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دیں گے اور اگر حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو اس کی مزاحمت کریں گے''۔ حتیٰ کہ نئے پاکستان والے کپتان صاحب بھی کراچی کے ان سلگتے ہوئے مسائل پر زبانی کلامی گفتگو اور مذمت سے آگے جانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
ان تشویشناک حالات میں متحدہ کی جانب سے پانی کے قحط کے خلاف جن مسلسل مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے یہ بلاشبہ ایک عوام دوست رویہ ہے اور یقیناً عوام متحدہ کے ان اقدامات کو توصیف کی نظر سے دیکھیں گے، متحدہ کا یہ احتجاجی سلسلہ پرامن ہے لیکن اس سے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان مسائل خصوصاً پانی کے قحط کے حوالے سے بنیادی ذمے داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے جو پانی کی عدم دستیابی کے حوالے سے بالکل بے بس نظر آتی ہے۔
کراچی کی انتظامیہ نے پانی کے فری ٹینکروں کے ذریعے پانی کی قلت پر قابو پانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے ذریعے پانی کی قلت پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ سارا شہر ہی پانی کی قلت کا شکار ہے اور دو کروڑ سے زیادہ عوام کو ٹینکروں کے ذریعے پانی فراہم کرنا آسان نہیں۔ رمضان کی آمد آمد ہے، پانی کی سپلائی ٹینکروں سے کی جائے یا پانی سپلائی کے نظام کو بہتر بنا کر کی جائے ہر حال میں پانی کی فراہمی ضروری ہے، ورنہ عوام سڑکوں پر ہوں گے اور مفاہمتی سیاست اور فرینڈلی اپوزیشن پانی بھرتی رہ جائیں گی۔