بے نظیر کارڈ انصاف کارڈ اور کارڈ

عین ممکن ہے کہ اب حکومت ’’صحت کا میزان‘‘ لانچ کرے۔

barq@email.com

بدل رہا ہے خیبر پختون خوا ۔۔۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو جی چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر تھپڑ پہ تھپڑ، چانٹے پہ چانٹا اور لافے پر لافہ، خود اپنے آپ کو رسید کر دیں۔ حد ہو گئی ہے بے خبری، جہالت اور نالائقی کی، کہ اتنا بڑا واقعہ ہو چکا ہے اور ہماری 'اگر رہی تو وہی بے خبری رہی' کنویں کے مینڈک بنے چکر پہ چکر لگا رہے ہیں اور اوپر کنویں بھر آسمان کو دیکھ کر خود کو ماہر نجوم سمجھ رہے ہیں حالانکہ کنویں کے علاوہ پورے آسمان پر نہ جانے کیا کیا ہوتا رہتا ہے۔ویسے تو یہ ایک پورا سلسلہ ہے جو کچھ عرصے سے چل رہا ہے۔ مختلف محکمے اس ٹائٹل کے تحت اشتہار دے رہے ہیں کہ بدل رہا ہے خیبر پختون خوا ۔۔۔ لیکن اس کے نیچے ''محکمے'' اپنی ترقی کے جو اعداد و شمار دیتے تھے وہ خالص ریاضی سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں ذرا ریاضی سے پرخاش رہتی ہے' اس لیے زیادہ توجہ نہیں دے رہے تھے۔

پہلے صحت کا انصاف گزرا باقی جو بچا تھا اس پر صحت کا اتحاد برپا ہو گیا، عین ممکن ہے کہ اب حکومت ''صحت کا میزان'' لانچ کرے۔ ظاہر ہے کہ صحت پہ جو گزرتی ہے وہ دوسرے محکموں پر بھی گزرتی ہو گی اس لیے تعلیم کا انصاف، تعلیم کا اتحاد، کرپشن کا انصاف اور کرپشن کا اتحاد، یا محکمہ صحت کی رعایت سے خوراک کا انصاف اور خوراک کا اتحاد بھی چلتا رہا ہو لیکن ہمیں اس لیے پتہ نہیں چل پایا ہو گا کہ حکومت نیکی کرنے میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی خبر نہ دینے کی قائل ہے لیکن اب کے جو یہ بدل رہا ہے۔

خیبر پختون خوا کا سلسلہ پراپیگنڈا میں چل رہا ہے اس میں ''انصاف کارڈ'' کا ایک نیا آئٹم سامنے آیا ہے حالانکہ ہم نے تو سنا تھا بلکہ دیکھا ہے بلکہ دیکھ رہے ہیں کہ اشیائے خورد و برد'' کے رعایتی کارڈ تقسیم بھی ہوئے بیچے بھی گئے خریدے بھی گئے اور ڈکارے بھی گئے ہیں لیکن اب یہ نیا سلسلہ ''انصاف کارڈ'' کا شاید کچھ اور ہو، جس کے بعد ''اتحاد کارڈ'' اور میزان کارڈ بھی متوقع ہیں اور آخر میں شاید کارڈوں کا اتحاد بھی لانچ ہو جائے، بات چلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی، خیر کارڈوں کے سلسلے میں تو ہم کچھ زیادہ خوش نصیب اور خوش فہم نہیں ہیں کیونکہ بچپن اور جوانی میں جب بھی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی نقصان ہی نقصان میں رہے صرف اس وجہ سے نہیں کہ اچھے کارڈ ہمارے پاس کبھی نہیں تھے اور دنیا بھر کے سارے نکمے نکھٹو کارڈ قطار باندھے چلے آتے تھے جن کو چھپانا بھی مشکل ہوتا اور کھیلنا بھی، ہارتے تو رہتے تھے لیکن کبھی کبھی بزرگ لوگ رنگے ہاتھوں آلات قمار بازی سمیت پکڑ کر مارتے بھی بہت تھے حالانکہ ہم جو ترپ وغیرہ کے کھیل کھیلتے تھے ان میں ''جوئے'' کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی ان کم بخت کارڈ پسندی نے ہمارا شمار پکے ''جواگروں'' میں کرا دیا تھا، ظاہر ہے کہ ''کارڈ'' کے نام ہی سے ہمیں الرجی ہو گئی ہے۔

خدا خدا کر کے راشن کارڈوں وغیرہ سے جان چھوٹی تھی کہ اب یہ بھانت بھانت کے نئے کارڈ ... ممکن ہے کارڈوں سے ہم مانوس بھی ہو جاتے لیکن خدا بھلا کرے جناب زرداری نے جو سب پر بھاری بھی تھے جن بے نظیر کارڈوں کا اجراء کیا زندگی کی ہر ہر سطح پر ان کارڈوں نے وہ انقلاب برپا کیے کہ جدھر دیکھیے ادھر کارڈ ہی کارڈ، بلکہ ہمیں تو ان کارڈوں نے کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا محلے کے جن جن نکمے نکھٹو لوگوں کو ہم کوئی کام کرنے کی نصیحتیں کرتے رہتے تھے آج کل وہ ہمیں طعنے مار رہے ہیں کہ ہم نے تو کچھ بھی نہ کر کے فلاں کارڈ پایا تم نے کیا پایا

شورِ پَند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا


ہمارے محلے بلکہ گھر سے متصل ایسا ہی گھرانا تھا جو ھمہ آفتاب رہتا تھا، بیٹا فارغ باپ نے بچپن سے اب تک کام نام کی کوئی غلطی نہیں کی تھی اس لیے اس کا گزارہ گرد و نواح میں خیراتوں، زکوٰتوں پر چل رہا تھا اس کی بیوی یعنی مادر خاندان چند گھروں میں کام کرتی تھی لیکن اپنی نایاب نسل بڑھانے کے لیے بیٹے کی شادی بھی ضروری تھی اس لیے وہ بھی اپنی نسل بڑھانے کو کام سمجھ کر کرنے لگا تھا پھر اچانک...آیا وہ زمانہ جب جہاں میں ''جام جم'' نکلے، ایک نے عشر و زکوٰۃ کو وسیلہ ظفر بنایا، بیٹے اور ماں نے بے نظیر کارڈ کا تحفہ پایا اور بہو نے ''گروتی'' یعنی ماں بننے کا کارڈ حاصل کر لیا، بچوں کو کسی نہ کسی این جی او میں کھپایا چنانچہ آج کل وہ ہماری طرف نہایت طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا دیتا ہے 'ساتھ ہی تقریباً چھ بچوں کے مختلف مراحل کے لیے حکومتی پیکیجوں سے کارڈ بنوانے میں لگا ہوا ہے چنانچہ اس کے گھر سے جو بگاروں اور پکوانوں کی خوشبوئیں اٹھتی رہتی ہیں وہ برداشت کے لائق بالکل نہیں ہوتیں ابھی ہم ۔۔۔ وہ ۔۔۔ ایک ٹپہ سن لیجیے

دپلار زانگو مے زانگولہ
ناسا پہ غگ شو چہ نیکہ دے پیدا شو نہ

یعنی میں اپنے باپ کا جھولا جھلا رہا تھا کہ ناگہاں خوش خبری ملی کہ تمہارا دادا بھی پیدا ہو گیا، یعنی انصاف کارڈ، جو یقیناً آخری نہیں بلکہ اس کے بعد اتحاد کارڈ اور میزان کارڈ آیا ہی چاہتے ہیں، ایسے میں سب سے بڑا مسئلہ کسانوں اور زمین داروں بلکہ سوداگروں تک کو درپیش ہے۔ کوئی مزدور مل نہیں رہا ہے کیوں کہ اتنے کارڈوں کی موجودگی میں کوئی پاگل ہی ہو گا جو مزدوری کے لیے جائے گا چاہے قطاروں میں کتنے ہی دن کیوں نہ ہو جائیں، مفت کا ذائقہ کچھ اور ہوتا ہے، بہت پرانے زمانے کی بات ہے ہمارے ساتھ کھیت میں ایک میاں صاحب ڈیڑھ روپے روزانہ کے حساب سے مزدوری کرتا تھا بڑا محنتی آدمی تھا ہمارے والد کی بھی اس سے نبھ گئی تھی لیکن گندم کی گہائی کے دنوں میں اس شخص نے کام پر آنا چھوڑ دیا۔ پتہ لگایا تو بولا کہ فلاں فلاں گاؤں کا فلاں فلاں خان مجھے گندم دیتا ہے اس لیے وہاں جاتا ہوں، تھریشر کا زمانہ نہیں تھا پرانے طریقے پر گہائی اور صفائی ہوتی تھی جس کا دارومدار ''ہوا'' پر ہوتا تھا۔

ہوا لگتی تو کام ہوتا تھا نہ لگتی پو پڑے رہتے چنانچہ کبھی کبھی گندم کی صفائی میں ہفتوں مہینوں لگ جاتے تھے آخر کار ایک دن وہ بوری میں تھوڑی سی گندم پشت پر لٹکائے آیا تو پتہ چلا کہ اٹھارہ دن کے آنے جانے کے بعد دس بارہ سیر گندم مل گئی، ہمارے والد نے حساب لگایا تو وہ گندم سے زیادہ آٹھ دس روپے کی تھی لیکن اس شخص نے ڈیڑھ روپے دیہاڑی کے حساب سے اس پر ستائیس روپے خرچ کیے تھے پھر بھی وہ خوش تھا کیوں کہ خیرات میں لوٹ کا جو مزہ ہوتا ہے اور مفت کا تڑکا لگا ہوتا ہے وہ بہت ہی طاقتور ہوتا ہے

ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
Load Next Story