دہشت گردی کا دوسرا نام ’’را‘‘
کراچی کی خون آشامی پر بھی سپریم کورٹ مختلف حکومتی اداروں اور شخصیات کو بلاکر جواب طلبی اور سرزنش کرتی رہی ہے۔
لگتا ہے محرومیاں، ناکامیاں، پریشانیاں اور سانحات پاکستانی قوم کا مقدر بن چکی ہیں، کوئی ہی دن گزرتا ہے جب دہشت گردی، انسانیت سوزی اور قانون شکنی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہو۔ اگر ان کی تاریخ وار ترتیب کی جائے تو ہر دن سے کسی نہ کسی تلخ واقعہ یاد دلائے گا۔ 12 مئی کو عدالتوں پر ایک فوجی ڈکٹیٹر کے شب خون مارنے کی یاد میں یوم سیاہ منایا جارہا تھا کہ 13 مئی کو صفورہ گوٹھ پر اسماعیلی برادری کی بس میں فائرنگ میں 46 انسانی زندگیوں کے چراغ گل کردیے جانے پر قوم افسردہ ہوگئی۔ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے سروں، گردنوں اور چہروں کو نشانہ بنایاگیا جس کے لیے مختلف قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا تھا، دہشت گرد اتنے تربیت یافتہ، منظم اور آراستہ تھے کہ انھوں نے پولیس یا سیکیورٹی کی وردی بھی استعمال کی اور مین روڈ کے ایک سنسان مقام پر یہ کارروائی کرکے اطمینان سے فرار ہوگئے۔
یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ دہشتگردی نقل و حرکت اور کارروائیوں میں آزاد تھے، شہر میں سرچ آپریشن، سخت سیکیورٹی کے باوجود اس قسم کی کارروائیاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ پولیس خوفزدہ بھی ہے اور سیاست زدہ بھی، اس میں فرض شناس پولیس اہلکاروں کے لیے قتل، تنزلی اور معطلی ہے جب کہ فرض مہم جوؤں اور خوشامدی پولیس افسران کے لیے ترقیاں، تعیناتیاں اور انعامات و اکرامات ہیں۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ نے خود بھی ایکشن لیا ہے اور حق تلفی و نا انصافی کا شکار پولیس افسران نے خود بھی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔
کراچی کی خون آشامی پر بھی سپریم کورٹ مختلف حکومتی اداروں اور شخصیات کو بلاکر جواب طلبی اور سرزنش کرتی رہی ہے۔ جب کشت و خون حد سے بڑھ جاتا ہے تو ارباب اختیار کراچی میں ایک دو روز قیام کرتے ہیں، اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں، دہشت گردی پر قابو پانے اور ختم کے عزم اور اقدامات کے اعلانات ہوتے ہیں۔ سانحہ صفورا کے بعد بھی حکمرانوں کے علاوہ بیرونی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مذمت کے بیانات آئے۔ آرمی چیف کے زیر صدارت ایپکس کمپنی کے اجلاس میں سیاسی و مذہبی امتیاز کے بغیر گرفتاریوں کا فیصلہ کیا گیا ہے، ملک دشمن قوتوں سے رابطہ رکھنے اور مالی امداد کرنیوالوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے دورے کے موقع پر آرمی چیف نے کہاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنیوالی ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کی جائے، دشمن ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں، سیکریٹری خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی کا دوسرا نام ''را'' ہے، انھوں نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کی وارداتوں میں ''را'' کے ملوث ہونے کے ثبوت بھارت کو فراہم کردیے ہیں۔ نئی دہلی اپنی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان میں دہشت گردی سے روکے ورنہ ہم بھرپور جواب دیںگے۔ملک میں طویل عرصے سے منظم دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے جو ریاست کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، دہشت گردی کے واقعات حکومتی اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں اور اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ ان دہشت گردانہ واقعات میں ملوث حملہ آوروں کو بیرونی مدد و معاونت کے علاوہ اندرونی معاونت بھی حاصل ہے۔
فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانے کی پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے، یہ سب کچھ ایک منظم سازش اور منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہاہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی غیر معمولی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بھاری بجٹ کے ساتھ اپنی خفیہ ایجنسی کو خصوصی مہم شروع کرنے کی ہدایات دی ہیں، پاکستان نے افغانستان سے ''را'' کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بڑی دہشت گردانہ کارروائیوں کے علاوہ اعلیٰ پولیس افسران، سماجی و سیاسی شخصیات، ڈاکٹروں، وکلا اور علما کا سرعام قتل اپنے اندر کئی پہلو اور پیغامات پنہاں رکھتا ہے۔
کراچی میں مختلف مکتبہ فکر اور شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے علما، اساتذہ، دانشور، وکلا اور سماجی شخصیات کے قتل کے پیچھے کون سا ہاتھ اور کون سے مقاصد کارفرما ہیں؟ پچھلے دنوں کراچی پولیس نے اپنی فرانزک رپورٹ اور تحقیقات کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں مختلف مسلکی، مذہبی، لسانی شناخت اور مختلف سیاسی و نظریاتی سوچ رکھنے والے 100 افراد کو دو پستولوں سے قتل کیا گیا تھا، جس کا سیدھا سادا مطلب و مقصد مختلف ملکوں، لسانی اکائیوں اور سیاسی گروہوں کو آپس میں دست و گریباں کرکے ملک میں انتشار کی صورت حال پیدا کرنے کی کوششوں کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب، قوم یا سیاسی نظریہ نہیں ہوتا ہے، ایسے لوگوں کی پشت پناہی اور معاونت میں بیرونی ہاتھ کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں جاری طویل ترین دہشت گردی میں اندرونی و وبیرونی قوتوں اور خفیہ ہاتھوں کے علاوہ ''را'' اور ''موساد'' کی جانب سے تخریبی کارروائیوں اور اس میں ملوث گروہوں کی مالی، عسکری اعانت اور سرپرستی شامل ہے جس میں ان کے سفارت خانے بھی ملوث ہیں۔
حکومت ایسے واقعات پر دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے، خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنے، دشمن کو منہ توڑ جواب دینے، تعزیت و افسوس کرنے، قومی پرچم سرنگوں کرنے، یوم سیاہ، یوم سوگ، گرفتاریوں کے لیے انعامات کے اعلانات کرنے اور مجرموں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ حکومتی ذمے داروں کے اپنے بیانات اور دعوؤں میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ دہشت گردی و دیگر سیاسی و معاشی مسائل کی وجہ بھی ناقص طرز حکمرانی، بد عنوانی، انتظامی بدنظمی، محکموں میں باہمی روابط کا فقدان اور انصاف و احتساب کا نہ ہونا ہے، جن کے حل کے لیے وقت، عجلتی اور شخصی قسم کے فیصلے، قانون سازی اور ادارہ سازی کی جاتی ہے لیکن ان کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ شکوک و شبہات اور تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس گواہوں کے تحت کا قانون اور خصوصی فوجی عدالتیں قائم کرنے، بغیر وارنٹ کے گرفتاریاں کرنے، 90 دن تک زیر حراست کو نامعلوم رکھنے کی مشتبہ شخص کو موقع پر ہلاک کردینے، گواہوں کی شناخت چھپانے جیسے اختیارات پر سیاسی، سماجی اور خاص طور قانونی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار اور مزاحمت دیکھنے میں آئی تھی۔ گزشتہ دنوں 21 ویں ترمیم کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ نہیں حکومت، انتظامیہ اور سول اداروں کی ناکامی ہے۔
دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے20 نکاتی قومی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا جس کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان روابط کو بہتر و موثر بنانے کے لیے مشترکہ ڈائریکٹریٹ کا قیام، کاؤنٹر ٹیرازم کے لیے رپیڈ رسپانس فورس کا قیام تاکہ خفیہ معلومات کے حصول پر فوری کارروائی عمل میں لا کر دہشت گردوں کو بھرپور جواب اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کیاجاسکے، پھانسی کی سزاؤں پر فوری عملدرآمد کیا جاسکے، انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط، موثر اور فعال بنایا جائے، لیکن نیکٹا فعال ہوسکا نہ سزائے موت پر یکدم اور بلا تخصیص عمل درآمد ہوا جس نے آپریشن سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
''را'' کے لیے تو یہ نادر اور سنہری موقع ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو فاٹا، بلوچستان اور کراچی آپریشن میں پھنسا دیکھ کر ایک طرف دہشت گردوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرکے مقابلے کے لیے تیار کرے اور دوسری جانب لوگوں میں احساس محرومی اور بغاوت کے جذبات کو پروان چڑھا کر انتشار و انارکی کی فضا پیدا کرکے ملک کی معیشت اور دفاع کو کمزور کرے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے محض عسکری ہی نہیں دانشمندانہ سیاسی فیصلوں، قانون کی بالادستی کی ضرورت ہے حکومت کو تمام بین الاقوامی فورسز پر دہشت گردی کے فروغ میں بھارت کے کردار کو بے نقاب کرکے اسے روکنے کی کوششیں کرنا چاہیے، ملک میں دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب اور جو لوگ اور تنظیمیں اس میں ملوث ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر فری اینڈ فیئر ٹرائل کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے، قومی اداروں پر عوام کا متزلزل اور اٹھتا ہوا اعتماد اسی صورت میں بحال ہوسکتا ہے۔
یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ دہشتگردی نقل و حرکت اور کارروائیوں میں آزاد تھے، شہر میں سرچ آپریشن، سخت سیکیورٹی کے باوجود اس قسم کی کارروائیاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ پولیس خوفزدہ بھی ہے اور سیاست زدہ بھی، اس میں فرض شناس پولیس اہلکاروں کے لیے قتل، تنزلی اور معطلی ہے جب کہ فرض مہم جوؤں اور خوشامدی پولیس افسران کے لیے ترقیاں، تعیناتیاں اور انعامات و اکرامات ہیں۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ نے خود بھی ایکشن لیا ہے اور حق تلفی و نا انصافی کا شکار پولیس افسران نے خود بھی عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔
کراچی کی خون آشامی پر بھی سپریم کورٹ مختلف حکومتی اداروں اور شخصیات کو بلاکر جواب طلبی اور سرزنش کرتی رہی ہے۔ جب کشت و خون حد سے بڑھ جاتا ہے تو ارباب اختیار کراچی میں ایک دو روز قیام کرتے ہیں، اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں، دہشت گردی پر قابو پانے اور ختم کے عزم اور اقدامات کے اعلانات ہوتے ہیں۔ سانحہ صفورا کے بعد بھی حکمرانوں کے علاوہ بیرونی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مذمت کے بیانات آئے۔ آرمی چیف کے زیر صدارت ایپکس کمپنی کے اجلاس میں سیاسی و مذہبی امتیاز کے بغیر گرفتاریوں کا فیصلہ کیا گیا ہے، ملک دشمن قوتوں سے رابطہ رکھنے اور مالی امداد کرنیوالوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے دورے کے موقع پر آرمی چیف نے کہاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنیوالی ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کی جائے، دشمن ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں، سیکریٹری خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی کا دوسرا نام ''را'' ہے، انھوں نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کی وارداتوں میں ''را'' کے ملوث ہونے کے ثبوت بھارت کو فراہم کردیے ہیں۔ نئی دہلی اپنی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان میں دہشت گردی سے روکے ورنہ ہم بھرپور جواب دیںگے۔ملک میں طویل عرصے سے منظم دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے جو ریاست کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، دہشت گردی کے واقعات حکومتی اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں اور اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ ان دہشت گردانہ واقعات میں ملوث حملہ آوروں کو بیرونی مدد و معاونت کے علاوہ اندرونی معاونت بھی حاصل ہے۔
فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانے کی پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے، یہ سب کچھ ایک منظم سازش اور منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہاہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی غیر معمولی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بھاری بجٹ کے ساتھ اپنی خفیہ ایجنسی کو خصوصی مہم شروع کرنے کی ہدایات دی ہیں، پاکستان نے افغانستان سے ''را'' کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بڑی دہشت گردانہ کارروائیوں کے علاوہ اعلیٰ پولیس افسران، سماجی و سیاسی شخصیات، ڈاکٹروں، وکلا اور علما کا سرعام قتل اپنے اندر کئی پہلو اور پیغامات پنہاں رکھتا ہے۔
کراچی میں مختلف مکتبہ فکر اور شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے علما، اساتذہ، دانشور، وکلا اور سماجی شخصیات کے قتل کے پیچھے کون سا ہاتھ اور کون سے مقاصد کارفرما ہیں؟ پچھلے دنوں کراچی پولیس نے اپنی فرانزک رپورٹ اور تحقیقات کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں مختلف مسلکی، مذہبی، لسانی شناخت اور مختلف سیاسی و نظریاتی سوچ رکھنے والے 100 افراد کو دو پستولوں سے قتل کیا گیا تھا، جس کا سیدھا سادا مطلب و مقصد مختلف ملکوں، لسانی اکائیوں اور سیاسی گروہوں کو آپس میں دست و گریباں کرکے ملک میں انتشار کی صورت حال پیدا کرنے کی کوششوں کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب، قوم یا سیاسی نظریہ نہیں ہوتا ہے، ایسے لوگوں کی پشت پناہی اور معاونت میں بیرونی ہاتھ کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں جاری طویل ترین دہشت گردی میں اندرونی و وبیرونی قوتوں اور خفیہ ہاتھوں کے علاوہ ''را'' اور ''موساد'' کی جانب سے تخریبی کارروائیوں اور اس میں ملوث گروہوں کی مالی، عسکری اعانت اور سرپرستی شامل ہے جس میں ان کے سفارت خانے بھی ملوث ہیں۔
حکومت ایسے واقعات پر دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے، خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنے، دشمن کو منہ توڑ جواب دینے، تعزیت و افسوس کرنے، قومی پرچم سرنگوں کرنے، یوم سیاہ، یوم سوگ، گرفتاریوں کے لیے انعامات کے اعلانات کرنے اور مجرموں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ حکومتی ذمے داروں کے اپنے بیانات اور دعوؤں میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ دہشت گردی و دیگر سیاسی و معاشی مسائل کی وجہ بھی ناقص طرز حکمرانی، بد عنوانی، انتظامی بدنظمی، محکموں میں باہمی روابط کا فقدان اور انصاف و احتساب کا نہ ہونا ہے، جن کے حل کے لیے وقت، عجلتی اور شخصی قسم کے فیصلے، قانون سازی اور ادارہ سازی کی جاتی ہے لیکن ان کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ شکوک و شبہات اور تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس گواہوں کے تحت کا قانون اور خصوصی فوجی عدالتیں قائم کرنے، بغیر وارنٹ کے گرفتاریاں کرنے، 90 دن تک زیر حراست کو نامعلوم رکھنے کی مشتبہ شخص کو موقع پر ہلاک کردینے، گواہوں کی شناخت چھپانے جیسے اختیارات پر سیاسی، سماجی اور خاص طور قانونی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار اور مزاحمت دیکھنے میں آئی تھی۔ گزشتہ دنوں 21 ویں ترمیم کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ نہیں حکومت، انتظامیہ اور سول اداروں کی ناکامی ہے۔
دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے20 نکاتی قومی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا جس کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان روابط کو بہتر و موثر بنانے کے لیے مشترکہ ڈائریکٹریٹ کا قیام، کاؤنٹر ٹیرازم کے لیے رپیڈ رسپانس فورس کا قیام تاکہ خفیہ معلومات کے حصول پر فوری کارروائی عمل میں لا کر دہشت گردوں کو بھرپور جواب اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کیاجاسکے، پھانسی کی سزاؤں پر فوری عملدرآمد کیا جاسکے، انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط، موثر اور فعال بنایا جائے، لیکن نیکٹا فعال ہوسکا نہ سزائے موت پر یکدم اور بلا تخصیص عمل درآمد ہوا جس نے آپریشن سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
''را'' کے لیے تو یہ نادر اور سنہری موقع ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو فاٹا، بلوچستان اور کراچی آپریشن میں پھنسا دیکھ کر ایک طرف دہشت گردوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرکے مقابلے کے لیے تیار کرے اور دوسری جانب لوگوں میں احساس محرومی اور بغاوت کے جذبات کو پروان چڑھا کر انتشار و انارکی کی فضا پیدا کرکے ملک کی معیشت اور دفاع کو کمزور کرے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے محض عسکری ہی نہیں دانشمندانہ سیاسی فیصلوں، قانون کی بالادستی کی ضرورت ہے حکومت کو تمام بین الاقوامی فورسز پر دہشت گردی کے فروغ میں بھارت کے کردار کو بے نقاب کرکے اسے روکنے کی کوششیں کرنا چاہیے، ملک میں دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب اور جو لوگ اور تنظیمیں اس میں ملوث ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر فری اینڈ فیئر ٹرائل کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے، قومی اداروں پر عوام کا متزلزل اور اٹھتا ہوا اعتماد اسی صورت میں بحال ہوسکتا ہے۔