لکھے پڑھے دہشت گرد
اگر وہ تعلیمی ادارے سیکولر طرز کی تعلیم کا فروغ نہیں بھی کرتے تب بھی وہاں کا ماحول بہت لبرل ہوا کرتا ہے۔
وہ دہشتگرد جو سانحہ صفورا کے حوالے سے گرفتار ہوچکے ہیں۔ ان دہشتگردوں کے بارے میں اب تک میڈیا پر جو معلومات آئی ہے اس سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گروہ کا سرغنہ تو کسی مدرسے کی پیداوار نہیں تھا۔ وہ نہ تو کسی عرب ملک میں پیدا ہوا اور نہ اس کی تعلیم و تربیت افغانستان میں ہوئی۔ وہ شخص نہ صرف اس ملک کا ہے بلکہ وہ اس ملک کے ان تعلیمی اداروں میں جدید تعلیم حاصل کرتا رہا جو تعلیمی ادارے تشدد کے خلاف درس دیتے ہیں۔
اگر وہ تعلیمی ادارے سیکولر طرز کی تعلیم کا فروغ نہیں بھی کرتے تب بھی وہاں کا ماحول بہت لبرل ہوا کرتا ہے۔ جہاں لڑکے اور لڑکیاں آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ وہ اسکول کی طرف سے منعقد ہونے والی پارٹیز میں شرکت کرتے ہیں اور اسٹیج پر ایک دوسرے کے ساتھ انگریزی میں ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ وہ جب پکنک پارٹیز پر جاتے ہیں تو ان میں ایک بے تکلف سا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ وہاں کا ماحول مغرب کے بارے میں منفی سوچ کو فروغ نہیں دیتا۔ پھر آخر کیا سبب ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل بدترین دہشتگردی کے مرتکب ہوتے ہیں؟
اس سوال پر حیران اور پریشان ہونے کے بجائے ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ہم شتر مرغ کے مانند اپنا سر ریت میں چھپا کر طوفان سے بچ نہیں سکتے۔ کیوں کہ اس طوفان میں بہت کچھ برباد ہوگیا ہے اور ابھی تک یہ طوفان تھما نہیں۔ اب تک اس صحرا جیسے معاشرے میں طوفاں بدستور چل رہا ہے۔ اس طوفان نے اپنی شدید اور خطرناک ہواؤں میں بہت کچھ اڑایا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے صفورا چورنگی کے قریب پچاس کے قریب نہتے مسافر اپنے لہو میں تیرتے نظر آئے۔ اس طوفان کی نذر ہوئی وہ سبین محمود جو ایک امید تھی، اس نے شادی نہیں کی مگر اس کے سینے میں ایک ماں کا دل تھا۔
اب بھی جب میں اپنے دوست کے ساتھ کافی پینے جاتا ہوں تو اس آرٹسٹک کیفے ہاؤس کی دیواروں پر بنے ہوئے نقش اور لکھے ہوئے الفاظ فریاد کرتے نظر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ خاتون کس قدر حساس اور انسان دوست تھی اور جب ہم میڈیا میں پڑھتے ہیں کہ سبین کا قاتل اس کیفے میں آتا جاتا تھا اور اس نے سبین کو ان خیالات کی وجہ سے قتل کیا جن خیالات کو آج ریاست ملک اور معاشرے کے لیے مثبت سمجھتی ہے تو ہم ایک الجھن میں پڑجاتے ہیں۔ تب ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا صرف خیالات کی بنیاد پر اس ملک کی سڑکوں پر ریکی کی جائے گی اور نامعلوم دہشتگرد بہت قریب سے گولیوں کی بوچھاڑ میں ان انسانوں کو قتل کردیں گے جن کے خیالات مختلف ہیں۔ ان لوگوں میں تو ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم جو یہ الفاظ لکھ رہے ہیں کہ ایک آزاد معاشرہ ہی ایک اصل اور حقیقی معاشرہ ہوا کرتا ہے تو کیا ہم اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں؟
ہر معاشرے میں مختلف خیالات کے لوگ ہوا کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو صرف اس لیے قتل کیا جائے کہ اس کے خیالات آپ سے الگ ہیں۔ جس طرح انسانوں کی صورتیں جدا ہیں اسی طرح ان کے خیالات بھی الگ ہیں اور خیالات کا فرق معاشرے کو خوبصورتی عطا کرتا ہے۔ اس لیے جو لوگ سوچ کے اختلاف پر گولی چلاتے ہیں وہ آزادی کے دشمن ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ان تعلیمی اداروں میں پڑھے ہیں جہاں اختلاف کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ان لوگوں نے ان تعلیمی اداروں سے کچھ نہیں سیکھا۔ انھوں نے وہاں سے اچھی انگریزی کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعور حاصل کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ سارا علم اور ساری عقل معاشرے کی بہتری میں استعمال ہونے کے بجائے معاشرے میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوئی۔
وہ لوگ جو گرفتار ہوئے ہیں انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ موبائل فون میں ایک ایسا سافٹ ویئر استعمال کرتے تھے جس کو ''ٹاکری'' کہا جاتا ہے اور جس کی مدد سے موبائل فون مخصوص نیٹ ورک کے لیے واکی ٹاکی بن جاتا ہے اور اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ جب یہ دہشتگرد اس قسم کی جدید سائنس کو عمل میں لاتے ہیں تو پھر ہم ان کو کس طرح بے سمجھ کہیں اور پھر ہم کس طرح یہ دلیل پیش کریں کہ اگر پاکستان میں تعلیم عام ہوئی تو پھر دہشتگردی خود بخود ختم ہوجائے گی۔ ہم آج تک اس بات کو مانتے چلے آرہے ہیں کہ دہشتگردی کی جڑ جہالت میں ہے۔ جب تعلیم آئے گی تو دہشتگردی ختم ہوجائے گی۔ مگر جب سنگین وارداتوں کے مرتکب لوگ اعلیٰ اور جدید تعلیم والے ہوں تو پھر ہمارا ساتھ یہ دلیل بھی چھوڑ دیتی ہے اور ہم حیرت کے جزیرے میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں جاری آپریشن کے باعث دہشتگردوں کی طاقت میں بڑی کمی آئی ہے مگر ان کا وجود ابھی تک موجود ہے۔ اس وقت بھی پاک فوج کے جوان وانا اور وزیرستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہے ہیں مگر جب ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ صرف ملک کے دور دراز علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی کے پوش علاقوں کے بنگلوں میں بھی بدترین دہشتگردی کے منصوبے بنتے ہیں تو پھر انسان یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر ہم کہاں جائیں؟
جب تک صرف جہالت کے اندھیروں میں رہنے والے لوگ دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث تھے تو ہمیں کم از کم یہ امید تو تھی کہ جب علم کی روشنی پھیلے گی تب یہ وحشت اور درندگی اپنی موت آپ مر جائے گی مگر جب امیر لوگوں کے وہ بچے جو جدید تعلیم کے زیورسے آراستہ ہیں جب وہ بھی لوگوں پر بارود کی بارش کریں تو پھر ہماری امید کے دامن میں کیا رہ جاتا ہے؟
ہم دہشتگردی کی جتنی مذمت کریں وہ کم ہے۔ مگر اس بات کو ذہن نشین کرنا اہم ہے کہ صرف مذمت سے دہشتگردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت ہمارے میڈیا نے دہشتگردی کے حوالے سے انسانی ضمیر کو بیدار کرنے اور لوگوں کو تشدد سے دور رکھنے کے لیے کتنا کردار ادا کیا ہے۔ مگر کیا ہوا؟ جب ان خیالات کو سننے والے لوگ بظاہر خاموش رہتے ہیں اور ہمارے معاشرے کے نام نہاد لکھے پڑھے لوگ انسانی خون کو پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ اور جب میڈیا میں یہ خبریں آتی ہیں کہ انسانی خون کے ساتھ ہولی کھیلنے والے درندے دور دراز علاقوں سے نہیں آئے۔ وہ اسی شہر کے امیر علاقوں میں آباد تھے اور انھوں نے دھوراجی جیسے سرمائے دار علاقے میں وحشی کارروائی کا منصوبہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے نہتے اور پرامن انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تو ایسی خبریں ہمیں مایوسی کی دلدل میں مزید دھکیل دیتی ہیں اور ہم سوچنے لگتے ہیں کہ اگر علم کے چراغوں سے بھی گھر جلنے لگے تو پھر امن کی امید کس سے رکھی جائے؟
کاش! یہ پڑھے لکھے دہشت گرد اس دھرتی کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی یہ نظم اپنی روح پر نقش کرتے تو شاید اس قدر وحشی نہ بنتے۔ وہ نظم جس میں ایاز نے لکھا ہے کہ:
اب تو بھنگی دھو گئے ہیں راستوں کو
خون انساں نالیوں میں بہہ رہا ہے
اور سبھی سے کہہ رہا ہے
میں کہ مچھلی اور چاول سے بنا ہوں
نغمہ ٹیگور بھی ہوں
اور سگندھوں میں پلا ہوں
مجھ سے ایک ٹیکہ تو لگاؤ
اس طرح میں رائیگاں ہونے نہ پاؤں
اگر وہ تعلیمی ادارے سیکولر طرز کی تعلیم کا فروغ نہیں بھی کرتے تب بھی وہاں کا ماحول بہت لبرل ہوا کرتا ہے۔ جہاں لڑکے اور لڑکیاں آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ وہ اسکول کی طرف سے منعقد ہونے والی پارٹیز میں شرکت کرتے ہیں اور اسٹیج پر ایک دوسرے کے ساتھ انگریزی میں ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ وہ جب پکنک پارٹیز پر جاتے ہیں تو ان میں ایک بے تکلف سا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ وہاں کا ماحول مغرب کے بارے میں منفی سوچ کو فروغ نہیں دیتا۔ پھر آخر کیا سبب ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل بدترین دہشتگردی کے مرتکب ہوتے ہیں؟
اس سوال پر حیران اور پریشان ہونے کے بجائے ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ہم شتر مرغ کے مانند اپنا سر ریت میں چھپا کر طوفان سے بچ نہیں سکتے۔ کیوں کہ اس طوفان میں بہت کچھ برباد ہوگیا ہے اور ابھی تک یہ طوفان تھما نہیں۔ اب تک اس صحرا جیسے معاشرے میں طوفاں بدستور چل رہا ہے۔ اس طوفان نے اپنی شدید اور خطرناک ہواؤں میں بہت کچھ اڑایا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے صفورا چورنگی کے قریب پچاس کے قریب نہتے مسافر اپنے لہو میں تیرتے نظر آئے۔ اس طوفان کی نذر ہوئی وہ سبین محمود جو ایک امید تھی، اس نے شادی نہیں کی مگر اس کے سینے میں ایک ماں کا دل تھا۔
اب بھی جب میں اپنے دوست کے ساتھ کافی پینے جاتا ہوں تو اس آرٹسٹک کیفے ہاؤس کی دیواروں پر بنے ہوئے نقش اور لکھے ہوئے الفاظ فریاد کرتے نظر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ خاتون کس قدر حساس اور انسان دوست تھی اور جب ہم میڈیا میں پڑھتے ہیں کہ سبین کا قاتل اس کیفے میں آتا جاتا تھا اور اس نے سبین کو ان خیالات کی وجہ سے قتل کیا جن خیالات کو آج ریاست ملک اور معاشرے کے لیے مثبت سمجھتی ہے تو ہم ایک الجھن میں پڑجاتے ہیں۔ تب ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا صرف خیالات کی بنیاد پر اس ملک کی سڑکوں پر ریکی کی جائے گی اور نامعلوم دہشتگرد بہت قریب سے گولیوں کی بوچھاڑ میں ان انسانوں کو قتل کردیں گے جن کے خیالات مختلف ہیں۔ ان لوگوں میں تو ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم جو یہ الفاظ لکھ رہے ہیں کہ ایک آزاد معاشرہ ہی ایک اصل اور حقیقی معاشرہ ہوا کرتا ہے تو کیا ہم اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں؟
ہر معاشرے میں مختلف خیالات کے لوگ ہوا کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو صرف اس لیے قتل کیا جائے کہ اس کے خیالات آپ سے الگ ہیں۔ جس طرح انسانوں کی صورتیں جدا ہیں اسی طرح ان کے خیالات بھی الگ ہیں اور خیالات کا فرق معاشرے کو خوبصورتی عطا کرتا ہے۔ اس لیے جو لوگ سوچ کے اختلاف پر گولی چلاتے ہیں وہ آزادی کے دشمن ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ان تعلیمی اداروں میں پڑھے ہیں جہاں اختلاف کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ان لوگوں نے ان تعلیمی اداروں سے کچھ نہیں سیکھا۔ انھوں نے وہاں سے اچھی انگریزی کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعور حاصل کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ سارا علم اور ساری عقل معاشرے کی بہتری میں استعمال ہونے کے بجائے معاشرے میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوئی۔
وہ لوگ جو گرفتار ہوئے ہیں انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ موبائل فون میں ایک ایسا سافٹ ویئر استعمال کرتے تھے جس کو ''ٹاکری'' کہا جاتا ہے اور جس کی مدد سے موبائل فون مخصوص نیٹ ورک کے لیے واکی ٹاکی بن جاتا ہے اور اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ جب یہ دہشتگرد اس قسم کی جدید سائنس کو عمل میں لاتے ہیں تو پھر ہم ان کو کس طرح بے سمجھ کہیں اور پھر ہم کس طرح یہ دلیل پیش کریں کہ اگر پاکستان میں تعلیم عام ہوئی تو پھر دہشتگردی خود بخود ختم ہوجائے گی۔ ہم آج تک اس بات کو مانتے چلے آرہے ہیں کہ دہشتگردی کی جڑ جہالت میں ہے۔ جب تعلیم آئے گی تو دہشتگردی ختم ہوجائے گی۔ مگر جب سنگین وارداتوں کے مرتکب لوگ اعلیٰ اور جدید تعلیم والے ہوں تو پھر ہمارا ساتھ یہ دلیل بھی چھوڑ دیتی ہے اور ہم حیرت کے جزیرے میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں جاری آپریشن کے باعث دہشتگردوں کی طاقت میں بڑی کمی آئی ہے مگر ان کا وجود ابھی تک موجود ہے۔ اس وقت بھی پاک فوج کے جوان وانا اور وزیرستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہے ہیں مگر جب ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ صرف ملک کے دور دراز علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی کے پوش علاقوں کے بنگلوں میں بھی بدترین دہشتگردی کے منصوبے بنتے ہیں تو پھر انسان یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر ہم کہاں جائیں؟
جب تک صرف جہالت کے اندھیروں میں رہنے والے لوگ دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث تھے تو ہمیں کم از کم یہ امید تو تھی کہ جب علم کی روشنی پھیلے گی تب یہ وحشت اور درندگی اپنی موت آپ مر جائے گی مگر جب امیر لوگوں کے وہ بچے جو جدید تعلیم کے زیورسے آراستہ ہیں جب وہ بھی لوگوں پر بارود کی بارش کریں تو پھر ہماری امید کے دامن میں کیا رہ جاتا ہے؟
ہم دہشتگردی کی جتنی مذمت کریں وہ کم ہے۔ مگر اس بات کو ذہن نشین کرنا اہم ہے کہ صرف مذمت سے دہشتگردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت ہمارے میڈیا نے دہشتگردی کے حوالے سے انسانی ضمیر کو بیدار کرنے اور لوگوں کو تشدد سے دور رکھنے کے لیے کتنا کردار ادا کیا ہے۔ مگر کیا ہوا؟ جب ان خیالات کو سننے والے لوگ بظاہر خاموش رہتے ہیں اور ہمارے معاشرے کے نام نہاد لکھے پڑھے لوگ انسانی خون کو پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ اور جب میڈیا میں یہ خبریں آتی ہیں کہ انسانی خون کے ساتھ ہولی کھیلنے والے درندے دور دراز علاقوں سے نہیں آئے۔ وہ اسی شہر کے امیر علاقوں میں آباد تھے اور انھوں نے دھوراجی جیسے سرمائے دار علاقے میں وحشی کارروائی کا منصوبہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے نہتے اور پرامن انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تو ایسی خبریں ہمیں مایوسی کی دلدل میں مزید دھکیل دیتی ہیں اور ہم سوچنے لگتے ہیں کہ اگر علم کے چراغوں سے بھی گھر جلنے لگے تو پھر امن کی امید کس سے رکھی جائے؟
کاش! یہ پڑھے لکھے دہشت گرد اس دھرتی کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی یہ نظم اپنی روح پر نقش کرتے تو شاید اس قدر وحشی نہ بنتے۔ وہ نظم جس میں ایاز نے لکھا ہے کہ:
اب تو بھنگی دھو گئے ہیں راستوں کو
خون انساں نالیوں میں بہہ رہا ہے
اور سبھی سے کہہ رہا ہے
میں کہ مچھلی اور چاول سے بنا ہوں
نغمہ ٹیگور بھی ہوں
اور سگندھوں میں پلا ہوں
مجھ سے ایک ٹیکہ تو لگاؤ
اس طرح میں رائیگاں ہونے نہ پاؤں