کنفیوژن
پاکستان میں کچھ چیزیں نئی ہوتی ہیں تو جماعت میں بھی کچھ باتیں پہلی مرتبہ سامنے آرہی ہیں۔
جماعت اسلامی اس وقت اس سیاسی مسئلہ پر غور کر رہی ہے کہ نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں یا عمران کا ہاتھ تھامے رکھیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد رواں دواں ہے۔ پنجاب میں شریف برادران سے نوے کے عشرے میں انتخابی اتحاد کی تاریخ ہے۔ اس حوالے سے جماعت میں نواز یا عمران کے سوال پر کشمکش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی ناظم کو تین مرتبہ کے وزیراعظم کا تجربہ بھاتا ہے تو کسی امیر کو ایک نئی پارٹی کے ساتھ کچھ کر دکھانے کی امید ہے۔ ملتان کے صوبائی حلقے میں پہلے جماعت کا بیگ کی حمایت کا اعلان اور چند گھنٹوں بعد تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا بیان جماعت کے کنفیوژن یا سیاسی الجھاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔
جماعت کو پہلی مرتبہ اس قسم کے دوراہے کا سامنا پیش آیا ہے۔ اس سے قبل کی انتخابی سیاست میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا قدرے آسان ہوا کرتا تھا۔ ایوب خان اور فاطمہ جناح میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا اتنا مشکل فیصلہ نہ تھا، مرد اور عورت کے انتخاب کے حوالے سے دشواری ضرور تھی لیکن ایوب کا ساتھ دینے پر کوئی بحث نہ تھی، بھٹو دور میں جماعت اپوزیشن میں تھی، متحدہ جمہوری محاذ میں ولی خان کی قیادت اور پاکستان قومی اتحاد میں مفتی محمود کی قیادت میں اپوزیشن کرنے کے فیصلے پر جماعت الجھن کا شکار کبھی نہیں رہی۔ اب رائے ونڈ اور بنی گالا کو چننے پر جماعت الجھن کا شکار نظر آرہی ہے۔
پاکستان میں کچھ چیزیں نئی ہوتی ہیں تو جماعت میں بھی کچھ باتیں پہلی مرتبہ سامنے آرہی ہیں۔ بے نظیر اور نواز شریف کے زمانوں سے پاکستان میں دو پارٹیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ اس سے قبل ایک پارٹی اور ایک آمر ہی یکطرفہ دوڑ لگایا کرتے تھے۔ مسلم لیگ جیسی دائیں بازو اور مذہب کی جانب ہلکا پھلکا رجحان رکھنے والی پارٹی جب کہ دوسری طرف پیپلزپارٹی جیسی لبرل و سیکولر پارٹی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قائم کردہ جماعت کے سامنے ہوا کرتی تھیں، شوریٰ کے لیے مسلم لیگ کا انتخاب قطعاً دشوار نہ ہوا کرتا تھا۔ جب نواز شریف اور قاضی حسین احمد ایک ساتھ نہ چل سکے تو 93 میں سولو فلائٹ اور 97 میں بائیکاٹ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
جماعت کسی مرحلے پر ابہام کا شکار نہ تھی کہ دوسری مقبول پارٹی کی طرف جایا جاسکتا ہے۔ جماعت اور پیپلزپارٹی کچھ عرصہ پہلے تک ندی کے دو کنارے یا ریل کی دو سیدھی پٹریاں تھیں، جو کبھی نہیں ملتیں۔ آصف زرداری کی مفاہمت کی پالیسی سے برف ضرور پگھلی لیکن مستقبل قریب میں انتخابی اتحاد کی کوئی گنجائش نہیں۔ آصف زرداری کا منصورہ جانا اور سراج الحق کے دورہ بلاول ہاؤس کے باوجود اتنا آسان نہیں کہ نصف صدی کی دوری کو نصف گھنٹے کی ایک دو ملاقاتوں میں پاٹا جاسکے۔
2011 کے مینار پاکستان کے جلسے اور ڈیڑھ سال بعد کے انتخابات میں پاکستان میں دو نئی تبدیلیاں پیدا کردیں۔ پہلی مرتبہ ایک تیسری قوت ابھر کر سامنے آگئی۔ امریکا کی تین صدیوں کی انتخابی تاریخ میں تیسری پارٹی کا کوئی وجود نہیں۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ہی ایک دوسرے کے مقابل رہی ہیں۔ برطانیہ میں ضرور اکا دکا تیسری پارٹیاں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ٹوری اور لیبر ہی پچاسی فیصد سے زیادہ نشستوں پر قابض رہی ہیں۔ بھارت میں بھی کانگریس اور بی جے پی تین عشروں سے تیسری پارٹی کو سامنے نہیں آنے دے رہیں۔
''عام آدمی پارٹی'' صرف ایک چھوٹے سے علاقے میں اب تک اپنی مقبولیت ثابت کرسکی ہے، پاکستان میں ایک ایسی پارٹی سامنے آئی ہے جس نے پورے ملک سے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس نے پہلے سے موجود پارٹیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی اور جماعت کے لیے کنفیوژن کی کیفیت پیدا کردی ہے، سراج الحق کے ساتھیوں کی الجھن یوں بھی بڑھ گئی ہے کہ مسلم لیگ اور تحریک انصاف دائیں جانب کی پارٹیاں ہیں رائٹ کی دو پارٹیوں کے درمیان ایک خالصتاً مذہبی پارٹی کا ''کہاں جائیں؟'' والا سوال واقعتاً دوراہے کا منظر پیش کررہا ہے۔
جماعت اسلامی کا کہاں جائیں والے سوال کا جواب نہ صرف اگلے انتخابات بلکہ پاکستان کی تاریخ کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور نواز شریف اگلے انتخابی معرکے میں وزیراعظم کے عہدے کے مضبوط ترین امیدوار ہوںگے۔ جماعت جیسی منظم پارٹی کی ہمراہی زور دار انتخابی معرکے میں لیگ و تحریک کے لیے فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہوگی۔ پہلی مرتبہ جماعت کو دو بڑی پارٹیوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مشکل فیصلہ کرنا ہوگا۔
ایسی ہی صورت حال 2013 کے انتخابات میں پیش آئی تھی۔ اس وقت بھی جماعت کی قیادت ایک نتیجے پر نہ پہنچ سکی تھی، سید نور حسن کی سربراہی میں جماعت عمران سے قریب تر تھی لیکن مسلم لیگ کو بھی نہیں چھوڑسکتی تھی جماعت کے اس کنفیوژن نے اس کے لیے ان الیکشن کا خوشگوار نتیجہ نہیں چھوڑا۔ یہ وہ انتخابات تھے جب تحریک انصاف عوامی مینڈیٹ تو رکھتی تھی لیکن اس کا کوئی ثبوت نہ تھا، خیبر پختونخوا میں اتحاد نے جماعت کے لیے آسانی پیدا کردی ہے، وہ نوے کے عشرے میں مسلم لیگ سے اتحاد اور نئی صدی میں تحریک انصاف سے اتحاد کے تجربے سے گزرچکی ہے، کسی ایک فیصلے پر نہ پہنچنا جماعت کے لیے ایک بار پھر صدمے کا باعث بن سکتا ہے۔
سیاست میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ غلط وقت پر صحیح فیصلہ بھی خوفناک روپ دھار لیتا ہے، ابھی اگلے انتخابی معرکے میں کچھ وقت ہے، ملتان کے صوبائی معرکے میں ''تم وہ نہیں تم'' والا معاملہ، گومگو کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جماعت میں شوریٰ کو جلد از جلد آنے والے انتخابات کے لیے دونوں پارٹیوں سے مذاکرات شروع کردینے چاہیے۔ سال کے آخر تک بلدیاتی انتخابات بڑی حد تک صورت حال واضح کردیںگے اس کے بعد جماعت کے پاس نہ وقت ہوگا اور نہ غلطی کی گنجائش، کراچی اور خیبر پختونخوا کے اراکین چاہیںگے کہ عمران کے اتحادی بنیں۔ پنجاب کی جماعت واضح طور پر رائے ونڈ اور بنی گالا کے درمیان فیصلہ نہیں کر پارہی، اراکین کی شخصیات کے حوالے سے پسند و ناپسند ہوتی ہے، اپنے حلقے میں کسی پارٹی کا مضبوط یا کمزور بھی ایک عنصر ہوتا ہے کہ کس کا ساتھ دیاجائے۔
جماعت کا یہ فیصلہ نہ صرف ان کے اپنے لیے اہم ہوگا بلکہ اگلے انتخابی نتائج کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے لیے تاریخ ساز ہوگا۔ دو کشتیوں کی سواری بعض اوقات بیچ منجدھار میں ڈبودیتی ہے۔ سراج الحق کے پاس اب گو مگو کی کیفیت میں رہنے کے لیے زیادہ وقت نہیں۔ امیر جماعت اور شوریٰ کا فیصلہ کارکنان کی الجھن کی دوری کا باعث ہوگا۔ ایک نتیجے پر پہنچنے کے بعد شروع میں جماعت میں بحث و مباحثہ ہوگا لیکن حتمی طور پر دور ہوجائے گا جماعت کا کنفیوژن۔