کل کا پاکستان
دنیا میں 98 فیصد لوگ گزرے ہوئے کل میں زندہ رہتے ہیں ماضی میں کیا اچھا تھا اسے یاد کرتے ہیں
دنیا میں 98 فیصد لوگ گزرے ہوئے کل میں زندہ رہتے ہیں ماضی میں کیا اچھا تھا اسے یاد کرتے ہیں یا پھر کیا برا تھا اس پر دکھ کرتے ہیں اور اسے بھلانے کی کوشش میں وقت گزارتے ہیں، کل کیا ہوگا؟ یہ سب سوچتے ہیں لیکن آنے والے کل کے بارے میں اس شدت سے نہیں سوچتے جتنا ماضی کے بارے میں۔
دنیا میں صرف دو فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنا سارا وقت اور دماغ آنے والے کل کے بارے میں سوچ کر گزارتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عام انسانوں سے زیادہ کامیاب ہیں، کوئی بھی کامیابی اتفاق سے نہیں ہوتی اس کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے اچھی پلاننگ پھر اس سے زیادہ ضروری اس پر عمل اور ساتھ ہی مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ۔
آج دنیا کے کسی بھی کامیاب انسان کے بارے میں اگر اس کی بائیوگرافی پڑھیں یا اس پر ڈاکومنٹری دیکھیں تو ایک بات جو سب میں مشترک ہے وہ ہے آنے والے کل کے بارے میں پازیٹو (Positive) سوچ چاہے وہ کرکٹ کے عمران خان ہوں یا پھر چین کے سب سے امیر شخص جیک ما یا پھر نیلسن منڈیلا سب الگ شخصیتیں ہونے کے باوجود اپنے آنے والے کل کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے تھے۔
چلیے آج ہم بھی پاکستان کے آنے والے کل کے بارے میں کامیاب قوم کی طرح سوچتے ہیں، آج پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہے ہوسکتا ہے کہ ہمارا گزرا کل مشکل تھا لیکن آنے والا کل ایک بہترین داستان سنائے گا۔
آج ہماری قوم اپنی قسمت خود بنانے کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ فکر رکھتی ہے اور اسی لیے آج ہمارے یہاں لوگ ہر اس ذریعے کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کو میسر ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال، لاہور میں آئی ایک چھوٹے علاقے سے آئی لڑکی مدیحہ حسن نے پہلے تو خود کو لاہور کی بھیڑ میں اجنبی محسوس کیا، سب اس کو اپنے آپ سے زیادہ اسمارٹ لگتے اور جہاں وہ کام کرتی وہ جگہ اس کے گھر سے بہت دور تھی اور وہاں پہنچنے کے لیے سواری ملنا بہت مشکل لیکن اس نے بہت جلدی ایک ایسا کمپیوٹر سوفٹ ویئر بنایا جسے استعمال کرکے لاہور کے لوگ AR Pool کرسکتے تھے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ گاڑی شیئر کرنے کا سسٹم جو مغرب کے ممالک میں بہت عام ہے جس سے سڑکوں پر ٹریفک کم اور پٹرول کی بچت ہوتی ہے۔
ایک اکیلی لڑکی صرف ایک کمپیوٹر کی مدد سے لاہور جیسے شہر میں پورا ایک سسٹم قائم کرسکتی ہے۔ یہ ہے پاکستان کا آنے والا کل، آج مدیحہ کے بنائے کمپیوٹر پروگرام ''سویر'' کو آپ کسی بھی موبائل فون پر ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرسکتے ہیں۔
صرف عام لوگ کیوں پاکستان کی ایڈمنسٹریشن بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر کام کر رہی ہے، 2011 میں پاکستان میں ''ڈینگی وائرس'' نے سیکڑوں لوگوں کی جان لے لی، ایڈمنسٹریشن کے بروقت اور صحیح اقدامات کی وجہ سے صرف ایک سال یعنی 2012 میں ڈینگی وائرس کے شکار افراد میں 80 فیصد کمی ہوگئی جوکہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
پاکستان میں عوام کا پبلک سیکٹر کی طرف اعتماد قائم کرنے کے لیے بھی بڑا کام ہو رہا ہے، پاکستان پنجاب سٹیزن فیڈ بیک ماڈل اس وقت ایس ایم ایس اور موبائل فون کا بھرپور استعمال کر رہا ہے اور اسی لیے چیزیں بدل رہی ہیں۔
فرض کر لیجیے کہ آپ پنجاب کے گورنمنٹ پراپرٹی آفس میں رجسٹریشن کے لیے جا رہے ہیں تو آفیشلز وہاں آپ کے کوائف کے ساتھ فون نمبر بھی ریکارڈ میں رکھتے ہیں جو پھر لوکل کال آفس اور کال سینٹرز کو بھیجے جاتے ہیں جس کے بعد ایک لوکل آفیسر فون کرکے آپ کے پراپرٹی آفس میں رجسٹریشن کرانے کے تجربے کے بارے پوچھے گا اور یقین دہانی چاہے گا کہ آپ کا وزٹ اچھا رہا، آج یہ کال سینٹرز روز ہزاروں لوگوں کو کالز کرتے ہیں جو کسی طرح کی بھی پبلک سروسز استعمال کر رہے ہیں، پچھلے مہینے تک پانچ ملین لوگوں کو یہ کال سینٹرز رابطہ کرچکے ہیں ڈپارٹمنٹ آف ریونیو، ہیلتھ تعلیم کے بارے میں تجربہ جاننے کے لیے، لوگوں کے جوابات کو ایک سسٹم میں ڈالا جاتا ہے تاکہ انھیں مد نظر رکھتے ہوئے مختلف محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔
ٹیکنالوجی نہ صرف حکومت کو بہتر کرنے میں مدد گار ہے بلکہ نئی ملازمتیں Create کرنے میں بھی فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، اس وقت پاکستان میں 77 فیصد لوگوں کے پاس موبائل فونز ہیں اور ایک عام موبائل پاکستان میں پانچ سے چھ ہزار تک کا مل جاتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد اس وقت تیس سال سے کم ہے اور ہمارے یہاں بیروزگاری کا تناسب آج بھی بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل ٹیکنالوجی کی مدد سے خود اپنے لیے روزگار کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔
ایک بہتر کل کی طرف قدم لیا گیا پشاور میں جہاں ڈیجیٹل یوتھ سمٹ منعقد کیا گیا، سو سے زیادہ مقررین اور ساڑھے تین ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس میں شرکت کی، ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔
اس سمٹ میں شرکت کرنے والوں کو بہت سی نئی باتیں سیکھنے کو ملیں جیسے کہ اپنے بزنس کو بغیر فنڈز کے کس طرح شروع کیا جاسکتا ہے یا پھر یہ کہ آپ کیسے فنڈز Raise کریں گے آگے بڑھنے کے لیے، کون سے طریقے صحیح ہیں اور کون سے وقت کا زیاں ہیں بزنس کے لیے۔
کئی اہم چیزیں اس ایونٹ میں زیر بحث آئیں پشاور جس کا نام برسوں سے اسمگلنگ یا پھر حال میں دہشت گردی سے جڑا نظر آیا آنے والے کل کی خبریں انشا اللہ یہ بتائیں گی کہ پشاور کی وجہ سے پاکستان آگے بڑھ رہا ہے ترقی کر رہا ہے۔
60 فیصد نوجوان نسل کی موجودگی کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ایک صوبے کا کوئی اچھا قدم دوسرے صوبے کے نوجوان بھی جلد ہی اپنالیں گے، جب آپ نوجوان ہوتے ہیں تو یہ سوچ نہیں ہوتی ہے کہ میں سندھی ہوں کہ پنجابی، بلوچی ہوں یا پٹھان اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو کام میں لانے کا جذبہ آگے بڑھنے کا حوصلہ سب پر حاوی ہوتا ہے، جہاں سے جو اچھی چیز سیکھ سکتے ہیں سیکھنے پر تیار ہوتے ہیں سکھانے والا چاہے کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو، ہماری قوم بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے اور آنے والا کل روشن ہے۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جاپان بہت کامیاب ہے اگر یہ ریس ہے تو جان لیں کہ جاپان میں اس وقت 54 لوگ 60 سال کی عمر سے اوپر کے ہیں اگر وہ ہم سے بہت آگے بھی ہیں تو ڈر کی بات نہیں، ہماری گاڑی کھینچنے والے ساٹھ فیصد لوگ جاپانیوں سے کہیں زیادہ حوصلہ، جذبہ، ہمت اور طاقت رکھتے ہیں، ہم ماضی کے کچھوے اور وہ خرگوش ہوئے تو کیا ہوا، آنے والے کل کی ریس میں نتیجہ نکلنے پر جیت ہماری ہی ہوگی۔
دنیا میں صرف دو فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنا سارا وقت اور دماغ آنے والے کل کے بارے میں سوچ کر گزارتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عام انسانوں سے زیادہ کامیاب ہیں، کوئی بھی کامیابی اتفاق سے نہیں ہوتی اس کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے اچھی پلاننگ پھر اس سے زیادہ ضروری اس پر عمل اور ساتھ ہی مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ۔
آج دنیا کے کسی بھی کامیاب انسان کے بارے میں اگر اس کی بائیوگرافی پڑھیں یا اس پر ڈاکومنٹری دیکھیں تو ایک بات جو سب میں مشترک ہے وہ ہے آنے والے کل کے بارے میں پازیٹو (Positive) سوچ چاہے وہ کرکٹ کے عمران خان ہوں یا پھر چین کے سب سے امیر شخص جیک ما یا پھر نیلسن منڈیلا سب الگ شخصیتیں ہونے کے باوجود اپنے آنے والے کل کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے تھے۔
چلیے آج ہم بھی پاکستان کے آنے والے کل کے بارے میں کامیاب قوم کی طرح سوچتے ہیں، آج پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہے ہوسکتا ہے کہ ہمارا گزرا کل مشکل تھا لیکن آنے والا کل ایک بہترین داستان سنائے گا۔
آج ہماری قوم اپنی قسمت خود بنانے کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ فکر رکھتی ہے اور اسی لیے آج ہمارے یہاں لوگ ہر اس ذریعے کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کو میسر ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال، لاہور میں آئی ایک چھوٹے علاقے سے آئی لڑکی مدیحہ حسن نے پہلے تو خود کو لاہور کی بھیڑ میں اجنبی محسوس کیا، سب اس کو اپنے آپ سے زیادہ اسمارٹ لگتے اور جہاں وہ کام کرتی وہ جگہ اس کے گھر سے بہت دور تھی اور وہاں پہنچنے کے لیے سواری ملنا بہت مشکل لیکن اس نے بہت جلدی ایک ایسا کمپیوٹر سوفٹ ویئر بنایا جسے استعمال کرکے لاہور کے لوگ AR Pool کرسکتے تھے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ گاڑی شیئر کرنے کا سسٹم جو مغرب کے ممالک میں بہت عام ہے جس سے سڑکوں پر ٹریفک کم اور پٹرول کی بچت ہوتی ہے۔
ایک اکیلی لڑکی صرف ایک کمپیوٹر کی مدد سے لاہور جیسے شہر میں پورا ایک سسٹم قائم کرسکتی ہے۔ یہ ہے پاکستان کا آنے والا کل، آج مدیحہ کے بنائے کمپیوٹر پروگرام ''سویر'' کو آپ کسی بھی موبائل فون پر ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرسکتے ہیں۔
صرف عام لوگ کیوں پاکستان کی ایڈمنسٹریشن بھی پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر کام کر رہی ہے، 2011 میں پاکستان میں ''ڈینگی وائرس'' نے سیکڑوں لوگوں کی جان لے لی، ایڈمنسٹریشن کے بروقت اور صحیح اقدامات کی وجہ سے صرف ایک سال یعنی 2012 میں ڈینگی وائرس کے شکار افراد میں 80 فیصد کمی ہوگئی جوکہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
پاکستان میں عوام کا پبلک سیکٹر کی طرف اعتماد قائم کرنے کے لیے بھی بڑا کام ہو رہا ہے، پاکستان پنجاب سٹیزن فیڈ بیک ماڈل اس وقت ایس ایم ایس اور موبائل فون کا بھرپور استعمال کر رہا ہے اور اسی لیے چیزیں بدل رہی ہیں۔
فرض کر لیجیے کہ آپ پنجاب کے گورنمنٹ پراپرٹی آفس میں رجسٹریشن کے لیے جا رہے ہیں تو آفیشلز وہاں آپ کے کوائف کے ساتھ فون نمبر بھی ریکارڈ میں رکھتے ہیں جو پھر لوکل کال آفس اور کال سینٹرز کو بھیجے جاتے ہیں جس کے بعد ایک لوکل آفیسر فون کرکے آپ کے پراپرٹی آفس میں رجسٹریشن کرانے کے تجربے کے بارے پوچھے گا اور یقین دہانی چاہے گا کہ آپ کا وزٹ اچھا رہا، آج یہ کال سینٹرز روز ہزاروں لوگوں کو کالز کرتے ہیں جو کسی طرح کی بھی پبلک سروسز استعمال کر رہے ہیں، پچھلے مہینے تک پانچ ملین لوگوں کو یہ کال سینٹرز رابطہ کرچکے ہیں ڈپارٹمنٹ آف ریونیو، ہیلتھ تعلیم کے بارے میں تجربہ جاننے کے لیے، لوگوں کے جوابات کو ایک سسٹم میں ڈالا جاتا ہے تاکہ انھیں مد نظر رکھتے ہوئے مختلف محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔
ٹیکنالوجی نہ صرف حکومت کو بہتر کرنے میں مدد گار ہے بلکہ نئی ملازمتیں Create کرنے میں بھی فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، اس وقت پاکستان میں 77 فیصد لوگوں کے پاس موبائل فونز ہیں اور ایک عام موبائل پاکستان میں پانچ سے چھ ہزار تک کا مل جاتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد اس وقت تیس سال سے کم ہے اور ہمارے یہاں بیروزگاری کا تناسب آج بھی بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل ٹیکنالوجی کی مدد سے خود اپنے لیے روزگار کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔
ایک بہتر کل کی طرف قدم لیا گیا پشاور میں جہاں ڈیجیٹل یوتھ سمٹ منعقد کیا گیا، سو سے زیادہ مقررین اور ساڑھے تین ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس میں شرکت کی، ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔
اس سمٹ میں شرکت کرنے والوں کو بہت سی نئی باتیں سیکھنے کو ملیں جیسے کہ اپنے بزنس کو بغیر فنڈز کے کس طرح شروع کیا جاسکتا ہے یا پھر یہ کہ آپ کیسے فنڈز Raise کریں گے آگے بڑھنے کے لیے، کون سے طریقے صحیح ہیں اور کون سے وقت کا زیاں ہیں بزنس کے لیے۔
کئی اہم چیزیں اس ایونٹ میں زیر بحث آئیں پشاور جس کا نام برسوں سے اسمگلنگ یا پھر حال میں دہشت گردی سے جڑا نظر آیا آنے والے کل کی خبریں انشا اللہ یہ بتائیں گی کہ پشاور کی وجہ سے پاکستان آگے بڑھ رہا ہے ترقی کر رہا ہے۔
60 فیصد نوجوان نسل کی موجودگی کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ایک صوبے کا کوئی اچھا قدم دوسرے صوبے کے نوجوان بھی جلد ہی اپنالیں گے، جب آپ نوجوان ہوتے ہیں تو یہ سوچ نہیں ہوتی ہے کہ میں سندھی ہوں کہ پنجابی، بلوچی ہوں یا پٹھان اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو کام میں لانے کا جذبہ آگے بڑھنے کا حوصلہ سب پر حاوی ہوتا ہے، جہاں سے جو اچھی چیز سیکھ سکتے ہیں سیکھنے پر تیار ہوتے ہیں سکھانے والا چاہے کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو، ہماری قوم بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے اور آنے والا کل روشن ہے۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جاپان بہت کامیاب ہے اگر یہ ریس ہے تو جان لیں کہ جاپان میں اس وقت 54 لوگ 60 سال کی عمر سے اوپر کے ہیں اگر وہ ہم سے بہت آگے بھی ہیں تو ڈر کی بات نہیں، ہماری گاڑی کھینچنے والے ساٹھ فیصد لوگ جاپانیوں سے کہیں زیادہ حوصلہ، جذبہ، ہمت اور طاقت رکھتے ہیں، ہم ماضی کے کچھوے اور وہ خرگوش ہوئے تو کیا ہوا، آنے والے کل کی ریس میں نتیجہ نکلنے پر جیت ہماری ہی ہوگی۔