پڑھو
مطالعہ ہی وہ فیصلہ کن راستہ ہے جو کسی معاشرے کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
'' اقراء''... یعنی 'پڑھو'!
یہ وہ پہلا حکم تھا جو کائنات کے خالق کی جانب سے آخری نبی حضرت محمدؐ کی ذات مبارک پر سب سے پہلے وحی کیا گیا۔ ''پڑھو...اللہ کے نام سے'' یہی وہ نصیحت تھی جس سے قرآن پاک کا آغاز ہوا۔ اللہ نے سب سے پہلے نماز، روزے ، جہاد کا نہیں، پڑھنے کا حکم دیا۔ میں سوچ رہا تھا ایسا کیوں کیا گیا، پڑھنے میں ایسی کونسی خاص بات تھی، مطالعہ کرنا کون سی ایسی نیکی تھی جس سے نماز کی طرح ثواب ملتا یا جس سے انسان جہنم کے بجائے جنت میں چلا جاتا، تو پھر 'پڑھنے' کا حکم ہی کیوں؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو نماز جیسے اہم ترین حکم سے قرآن کا آغاز کیا جانا چاہیے تھا۔ تو کیا مطالعہ کی اہمیت نماز سے بھی زیادہ تھی؟ یہ کہا گیا کہ ''علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے!'' آخر کیوں پڑھنے، علم حاصل کرنے پر اسلام میں اتنا زور دیا گیا تھا؟ ''پڑھو'' کے بجائے'سنو' ، 'دیکھو'، 'بولو' جیسے الفاظ سے بھی تو کلام پاک کا آغاز کیا جاسکتا تھا، تو پھر 'اقرا' ہی کیوں؟ پڑھنے میں ایسی کون سی طاقت پوشیدہ تھی؟
حیران کن بات یہ تھی کہ قرآن کے برعکس ہمارے مولاناؤں، عالموں نے کبھی اپنے دروس اور خطبات میں ہمیں مطالعہ کرنے کی ترغیب دلائی تھی نہ اس کی اہمیت پر زور دیا تھا، وہاں تو اپنے عقیدت مندوں سے عموماً یہی کہا جاتا کہ 'پڑھنے' کے بجائے 'سنیں' زیادہ سے زیادہ ان کی وعظ و نصیحتوں کو، سوال کرنے کے بجائے فقط عمل کریں ان کی باتوں پر۔ اپنا دماغ لڑانے کی کوشش نہ کریں، ان کے دکھائے راستے پر خاموشی سے چلیں۔ یہاں تک کہا جاتا کہ خود قرآن کا ترجمہ نہ پڑھیں، گمراہ ہوجائیں گے۔ اللہ کے کلام کو ان سے سمجھیں، وہ ہمیں بتائیں گے کس آیت کا مطلب اصل میں کیا ہے، ان سے اگر مگر سوال نہ کریں۔
جب کہ قرآن سوال اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ بالآخر میں نے جب تیس سال کی عمر میں قرآن کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے سامنے قرآنی آیات کو اکثر کسی اور انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جب کہ قرآن میں ان آیات کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے۔ ان ہی مختلف تشریحات کی وجہ سے اتنے سارے فرقے بنے۔ اگر مسلمان خود براہ راست قرآن کا مطالعہ کرنے لگیں تو بہت سے فرقے اپنے آپ ختم ہوجائیں۔ بہت سے تقسیم ہوئے مسلمان اکٹھے ہوجائیں۔ مذہب کے نام پر کھلی بہت سی دکانیں بند ہوجائیں۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے فتوے اپنی موت آپ مرجائیں۔ لوگوں میں نفرتیں کم ہوجائیں۔ ہمارے سامنے بہت سے لوگ بے نقاب ہوجائیں، جو مذہب کے نام پر اپنی دکانیں کھولے بیٹھے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو دیہاتی ہو مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پوجتے ہیںکعبے کے برہمن
عجیب مشکل تھی، اللہ کا پہلا حکم تھا کہ 'پڑھو'، انسان کا حکم تھا نہ پڑھو۔ آخر کیوں؟ ہمارے مطالعہ نہ کرنے سے کن لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا اور پڑھنے سے کن کو نقصان پہنچ سکتا تھا؟ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ گاؤں دیہاتوں کے جاگیردار، وڈیرے بھی یہی کہتے کہ نہ پڑھو، اسی لیے وہ اپنے علاقوں میں اسکول کھلنے دینا نہیں چاہتے، اس میں رکاوٹیں ڈالتے، سیاسی لیڈروں کی بھی یہی کوشش ہوتی کہ ان کے کارکن، سپورٹر مطالعہ نہ کریں، صرف ان کی لمبی تقریروں اور جھوٹی سچی باتیں سنیں۔
سوال نہ کریں، فقط ان کی ہڑتال اور دھرنوں کی کال پر عمل کریں۔ سوال اٹھانے اور غور کرنے والے کو نہ ہمارے مولانا پسند کرتے ہیں نہ سیاسی قائدین۔ انھیں فقط ان کی باتوں پر کان دھرنے والے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری جسم درکار ہوتے ہیں جو ان کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔ جب کہ مطالعہ انسان کو سچ جھوٹ، اچھے برے میں تمیز کرنے کے قابل بنادیتا ہے، پھر اسے دھوکا دینا آسان نہیں رہتا، اسے استعمال کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسے قائل کرنے کے لیے عملاً کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے، صرف نعروں کے ذریعے اس پر حکمرانی کی جاسکتی ہے نہ اسے دبایا جا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے جن ممالک میں مطالعہ و تعلیم عام ہے وہاں کے معاشرے جمہوریت و ترقی کے ثمرات سے سالہا سال سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور جہاں مطالعہ نہیں ہے وہ سعودی عرب ہو، عراق ہو، یو اے ای، دیگر عرب یا افریقی و ایشیائی ممالک، وہاں آج بھی کہیں بادشاہت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ قائم ہے تو کہیں مارشل لاؤں کا دور دورہ ہے۔ جمہوریت کے ذائقے سے وہاں کے عوام ناآشنا و محروم ہیں یا پھر کہیں ہماری طرح بار بار جمہوریت، مچھلی کی طرح ہاتھ سے پھسل کر نکل جاتی ہے۔ مغرب، امریکا، جاپان اور ان ممالک جہاں لائبریریاں اور مطالعہ عام ہے وہاں کسی بھی شکل میں غاصب حکومت قدم جما نہیں پاتیں۔ مجھے سمجھ میں آگیا کہ اللہ نے قرآن میں پہلا حکم ہی پڑھنے کا کیوں دیا، اس لیے کہ مطالعہ ہی کسی فرد یا قوم کی قسمت بدلنے کا سب سے اہم نسخہ و ہتھیار تھا۔
مگر بدقسمتی سے آج ہم مسلمان سب کچھ کررہے ہیں، مگر مطالعہ نہیں۔ ہم سن رہے ہیں، بول رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، مگر اللہ کے پہلے حکم 'پڑھو' پر عمل نہیں کررہے۔ ہم پڑھنے کے نام سے بیزاری محسوس کرتے ہیں، کتاب سے ہمیں کوفت محسوس ہوتی ہے۔ مطالعہ اور غوروفکر کے نام سے ہمیں نیند آجاتی ہے، اس کے بجائے ہم گانے سننا، فلمیں دیکھنا، بے مقصد تصویریں کھینچنا اور لمبی باتیں کرنا پسند کرتے ہیں۔ کوئی ہمیں کتاب پڑھنے کو دے تو ہم اسے ایسی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے اچانک کسی اور سیارے کی مخلوق ہمارے سامنے آگئی ہو۔
مطالعہ ہی وہ فیصلہ کن راستہ ہے جو کسی معاشرے کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس کا کوئی متبادل آج ہے نہ قیامت تک ہوگا۔ کوئی فیس بک، واٹس اپ، ٹیکنالوجی اس کی جگہ نہیں لے سکتی۔ عوام کو قابو میں رکھنے کا یہ پرانا حربہ ہے کہ انھیں پڑھائی و مطالعے سے کسی بھی بہانے دور رکھا جائے۔ کیونکہ مطالعے سے دور انسان حق و باطل کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کے سامنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی لائبریریوں کا قحط اور شکستہ حالی مطالعہ سے ہماری دوری اور عدم دلچسپی کا کھلا ثبوت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقت قرآن کے اس اہم ترین حکم 'اقرا' پر عمل درآمد کرانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر پورے ملک میں مفت جدید سہولتوں سے آراستہ، خوبصورت کتب خانوں کا جال بچھائے، مطالعہ کو فروغ دے، جس سے یقیناً عوام کے شعور، فہم و فراست اور مخلص لیڈروں کو پہچان کر درست انتخاب کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، جہالت، تاریکی اور ناانصافی کا خاتمہ ہوگا جو کسی بھی جمہوری، ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔