روہنگیا کسی کے بھی نہیں
اٹھارہ سو انسٹھ کی مردم شماری کے مطابق صوبہ اراکان کی پانچ فیصد آبادی مسلمان تھی
لاہور:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔اس تعریف پر اگر آج کی دنیا میں کوئی گروہ پورا اترتا ہے تو وہ برما کے روہنگیا مسلمان ہیںجو برما کے دو صوبوں اراکان اور رکھین میں آباد ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے مطابق روہنگیا کرہِ ارض کا سب سے ستم رسیدہ نسلی گروہ ہے۔ برما کہتا ہے کہ یہ بنگالی تارکین ِوطن ہیں جو برسوں پہلے تلاشِ معاش کی خاطر غیرقانونی طور پر برما میں داخل ہوئے۔بنگلہ دیش کہتا ہے کہ ہمارا بھلا ان سے کیا لینا دینا ، برما جانے روہنگیا جانیں اور تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا سمیت ہمسائیہ ایشیائی ممالک کہتے ہیں کہ جب برما یا بنگلہ دیش کو ہی اس نسلی گروہ کے مسائل کی پرواہ نہیں تو ہمارا ان روہنگیوں سے کیا تعلق۔
اس کہانی کے ڈانڈے انیسویں صدی سے جا کے ملتے ہیں۔ اٹھارہ سو چھبیس کی اینگلو برما جنگ کے نتیجے میں برما مختصر وقت کے لیے برٹش انڈیا کا حصہ بن گیا اور اس کے بنگال سے لگنے والے صوبے اراکان کو عارضی طور پر برٹش انڈین ایمپائر کا حصہ بنا لیا گیا۔( بعد ازاں برما کے لیے علیحدہ برطانوی نوآبادیاتی ڈھانچہ مرتب ہوا تاہم برٹش انڈین وائسرائے کا دفتر ہی برما کے بھی معاملات دیکھتا تھا )
انیسویں صدی کے وسط سے ہندوستانی مزدور کاشتکاری اور تعمیراتی ڈھانچے میں کھپانے کے لیے برطانوی سلطنت کے کونے کونے میں بھیجے جانے لگے۔جنوبی افریقہ ہو کہ مشرقی افریقہ یا بحرالکاہل کے جزائر فجی کہ بحیرہ کیریبئین کے گنے کی پیداوار والے ویسٹ انڈین جزائر۔بنگال ، اڑیسہ ، بہار ، مشرقی یوپی اور ترائی کے علاقوں سے بے روزگاروں کی فوج بحری جہازوں میں بھر بھر کے برطانوی نوآبادیات میں بھجوائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت برما کے صوبے اراکان میں بھی بنگالی کسان آباد ہوئے۔اٹھارہ سو انسٹھ کی مردم شماری کے مطابق صوبہ اراکان کی پانچ فیصد آبادی مسلمان تھی۔ان میں کچھ نسلی برمی بھی تھے جو پندھرویں صدی یا بعد میں مسلمان ہوئے اور باقی وہ تھے جن کے نسلی ڈانڈے چٹاگانک کے پہاڑی علاقے میں بولی جانے والی زبان سے جا ملتے ہیں۔
جب انیس سو اڑتالیس میں برما کو برطانیہ سے آزادی ملی تب شہریت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا اور برما کے بودھ اکثریتی سماج کے درمیان مسلمان اقلیت بھی زندگی گذار رہی تھی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب فوجی جنرل نے ون نے جمہوری بساط لپیٹ کر انیس سو باسٹھ میں اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اس اقتدار کو دوام دینے کے لیے متبادل نظریے کے طور پر برمی قوم پرستانہ جذبات کو ابھارا۔سب سے پہلے تھائی لینڈ سے متصل شان صوبے کی نسلی اقلیت اکثریتی تعصب کا نشانہ بنی مگر اس نے سرجھکانے کے بجائے اپنے تحفظ کی خاطر ہتھیار اٹھا لیے۔یوں جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے طویل نسلی جنگ کا بگل بج گیا۔
انیس سو اکہتر میں مغربی سرحد پر واقع مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی سے تنگ آ کے بنگالیوں کی ایک تعداد نے سرحد پار بھارت میں پناہ لی تو چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والی بنگالی آبادی میں سے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ نے برما کے اندر سر چھپانے کی کوشش کی۔چنانچہ مقامی بودھ اکثریت میں بے چینی پھیلنی شروع ہوئی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی حکومت نے ڈیڑھ پونے دو سو برس سے آباد روہنگیوںکو بھی عارضی پناہ گیر بنگالیوں کے ساتھ نتھی کردیا۔جنرل نے ون کی حکومت نے بنگلہ دیش کی مجیب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بنگالی پناہ گزینوں کو واپس بلائے۔
انیس سو پچھتر میں برما میں بنگلہ دیش کے سفیر خواجہ محمد قیصر نے کہا کہ بنگلہ دیش انیس سو اکہتر کے بعد برما میں پناہ لینے والے بنگالی شہریوں کو چھان پھٹک کے بعد واپس لینے کو تیار ہے۔تاہم برما کا اصرار تھا کہ ان سب کو بنگلہ دیش قبول کرے جو نسلاً برمی نہیں۔ انیس سو اٹھتر میں جنرل نے ون کی حکومت نے لگ بھگ دو لاکھ افراد کو سرحد پار دھکیل دیا۔ان کے بارے میں حکومتِ بنگلہ دیش نے کہا کہ نوے فیصد بنگلہ دیشی نہیں بلکہ اراکان کے روہنگیا مسلمان ہیں اس لیے برما کو انھیں واپس لینا پڑے گا۔
اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے برما کی حکومت ان پناہ گزینوں کو واپس لینے پر آمادہ تو ہوگئی لیکن انیس سو بیاسی میں شہریت کے قانون میں تبدیلی کرکے روہنگیا مسلمانوں کو برما میں آباد ایک سو پینتیس نسلی گروہوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔جب شہریت چھن گئی تو بطور غیر ملکی ان سے رہائش، صحت ، تعلیم اور روزگار سمیت بنیادی سہولتوں کا حق بھی چھن گیا اور اکثریت کے لیے وہ کھلونا بن گئے۔ برمی فوج نے اس اقلیت کو بیگار کے قلیوں کے طور پر استعمال کیا۔ان کے چھوٹے موٹے کاروبار تباہ ہونے لگے۔ان کے خلاف ہونے والے جرائم کی چھان بین سے پولیس نے منہ موڑ لیا۔وہ بلا سرکاری اجازت شادی نہیں کرسکتے۔ دو سے زائد بچے پیدا نہیں کرسکتے اور اجازت نامے کے بغیر نہ املاک کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک سے دوسری جگہ آ جا سکتے ہیں۔ گویا روہنگیوں کا مقام غریب کی جورو سے بھی ابتر ہوگیا۔
تازہ قیامت دو ہزار بارہ میں ٹوٹی جب ساحلی صوبہ رکھین میں افواہ پھیلی کہ کسی روہنگیا نے ایک بودھ لڑکی کو ریپ کردیا۔ حقیقت کھلتے کھلتے دو سو کے لگ بھگ روہنگیا ہلاک ، ایک لاکھ چالیس ہزار بے گھر اور پچاس ہزار سے زائد بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں ایک بار پھر پناہ گیر ہوگئے۔تب سے آج تک کوئی مہینہ نہیں گذرا کہ رکھین صوبہ سے جہاں روہنگیا اقلیت کا تناسب پچیس فیصد کے لگ بھگ ہے کسی نہ کسی پرتشدد نسلی واردات کی خبر نہ آتی ہو۔
ویسے تو دو ہزار نو کے بعد سے ہی وہ روہنگیا جو انسانی اسمگلروں کو پیسے دینے کی سکت رکھتے تھے برما سے فرار ہوکے پاکستان اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے لگے۔مگر اس سال فروری سے کشتیوں کے زریعے فرار ہونے کے رجہان میں یوں تیزی آ گئی کہ اسمگلروں نے پیشگی معاوضہ وصول کرنے کی شرط ہٹا دی اور مصیبت زدگان سے وعدہ کیا کہ انھیں تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچا دیا جائے گا۔آگے آنے کی قسمت۔تاہم جب تینوں ممالک نے ساحلی گشت بڑھا دیا اور پناہ گزینوں سے بھری کشتیوں کو کھلے سمندر میں واپس دھکیلنا شروع کیا تو اسمگلرز ان مصیبت کے ماروں کو بیچ سمندر میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔جنوبی تھائی لینڈ اور ملیشیا میں تارکینِ وطن کی کئی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جنھیں اسمگلروں سے ملی بھگت کرنے والے بعض مقامی قبائل نے معاوضہ ملنے تک یرغمال بنائے رکھا اور پھرمایوس ہو کے دفنا دیا۔ان قبروں سے ملنے والی اکثر لاشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روہنگیوں کی ہیں۔
اس وقت صورت یہ ہے کہ کھلے سمندر میں لگ بھگ پچیس ہزار روہنگیا بے یارو مددگار کشتیوں میں ڈول رہے ہیں۔بنگلہ دیش نے یہ کہہ کر انھیں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کہ وہ پہلے ہی ہزاروں روہنگیوں کی دیکھ بھال کررہا ہے۔
( دو ہزار چودہ کے قانون کے تحت برما میں روہنگیا کی اصطلاح پر ہی پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم مدساں ساں فرنٹئیر کو رکھین سے باہر نکال دیا گیا )۔
تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا نے بین الاقوامی لعن طعن کے بعد بیچ سمندر پھنسے روہنگیوں میں سے سات ہزار کو عارضی پناہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔رومن کیتھولک اکثریتی ملک فلپینز نے انسانی ہمدردی کے تحت روہنگیا کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی ہے۔گیمبیا واحد دور دراز مسلمان اکثریتی افریقی ملک ہے جس نے تمام پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسنے کی پیش کش کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ہزاروں بھوکوں ننگوں بیماروں کو ہزاروں میل پرے گیمبیا کون پہنچائے کہ جس کا اپنا شمار دنیا کے دس غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
اس پورے المئیے میں سب سے زیادہ صدمے کی بات انسانی و سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور ذاتی قربانیاں دینے والی برما کی ہیروئن آنگ سان سوچی کی مسلسل خاموشی ہے۔ان کا صرف ایک حمائیتی بیان روہنگیوں کی زندگی قدرے آسان بنا سکتا تھا لیکن جب بھی ان سے اس بارے میں کوئی رپورٹر پوچھتاہے تو وہ گول مول جواب سا جواب دے کے ٹال جاتی ہیں۔
برما میں اگلے برس پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔چونکہ سوچی کو اپنی انتخابی کامیابی کا یقین ہے لہذا روہنگیوں کی حالت کے بارے میں کوئی بیان دے کر برما کی نوے فیصد بودھ اکثریت کو سیاسی طور پر خود سے بدظن نہیں کرنا چاہتیں۔
ہائے...یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ انسانی حقوق کی علم برداری کے اعتراف میں ملنے والے نوبیل انعام کی حامل آنگ سان سوچی جیسی عالمی شخصیت محدود سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی آدرش سے پیچھے ہٹ جائے۔