گرین ٹرین سروس
بلاشبہ کراچی سے کاشغر کراچی سے ترکی تک ٹرینیں چلنا ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہے
RAWALPINDI:
پچھلے دنوں گرین ٹرین سروس کا افتتاح کرتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نواز شریف نے فرمایا تھا کہ عوام جلد انقلابی تبدیلیاں دیکھیں گے۔ انقلابی تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے فرمایاتھا کہ آنے والے دنوں میں ہماری ٹرینیں کراچی سے کاشغر ہی نہیں بلکہ کراچی سے ترکی تک بھی جائیں گی۔
بلاشبہ کراچی سے کاشغر کراچی سے ترکی تک ٹرینیں چلنا ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہے لیکن اس اقدام کو انقلابی تبدیلیوں کے زمرے میں لانا غیر منطقی، غیر دانشمندانہ ہے، اس مفروضے کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ انقلاب کے معنی ہی سے ناواقف ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ویسے تو بے شمار انقلابات آئے ہیں لیکن جو انقلاب دنیا بھر میں مقبول ہوئے وہ 1917 کا انقلاب روس تھا۔
1949 کا انقلاب چین تھا۔ کیوبا کا انقلاب تھا، شمالی کوریا کا انقلاب تھا اور انقلاب ایران تھا۔ ان انقلابوں پر نظر ڈالیں تو دو باتیں بہت واضح نظر آتی ہیں، ایک یہ کہ انقلاب کا پہلا مطلب ایک پرانے فرسودہ نظام کی جگہ ایک نیا اور استحصال کے خلاف نظام دوسرا مطلب یہ رہا ہے کہ عوام کی زندگی میں بامعنی تبدیلی یعنی انھیں معاشی انصاف ملتا۔ ان دوحقائق کو سامنے رکھ کر اگر حکمرانوں کی انقلابی تبدیلیوں کے مژدہ پر غور کریں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ انقلابی تبدیلیوں کی بات کرتے ہوئے یا تو وہ خود فریبی کا شکار ہورہے ہیں یا پھر دانستہ یا نادانستہ عوام کو فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے جس ٹرین کا افتتاح کیا ہے اس میں کھانے پینے وغیرہ وغیرہ کی سہولتیں ہیں، اے سی بیڈ وغیرہ کا انتظام ہے، یہ سہولتیں ہماری ریلوے کی تاریخ میں نیا تعارف ضرور ہیں لیکن جب اس کے کرائے پر نظر جاتی ہے تو فوری یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ اس گرین ٹرین کا عوام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہمارے عوام جو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے حاصل کرتے ہیں اور ملازمتوں، کام دھندے پر جانے کے لیے بسوں کا پندرہ بیس روپے کرایہ برداشت کرنے کی پوزیشن نہیں، وہ بھلا 5000 روپے دے کر کراچی سے لاہور کیسے سفر کرسکتے ہیں؟ ہماری دوسری کئی ٹرینوں کا کراچی سے لاہور کا اکانومی کلاس کا کرایہ گیارہ، بارہ سو روپے ہے حتیٰ کہ بعض اے سی کی سہولت رکھنے والی ٹرینوں کا کرایہ بھی تین ہزار کے لگ بھگ ہے پھر گرین ٹرین کے سر پر کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ اس کا کرایہ پانچ ہزار اور ساڑھے پانچ ہزار روپے رکھا گیا ہے۔
اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے جب ہم نے برادرم منظور رضی سے جن کی ساری زندگی ریلوے یونینوں میں گزری اور جو اب بھی ریلوے ورکرز کے قائد ہیں رابطہ کیا تو موصوف نے بعض دلچسپ حقائق سے ہمیں آگاہ کیا۔
منظور رضی نے بتایاکہ ریلوے کے انجن بڑی آسانی سے20 سے22 بوگیاں کھینچ لیتے ہیں جب کہ ہماری انقلابی گرین ٹرین دس ڈبوں پر مشتمل ہوتی ہے، موصوف نے بتایاکہ گرین ٹرین کا مارگلہ سے آغاز یقینا ایک اچھی بات ہے کیوں کہ ریلوے کا نیا لوکوشاپ مارگلہ ہی میں ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سہولتوں والی سروس سے عام آدمی فائدہ نہیں اٹھاسکتا کیوں کہ وہ مارگلہ یا پنڈی لاہور سے کراچی تک سفر کرنے کا پانچ یا ساڑھے پانچ ہزار روپے کرایہ دے ہی نہیں سکتا، یوں یہ گرین ٹرین ''صاحب حیثیت'' حضرات کے لیے تو گرین سگنل ہے لیکن عام غریب آدمی کے لیے یہ نئی سروس ریڈ ٹرین سروس بن گئی ہے۔
منظور رضی نے ایک انتہائی منطقی اور بامعنی بات یہ کی کہ مارگلہ سے اس ٹرین میں دو اکانومی کلاس کی بوگیاں لگائی جائیں اور لاہور سے چار اکانومی کلاس کی اور دو بغیر ریزرویشن کی بوگیاں لگائی جائیں تو اس ٹرین سے غریب آدمی کو بھی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے جس کا کرایہ 1100 سے 1200 تک ہونا چاہیے۔ منظور رضی کے مطابق جب ایک انجن 20 سے 22 بوگیاں آرام سے لے جاسکتا ہے تو پھر اس ٹرین کو 10 بوگیوں کی خصوصی ٹرین کیوں بنایا جارہاہے؟ پاکستان کی ٹرین سروس میں اگر گرین ٹرین کی سہولتوں کے ساتھ 11،12 سو روپے کرایہ رکھا جائے تو پھر وزیراعظم کا یہ دعویٰ درست مانا جاسکتا ہے کہ ریلوے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔
اصل مسئلہ انداز فکر کا ہے ہماری ایلیٹ کلاس ملک کی 3.2 فی صد ایلیٹ ہی کو عوام سمجھتی ہے اور اس کلاس کو مراعات دے کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ عوام کو مراعات دے رہی ہے حال ہی میں ہمارے قانون ساز اداروں کے معزز ارکان کی تنخواہ میں 60،70 ہزار روپے کا اضافہ کردیاگیا، مختلف الاؤنسز وغیرہ ملاکر ان محترمین کی ماہانہ آمدنی 4،5 لاکھ تک چلی جاتی ہے اور ''ترقیاتی کاموں'' کے لیے کروڑوں کے فنڈز الگ ملتے ہیں جب کہ 100 ،50 روپے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ملازمین کو برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
بھارت میں جب لالو پرشاد وزیر ریلوے تھے تو انھوں نے عام آدمی کو کم سے کم کرایوں کے ساتھ گرین ٹرین جیسی سہولتیں فراہم کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی ٹرینوں میں عام آدمی ہجوم کی شکل میں سفر کرنے لگا اور اس اقدام سے جہاں عام آدمی بہتر سہولت حاصل کرنے لگا وہیں ریلوے کی آمدنی میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ بد قسمتی سے ہمارے لالو پرشاد ریلوے کو بہتر کرنے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن ریلوے کو عام آدمی کے لیے لالو پرشاد جیسی سہولتیں مہیا کرنے کے بارے میں غور کرنے کی زحمت غالباً اس لیے نہیں کرتے کہ جن بزرگوں کے ساتھ وہ نتھی ہیں وہ لاہور سے کراچی تک پانچ ہزار روپے کرائے کو عوامی کرایہ سمجھتے ہیں۔
منظور رضی نے بتایاکہ لاہور سے کئی قریبی شہروں تک 4،4۔5،5 بوگیوں کی کئی ٹرینیں چلتی ہیں جس کی وجہ سے قریبی شہروں تک سفر کرنے والوں کو بہت سہولت مل گئی ہے جب کہ سندھ میں صورت حال اس کے بالکل الٹ ہے۔
پہلے حیدرآباد سے روزانہ 14 ٹرینیں قریبی شہروں میرپورخاص، بدین، دادو وغیرہ کے لیے چلتی تھیں جس کی وجہ سے ان شہروں کے عوام کو بہت سہولت حاصل ہوتی تھی، معلوم ہوا کہ ایک عرصے سے یہ ساری ٹرینیں بند پڑی ہیں اور صرف ایک ٹرین حیدرآباد سے میرپورخاص چل رہی ہے۔ منظور رضی نے مطالبہ کیاہے کہ حیدرآباد اور کراچی سے ہر روز ماضی کی طرح میرپورخاص، بدین، دادو، کھوکھرا پار وغیرہ کے لیے ٹرینیں چلائی جائیں تاکہ پنجاب کے عوام کی طرح سندھ کے عوام کو بھی سفری سہولتیں حاصل ہوسکیں۔ معلوم ہوا کہ مہران ایکسپریس چلانے کی بات طے ہوگئی ہے لیکن اس کے افتتاح کا وقت طے نہیں ہورہا۔
ہماری ریلوے کا عشروں سے دیوالیہ نکلا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں نیچے سے اوپر تک بدعنوانیوں کا بازار لگا رہا ہے، سعد رفیق نے دوڑ بھاگ کر کے اس مردہ گھوڑے میں کچھ جان تو ڈالی ہے لیکن اس کا فائدہ عوام کو نہیں مل رہا ہے ، اگر ملک میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہو تو کراچی سے کاشغر اور ترکی کے ساتھ ساتھ کراچی سے لاہور، پشاور تک عوام کے لیے گرین ٹرین سروس کم کرائے کے ساتھ چلائی جائے۔