اقتصادی راہداری ایک جائزہ
عوامی جمہوریہ چین کے صدر عزت مآب شی چن پنگ کے گزشتہ تاریخ ساز دورۂ پاکستان کی بازگشت ابھی تک سنی جا رہی ہے
عوامی جمہوریہ چین کے صدر عزت مآب شی چن پنگ کے گزشتہ تاریخ ساز دورۂ پاکستان کی بازگشت ابھی تک سنی جا رہی ہے، اور اس حوالے سے پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبے پر بحث و مباحثہ اور اظہارخیال کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام حالیہ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔
کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں نے اس بارے میں اپنے خیالات اور نظریات کا واضح الفاظ میں اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے اصل روٹ کو بحال کرے ورنہ متاثرہ علاقوں کے عوام اپنے قانونی اور آئینی حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا کہ ہم پاکستان کو اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے امداد دینے پر چین کے مشکور و ممنون ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
ہمیں زرداری صاحب کے اس خیال سے صد فیصد اتفاق ہے کیونکہ ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے اس میں سب کی رضامندی اور خوش دلی شامل ہونی چاہیے تاکہ عملدرآمد کے وقت راستے میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایک قومی نکتہ نظر اور سوچ کو فروغ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور بیشتر معاملات میں تنگ نظری اور محدود مفادات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج ہم توانائی کے جس شدید اور زبردست بحران کا شکار ہیں اس کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوکر مدت دراز سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ ہمارے لیے ترقی و خوشحالی کا ایک سنہری اور نادر موقع ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت و بلتستان کے ترقیاتی عمل میں ممدو معاون ثابت ہوگا بلکہ خطے میں امن واستحکام اور خوشی و خوشحالی کا بھی ضامن ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت توانائی، انفرا اسٹرکچر اور زرعی ترقی کو زبردست فروغ حاصل ہوگا اور تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں انقلابی ترقی اور پیش قدمی کے مواقعے میسر آئیں گے۔ ہمارے ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ بھی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔
جس کے نتیجے میں نہ صرف بہت سے معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ جرائم میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اس حوالے سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ منصوبہ نہ صرف ہمارے پروفیشنل اور ہنرمند افراد کے لیے بلکہ غیر ہنر مند افرادی قوت کے لیے بھی روزگار کے نئے مواقعے کے در کھولنے کا باعث بنے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ پہلو عظیم الشان منصوبہ ہے جو دونوں دوست ممالک کے تاریخی باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچائے گا بلکہ دو طرفہ معاشی مفادات کے لیے بے شمار فوائد حاصل کرنے کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ سچ پوچھیے تو پاک چین اقتصادی راہداری کا یہ فقید المثال منصوبہ اپنے زیر اثر چین، جنوبی اور وسطی ایشیا میں بسنے والی دنیا کی تقریباً نصف آبادی کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کی صلاحیت اور امکانات سے مالا مال ہے۔
اس منصوبے کی وجہ سے ملحقہ خطوں کے لیے پاکستانی بندرگاہوں کی اہمیت میں بھی دوچند اضافہ ہوگا اور پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کا حلقہ اثر مغربی اور وسطی ایشیائی ممالک تک فروغ پائے گا۔ درحقیقت چین اپنے بے مثال اور سچے دوست پاکستان کو اس خطے میں معاشی ٹائیگر کی حیثیت سے ابھرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے اور یہ منصوبہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
اقتصادی راہداری کا پاک چین منصوبہ CPECمحض سڑکوں پر مشتمل منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس میں اور کئی اسکیمیں اور چھوٹے چھوٹے منصوبے بھی شامل ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی چھتری ہے جس کے زیر سایہ توانائی، صحت عامہ، انفرااسٹرکچر، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کے مختلف اور متعدد منصوبوں سمیت دیگر بہت سارے پروجیکٹ شامل ہیں۔
بدقسمتی سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے حوالے سے بعض غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ بھی بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ایک غلط فہمی یہ ہے کہ یہ صرف ریل کی پٹڑی کی طرح کی سیدھی سڑک ہے جو دیگر بندرگاہوں کے ساتھ مقابلے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ یہ کام قرضے کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ مستند معلومات یہ ہیں کہ CPECکا روٹ اور Alignment یہ ہے کہ یہ ملک کی بالائی جانب جاتے ہوئے بذریعہ N-85 اور M-8گوادر اور کوئٹہ کو ملائے۔
ہائی ویز کے ان دونوں حصوں پر کام جاری ہے جو ترجیحی بنیادوں پر 2016 تک مکمل ہوجائے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت تعمیرکیے جانے والے روڈ نیٹ ورک کا اصل مقصد گوادر کو ملک کے دیگر حلقوں کے ساتھ مربوط طور پر جوڑنا اور اس کی راہ میں حائل موجودہ رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنا ہے۔ اس اعتبار سے CPECپاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت کو بروئے کار لاکر اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ایک سنجیدہ اور پرخلوص مشترکہ کوشش ہے۔ اس اکنامک کاریڈور کے توسط سے چین نے پاکستان میں کوئلے اور ہائیڈرل پاور کے ذریعے 10,400 میگاواٹ بجلی پیدا کرکے توانائی کے بحران پر قابو پانے کی پیشکش کی ہے۔
اگرچہ حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری پر غوروخوض کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلانے میں خاصی تاخیر کردی تاہم غنیمت ہے کہ کام انجام تو پایا۔ البتہ اس اجلاس میں راہداری کے تحت تکمیل پذیر ہونے والے مختلف منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے سے متعلق کوئی تسلی بخش اقدامات تجویز نہیں کیے جاسکے۔ ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ راہداری منصوبے کے تحت کل سرمایہ کاری کا تین چوتھائی حصہ توانائی کے منصوبوں پر مشتمل ہوگا تاہم یہ بات تعجب خیز ہے کہ ان پروجیکٹس کے ٹیکنیکل اور فنانشل پہلوؤں کے بارے میں مفصل معلومات کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے خواہ مخواہ کی بدگمانیاں اور قیاس آرائیاں جنم لے سکتی ہیں۔
چونکہ توانائی کے پروجیکٹس میں سے بیشتر کا تعلق نجی شعبے سے ہے اس لیے اعتماد سازی اور بھروسے کی فضا کا ہونا اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ اس منصوبے کا دورانیہ خاصا طویل ہے اس لیے ٹائم لائن کی ترتیب کا تعین بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ شمسی توانائی اور پن بجلی کے منصوبوں میں آخر پنجاب ہی کو کیوں اتنی ترجیح دی جا رہی ہے اور خیبرپختونخوا اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کو چین کے دوروں میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم نے راہداری منصوبے کی افادیت کے حوالے سے سوالات اٹھانے والوں کو ''ریاست کے دشمن'' کہہ کر اچھا نہیں کیا۔ جمہوری نظام کے تحت منتخب ہونے والے رہنما کی حیثیت سے انھیں اس قسم کی زبان استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس کے بجائے انھیں عوام کے منتخب کردہ تمام ارکان قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
تاہم وزیر منصوبہ بندی نے بہت اچھا کیا کہ وہ نقشہ جاری کردیا جس میں راہداری کے تحت مختلف سڑکوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق یہ ان کا ایک مثبت اقدام ہے۔ بہتر ہوگا کہ وزیر موصوف اس منصوبے کے حوالے سے پیدا ہونے والے دیگر شکوک و شبہات کا بھی جلد از جلد اور مکمل ازالہ کردیں تاکہ اس طرح کی چہ مہ گوئیاں اور افواہیں دم توڑ دیں اور پوری قوم کا بھرپور اعتماد حاصل کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ اس عظیم منصوبے کی مسلسل اور مستقل کڑی نگرانی کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی موجودگی بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ کسی قسم کی خردبرد کے امکان کی رتی بھر گنجائش بھی باقی نہ رہے۔ اس کے علاوہ اس طویل راہداری کی مکمل سیکیورٹی کا مسئلہ بھی پاکستان اور چین کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ مخالف قوتوں کی آنکھوں میں یہ تاریخ ساز منصوبہ کانٹے کی طرح سے چبھ رہا ہے۔ اس منصوبے کی بھرپور کامیابی اور افادیت کا ایک اور بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ اسلام آباد اور کابل باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے ذریعے بارڈر سیکیورٹی کو زیادہ سے زیادہ موثر اور یقینی بنائیں۔