غریب کو کب بجلی ملے گی
دنیا بھر میں سوائے پاکستان کےمنصوبےملک کی بنیاد پر بنائے جاتےاور ان پر عملدرآمد ہوتا ہے پاکستان میں طریقہ کار الگ ہے۔
KARACHI:
دنیا بھر میں سوائے پاکستان کے منصوبے ملک کی بنیاد پر بنائے جاتے اور ان پر عملدرآمد ہوتا ہے پاکستان میں طریقہ کار الگ ہے۔ بہت بڑا ملک ہے، تو پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے بڑے حصے کو ترقی یافتہ ''شکل'' دی جائے پھر بعد میں بقیہ ملک کا ''دیکھا جائے گا''۔
یہ 1947 سے اب تک ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں گورنر غلام محمد کی آمد کے بعد سے اب تک اس پالیسی سے انحراف نہیں ہوسکا چاہے پارٹی کوئی ہو۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ملک کا یہ بڑا حصہ جسے آپ صوبہ بھی کہہ سکتے ہیں ملک کے ٹیکس کے نظام سے کافی حد تک آزاد ہے اور ملک کا سب سے بڑا سرمایہ دار بھی ایک بار صرف پانچ ہزار روپے ٹیکس دیتا ہوا ریکارڈ میں موجود ہے جو ایک سرکاری ملازم کے سالانہ ٹیکس کی رقم سے بھی کم ہے۔ مگر آج تک نہ اس کی تحقیق ہوئی نہ اس پر کوئی سزا۔ کوئی عام آدمی ہوتا تو بھلا ''بچ کے دکھائے''۔
اب حکومت کے کارہائے نمایاں میں سے ایک ہے بجلی کا بدترین نظام۔ دو سال گزر جانے کے بعد یعنی اب تین سال رہ گئے ہیں ''باقاعدہ الیکشن'' میں تو بجلی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ''بڑے علاقے'' میں منصوبے شروع کردیے گئے ہیں آزاد کشمیر میں بھی اس علاقے کے ساتھ ساتھ شروع کر دیے گئے۔
اس ملک کا کیا ہوگا۔ اس سوچ سے جو کچھ بچتا ہے وہاں ایک ''سیاسی بچہ'' کے پی کے کا راگ الاپتا نظر آتا ہے۔ اس بڑے علاقے سے کل ٹیکس ایک ارب بھی سالانہ موصول نہیں ہوتا اور کھربوں کے منصوبے اس علاقے میں شروع ہو رہے ہیں۔ ختم ہو رہے ہیں۔ یہ ہے کھلا تضاد۔ اقوام عالم کی پالیسی اس ملک میں بھی چل رہی ہے کہ جو پسماندہ ہے اسے پسماندہ ہی رہنے دو۔ جو ترقی یافتہ ہے اسے اور ترقی دے دو۔
برقیاتی منصوبوں کی ''بجلی گراتے'' ہوئے اخبارات میں جو شیڈول دیا گیا ہے وہ بھی نااہلی کا منہ بولتا شاہکار ہے، کسی ملک میں حکومت اپنی ناکامی کا اعلان اشتہارات میں نہیں کرتی، جو 13 مئی کے اخبارات میں کیا گیا ہے جس میں خبروں کے مطابق یہ تمام منصوبے دو ہزار اٹھارہ تک مکمل ہوں گے اور وہی اگلے پانچ سال کے ''لائسنس حکومت'' یعنی الیکشن کا سال ہوگا تو یوں عوام کے سروں پر قرضوں کا بوجھ لاد کر، اگلے پانچ سال مزید قرضے لینے کے لیے عوام سے ہی ''لائسنس'' لے لیا جائے گا کسی بھی پارٹی کی حکومت ہے یا ہو اختلاف طریقہ کار اور عوامی مفاد کے خلاف کرنے پر ہوتا ہے اور یہی ہمارا بھی مقصد ہے۔ سارے ملک سے ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے تو اس وقت تو پورا ملک ایک سمجھا جاتا ہے مگر جب منصوبے اور عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو ملک کا بڑا حصہ اس ٹیکس کا بھی بڑا حصہ اپنے اوپر صرف کرنے پر کیوں تیار رہتا ہے۔
یہ صریحاً بددیانتی کے زمرے میں آنا چاہیے۔ جو ٹیکس زیادہ دیتا ہے اسے زیادہ مراعات ملنا چاہئیں یہ دنیا کا ایک طے شدہ اصول ہے۔ آپ کہیں کا بھی TAXکا نظام دیکھ لیں اور ٹیکس کی رقم کا استعمال دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ TAXوصول کرنے میں یہ رویہ معاون ثابت ہوتا ہے اور حکومتیں بجا طور پر یہ بورڈ لگاتی ہیں Your Tax On Work۔
یہاں تو ٹیکس کوئی دے رہا ہے اور بورڈ کہیں اور لگ رہے ہیں کام کہیں اور ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی ناانصافی ہے کہ جس پر اعلیٰ ترین اداروں کی آنکھیں بھی شاید نہیں کھل رہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت نے قانون بنایا ہے وہ بھی لنگڑا کہ جو پیسے دے گا بل دے گا بجلی اسے ملے گی تو کیا اس کے مطابق یہ درست نہیں ہے کہ جو TAXدے گا وہاں ہی ترقیاتی کام ہوں گے وہاں ہی ترقی ہوگی۔ مگر کون سنتا ہے ہر ادارے نے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں مگر ہم آج آپ کو بتا دیں کہ شعور اور معلومات کا گراف اب بہت بلند ہوچکا ہے جس وقت بھی دوسرے علاقوں کے سیاستدانوں نے ذرا سا بھی ''حقیقی سیاست'' کا مظاہرہ کیا یہ حکومت کے اندر حکومت ختم ہوجائے گی عوام جو پریشان ہیں ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔
اس مضحکہ خیز اشتہار میں حکومت نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے کہ وہ بجلی چوری نہیں روک سکتی اور جو بھی بندوق اٹھالے گا وہ بجلی آسانی سے مفت حاصل کرسکتا ہے KPKہو یا بلوچستان یا پھر پنجاب کے بااثر افراد۔ یہ وہ حکومت ہے جو چوری کی سزا بے گناہوں کو دینا چاہتی ہے اور لوڈشیڈنگ کا شرمناک شیڈول بجلی کی چوری سے مربوط ہے۔
چوری کو بھی ایک جرم کے بجائے اصول طے کرلیا گیا ہے اور نقصانات/ چوری لکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے نقصانات ''یا'' چوری۔ یعنی اگر نقصانات واپڈا کے عملے کی بددیانتی سے ہوں تو عملہ ذمے دار نہیں بجلی استعمال کرنے والے ذمے دار ہیں۔ اور چوری اگر کوئی ایک کر رہا ہے تو پورے وہ افراد جو بے گناہ ہیں اس کی چوری کی سزا بھگتیں گے، کیا کہتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بیچ کہ کیا کسی بے گناہ پڑوسی کو چور کے ساتھ اس لیے سزا دی جاسکتی ہے کہ چور اس کے پڑوس میں رہتا ہے۔
یعنی گھوڑے کو گاڑی کے پیچھے باندھنا۔ سکھوں والی سوچ۔ لکھتے ہیں جہاں 90 فیصد نقصانات یا چوری ہوگی وہاں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوگی۔یعنی چور کو چھ گھنٹے مفت بجلی فراہم کی جائے گی اور نقصانات 90 فیصد کو بل دینے والوں سے وصول کیا جائے گا۔ کہا گیا ہے بل بروقت ادا کریں۔ بجلی چوروں کو بے نقاب کریں۔ بجلی چور تو بجلی کے محکموں میں ہیں بے نقاب ہیں جو چوروں سے ملے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا محلے میں جینا دوبھر ہوجائے اگر وہ یہ شکایت کریں کہ ''مسٹر ایکس'' بجلی چوری کر رہے ہیں''۔ ''مسٹر ایکس'' سے محلے والے دشمنی بھی مول لیں اور بجلی کا بل بھی بروقت ادا کریں۔
تو بجلی کا نظام ہی کیوں نہ محلے والوں کے سپرد کردیا جائے کہ وہ دیکھ بھال کے چلالیں۔ شاید ان محکموں سے تو زیادہ اچھا چلالیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجلی 90 فیصد چوری ہو رہی ہے تو حکومت کہاں ہے؟ اداروں میں ایماندار لوگ کہاں ہیں؟ کیا سارے ادارے بے ایمانوں سے ہی بھرے ہوئے ہیں؟ کس نے بھرے ہیں نااہلوں اور بے ایمانوں سے ادارے۔۔۔۔ حکومتوں نے! تو حکومت نکالے ان لوگوں کو۔ محکمانہ کارروائی کرے اور ان سے ادارے خالی کروا کے دیانتدار لوگوں کو ان کی جگہ لائے۔
یہ میرا اور آپ کا تو کام نہیں ہے۔ جو شخص مکمل بل ادا کر رہا ہے اور اس پر حکومت کے کوئی بقایا جات نہیں اس کی بجلی بند کرنے کا یہ اختیار آپ نے کیسے حاصل کرلیا؟ اور آپ اس پر عملدرآمد کرکے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حکومت کا کام جان و مال کی حفاظت ہوتا ہے۔ جان و مال کو نقصان پہنچانا نہیں۔
ہمارا تو خیال یہ ہے کہ صارفین کو متحد ہوجانا چاہیے اور اس ظلم کے خلاف حکومت کو Approach کرنا چاہیے کہ وہ اس کا زیادہ بہتر نظام قائم کرے۔ بجلی چوروں کو ہر صورت پکڑے چاہے فوج کے ذریعے یہ کام لیا جائے۔ مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ حکومت میں شامل اور حکومت کے باہر بھی سیاستدانوں کی کافی بڑی تعداد بجلی کو استعمال کرنے والوں کی ہے جو اپنے کارخانے، فیکٹریاں برقی رو سے ہی چلاتے ہیں۔ ''کم آمدنی والے'' کو دو روپے یونٹ بجلی فراہم کرنا بھی ایک ''سنہرا خواب'' ہے۔ کیا حکومت نے کم آمدنی والوں کی فہرستیں تیار کرلی ہیں۔
شہر میں یہ نظام رائج کردیا گیا ہے۔ اشتہارات اور اعلانات کی حد تک تو یہ سب ''سہانے سپنے'' ہیں اور اگر لسٹ بنی بھی تو اس میں بھی بڑے بڑے ''سرمایہ دار''۔ ''غریب'' بن جائیں گے۔ نوکروں کے نام کنکشن لے کر خود استعمال کریں گے۔ یہ کوئی نہیں پوچھے گا کہ نوکر نے ایک ہزار یونٹ کہاں خرچ کیے۔ یہ بھی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک مشق ہے اور اس کا بھی فائدہ صرف سرمایہ داروں، سیاستدانوں، امیروں کو ہوگا ایک غریب کو بھی دو روپے یونٹ بجلی نہیں ملے گی پاکستان میں۔
دنیا بھر میں سوائے پاکستان کے منصوبے ملک کی بنیاد پر بنائے جاتے اور ان پر عملدرآمد ہوتا ہے پاکستان میں طریقہ کار الگ ہے۔ بہت بڑا ملک ہے، تو پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے بڑے حصے کو ترقی یافتہ ''شکل'' دی جائے پھر بعد میں بقیہ ملک کا ''دیکھا جائے گا''۔
یہ 1947 سے اب تک ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں گورنر غلام محمد کی آمد کے بعد سے اب تک اس پالیسی سے انحراف نہیں ہوسکا چاہے پارٹی کوئی ہو۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ملک کا یہ بڑا حصہ جسے آپ صوبہ بھی کہہ سکتے ہیں ملک کے ٹیکس کے نظام سے کافی حد تک آزاد ہے اور ملک کا سب سے بڑا سرمایہ دار بھی ایک بار صرف پانچ ہزار روپے ٹیکس دیتا ہوا ریکارڈ میں موجود ہے جو ایک سرکاری ملازم کے سالانہ ٹیکس کی رقم سے بھی کم ہے۔ مگر آج تک نہ اس کی تحقیق ہوئی نہ اس پر کوئی سزا۔ کوئی عام آدمی ہوتا تو بھلا ''بچ کے دکھائے''۔
اب حکومت کے کارہائے نمایاں میں سے ایک ہے بجلی کا بدترین نظام۔ دو سال گزر جانے کے بعد یعنی اب تین سال رہ گئے ہیں ''باقاعدہ الیکشن'' میں تو بجلی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ''بڑے علاقے'' میں منصوبے شروع کردیے گئے ہیں آزاد کشمیر میں بھی اس علاقے کے ساتھ ساتھ شروع کر دیے گئے۔
اس ملک کا کیا ہوگا۔ اس سوچ سے جو کچھ بچتا ہے وہاں ایک ''سیاسی بچہ'' کے پی کے کا راگ الاپتا نظر آتا ہے۔ اس بڑے علاقے سے کل ٹیکس ایک ارب بھی سالانہ موصول نہیں ہوتا اور کھربوں کے منصوبے اس علاقے میں شروع ہو رہے ہیں۔ ختم ہو رہے ہیں۔ یہ ہے کھلا تضاد۔ اقوام عالم کی پالیسی اس ملک میں بھی چل رہی ہے کہ جو پسماندہ ہے اسے پسماندہ ہی رہنے دو۔ جو ترقی یافتہ ہے اسے اور ترقی دے دو۔
برقیاتی منصوبوں کی ''بجلی گراتے'' ہوئے اخبارات میں جو شیڈول دیا گیا ہے وہ بھی نااہلی کا منہ بولتا شاہکار ہے، کسی ملک میں حکومت اپنی ناکامی کا اعلان اشتہارات میں نہیں کرتی، جو 13 مئی کے اخبارات میں کیا گیا ہے جس میں خبروں کے مطابق یہ تمام منصوبے دو ہزار اٹھارہ تک مکمل ہوں گے اور وہی اگلے پانچ سال کے ''لائسنس حکومت'' یعنی الیکشن کا سال ہوگا تو یوں عوام کے سروں پر قرضوں کا بوجھ لاد کر، اگلے پانچ سال مزید قرضے لینے کے لیے عوام سے ہی ''لائسنس'' لے لیا جائے گا کسی بھی پارٹی کی حکومت ہے یا ہو اختلاف طریقہ کار اور عوامی مفاد کے خلاف کرنے پر ہوتا ہے اور یہی ہمارا بھی مقصد ہے۔ سارے ملک سے ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے تو اس وقت تو پورا ملک ایک سمجھا جاتا ہے مگر جب منصوبے اور عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو ملک کا بڑا حصہ اس ٹیکس کا بھی بڑا حصہ اپنے اوپر صرف کرنے پر کیوں تیار رہتا ہے۔
یہ صریحاً بددیانتی کے زمرے میں آنا چاہیے۔ جو ٹیکس زیادہ دیتا ہے اسے زیادہ مراعات ملنا چاہئیں یہ دنیا کا ایک طے شدہ اصول ہے۔ آپ کہیں کا بھی TAXکا نظام دیکھ لیں اور ٹیکس کی رقم کا استعمال دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ TAXوصول کرنے میں یہ رویہ معاون ثابت ہوتا ہے اور حکومتیں بجا طور پر یہ بورڈ لگاتی ہیں Your Tax On Work۔
یہاں تو ٹیکس کوئی دے رہا ہے اور بورڈ کہیں اور لگ رہے ہیں کام کہیں اور ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی ناانصافی ہے کہ جس پر اعلیٰ ترین اداروں کی آنکھیں بھی شاید نہیں کھل رہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت نے قانون بنایا ہے وہ بھی لنگڑا کہ جو پیسے دے گا بل دے گا بجلی اسے ملے گی تو کیا اس کے مطابق یہ درست نہیں ہے کہ جو TAXدے گا وہاں ہی ترقیاتی کام ہوں گے وہاں ہی ترقی ہوگی۔ مگر کون سنتا ہے ہر ادارے نے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں مگر ہم آج آپ کو بتا دیں کہ شعور اور معلومات کا گراف اب بہت بلند ہوچکا ہے جس وقت بھی دوسرے علاقوں کے سیاستدانوں نے ذرا سا بھی ''حقیقی سیاست'' کا مظاہرہ کیا یہ حکومت کے اندر حکومت ختم ہوجائے گی عوام جو پریشان ہیں ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔
اس مضحکہ خیز اشتہار میں حکومت نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے کہ وہ بجلی چوری نہیں روک سکتی اور جو بھی بندوق اٹھالے گا وہ بجلی آسانی سے مفت حاصل کرسکتا ہے KPKہو یا بلوچستان یا پھر پنجاب کے بااثر افراد۔ یہ وہ حکومت ہے جو چوری کی سزا بے گناہوں کو دینا چاہتی ہے اور لوڈشیڈنگ کا شرمناک شیڈول بجلی کی چوری سے مربوط ہے۔
چوری کو بھی ایک جرم کے بجائے اصول طے کرلیا گیا ہے اور نقصانات/ چوری لکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے نقصانات ''یا'' چوری۔ یعنی اگر نقصانات واپڈا کے عملے کی بددیانتی سے ہوں تو عملہ ذمے دار نہیں بجلی استعمال کرنے والے ذمے دار ہیں۔ اور چوری اگر کوئی ایک کر رہا ہے تو پورے وہ افراد جو بے گناہ ہیں اس کی چوری کی سزا بھگتیں گے، کیا کہتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بیچ کہ کیا کسی بے گناہ پڑوسی کو چور کے ساتھ اس لیے سزا دی جاسکتی ہے کہ چور اس کے پڑوس میں رہتا ہے۔
یعنی گھوڑے کو گاڑی کے پیچھے باندھنا۔ سکھوں والی سوچ۔ لکھتے ہیں جہاں 90 فیصد نقصانات یا چوری ہوگی وہاں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوگی۔یعنی چور کو چھ گھنٹے مفت بجلی فراہم کی جائے گی اور نقصانات 90 فیصد کو بل دینے والوں سے وصول کیا جائے گا۔ کہا گیا ہے بل بروقت ادا کریں۔ بجلی چوروں کو بے نقاب کریں۔ بجلی چور تو بجلی کے محکموں میں ہیں بے نقاب ہیں جو چوروں سے ملے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا محلے میں جینا دوبھر ہوجائے اگر وہ یہ شکایت کریں کہ ''مسٹر ایکس'' بجلی چوری کر رہے ہیں''۔ ''مسٹر ایکس'' سے محلے والے دشمنی بھی مول لیں اور بجلی کا بل بھی بروقت ادا کریں۔
تو بجلی کا نظام ہی کیوں نہ محلے والوں کے سپرد کردیا جائے کہ وہ دیکھ بھال کے چلالیں۔ شاید ان محکموں سے تو زیادہ اچھا چلالیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجلی 90 فیصد چوری ہو رہی ہے تو حکومت کہاں ہے؟ اداروں میں ایماندار لوگ کہاں ہیں؟ کیا سارے ادارے بے ایمانوں سے ہی بھرے ہوئے ہیں؟ کس نے بھرے ہیں نااہلوں اور بے ایمانوں سے ادارے۔۔۔۔ حکومتوں نے! تو حکومت نکالے ان لوگوں کو۔ محکمانہ کارروائی کرے اور ان سے ادارے خالی کروا کے دیانتدار لوگوں کو ان کی جگہ لائے۔
یہ میرا اور آپ کا تو کام نہیں ہے۔ جو شخص مکمل بل ادا کر رہا ہے اور اس پر حکومت کے کوئی بقایا جات نہیں اس کی بجلی بند کرنے کا یہ اختیار آپ نے کیسے حاصل کرلیا؟ اور آپ اس پر عملدرآمد کرکے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حکومت کا کام جان و مال کی حفاظت ہوتا ہے۔ جان و مال کو نقصان پہنچانا نہیں۔
ہمارا تو خیال یہ ہے کہ صارفین کو متحد ہوجانا چاہیے اور اس ظلم کے خلاف حکومت کو Approach کرنا چاہیے کہ وہ اس کا زیادہ بہتر نظام قائم کرے۔ بجلی چوروں کو ہر صورت پکڑے چاہے فوج کے ذریعے یہ کام لیا جائے۔ مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ حکومت میں شامل اور حکومت کے باہر بھی سیاستدانوں کی کافی بڑی تعداد بجلی کو استعمال کرنے والوں کی ہے جو اپنے کارخانے، فیکٹریاں برقی رو سے ہی چلاتے ہیں۔ ''کم آمدنی والے'' کو دو روپے یونٹ بجلی فراہم کرنا بھی ایک ''سنہرا خواب'' ہے۔ کیا حکومت نے کم آمدنی والوں کی فہرستیں تیار کرلی ہیں۔
شہر میں یہ نظام رائج کردیا گیا ہے۔ اشتہارات اور اعلانات کی حد تک تو یہ سب ''سہانے سپنے'' ہیں اور اگر لسٹ بنی بھی تو اس میں بھی بڑے بڑے ''سرمایہ دار''۔ ''غریب'' بن جائیں گے۔ نوکروں کے نام کنکشن لے کر خود استعمال کریں گے۔ یہ کوئی نہیں پوچھے گا کہ نوکر نے ایک ہزار یونٹ کہاں خرچ کیے۔ یہ بھی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک مشق ہے اور اس کا بھی فائدہ صرف سرمایہ داروں، سیاستدانوں، امیروں کو ہوگا ایک غریب کو بھی دو روپے یونٹ بجلی نہیں ملے گی پاکستان میں۔