استادکی عزت اور قدر و منزلت

استاد ایک خزانے کا مالک ہے اگر آپ خزانے کے مالک سے خوش خلقی اور خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

تاریخ اسلام پڑھیں مشاہیر کا مطالعہ کیجیے جو شہرت و عظمت کے آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستاروں کی مانند درخشاں ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ گوہر نایاب اپنی عظیم حیات کے دور طالب علمی میں اخلاقیات کے عمدہ نمونے تھے، لہٰذا پھر یہی با ادب با نصیب بھی ثابت ہوئے بہر حال اب ایسے استاد رہے نا ہی شاگرد مگر چند ایک گویا آٹے میں نمک کے برابر۔

حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالکؒ کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے، حضرت امام ربیع ؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی، ایک مجلس میں امام مالکؒ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، اثنائے گفتگو ابراہیم بن اطہمان کا ذکر نکل آیا ان کا نام سنتے ہی امام مالکؒ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نازیبا بات ہوگی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے بیٹھے رہیں، تعلیم المتعلم میں ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی بھی توقیر کرے نیز یہ کہ علم کے زوال کا سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے۔

صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ بخارا کے ایک بہت بڑے امام وقت اپنے حلقہ درس میں مصروف درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آجا رہا ہے تو میں اس کے لیے بمقصد تعظیم کھڑا ہوجاتا ہوں، ایک بار عبداﷲ المبارک سفر کررہے تھے لوگوں نے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے فرمایا بصرہ جارہاہوں، لوگوں نے دریافت کیا کہ اب وہاں کون رہ گیا ہے جس سے آپ حدیث نہ سن چکے ہوں، فرمایا ''ابن عون کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے ان سے اخلاق و آداب سیکھوں گا۔

اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ ہم بعض علما کی خدمت میں علم حاصل کرنے نہیں جاتے بلکہ صرف اس مقصد سے حاضری دیتے کہ ان کی نیک روش، ان کا آداب و اخلاق اور ان کا طرز انداز سیکھیںگے ان کی رفتار و گفتار، حرکات و سکنات اور نشیب و فراز سے استفادہ ادب کریں، امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ استاد کی مدارت واجب ہے اس کی تندی و سختی وغیرہ کو اپنی نرمی سے رفع کرے، امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ اگر استاد اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہ کرے تو اس کی شکر گزاری ضروری ہے، جب کوئی نقطہ سمجھائے جو تمھیں پہلے سے معلوم ہو تب بھی ظاہر نہ کرو کہ یہ مجھے پہلے سے معلوم ہے، بزرگوں نے فرمایا ہے کہ استاد کے پہلو میں نہ بیٹھو وہ کہے تب بھی نہ بیٹھو مگر جب جانو کہ نہ بیٹھنے سے اس کو صدمہ ہونے کا خدشہ ہو تب مضائقہ نہیں۔

استاد ایک خزانے کا مالک ہے اگر آپ خزانے کے مالک سے خوش خلقی اور خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں تب ہی وہ خزانہ آپ کے ہاتھ لگے گا، قاضی فخر الدین ارسانبدی مرو میں رئیس الائمہ تھے بادشاہ وقت بھی ان کا احترام کرتا تھا فرماتے ہیں میں نے یہ منصب صرف استاد کی خدمت کے طفیل پایا، تیس برس اپنے استاد ابو زید برسی کا کھانا پکایا اور باخیال ادب کبھی اس سے نہ کھایا

علم علم ہست گرچہ سک باقی است
ہم ازیں مرتبہ بگسیر قیاس
ہر کہ رانگتہ بیآمسوزی
سگ بود گرندارد ارتو سپاس

دور طالب علمی میں ہمارے اسلاف کے انداز خدمت اس طرح تھے کہ وہ علم و کمال کے بلند ترین مقام پر استاد کے ادب و احترام کی بدولت فائز ہوئے، استاد سے صرف نصابی عقل ہی نہیں حاصل کی جاتی بلکہ اس کی ہر ادا ہمارے لیے ایک سبق رکھتی ہے۔ بطلیموس کا ایک قول ہے کہ ''استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے'' احترام استاد کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو ابو عبیدہ کی مثال سے سیکھا جاسکتا ہے، فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی کسی محدث کے دروازے پر حاضر ہوا تو اطلاع بھجواکر داخلے کی اجازت نہیں مانگی بلکہ بیٹھا انتظار کرتا رہا تا آنکہ وہ خود برآمد ہوئے، میں نے قرآن حکیم کی اس آیت سے جو ادب مستفاد ہوتا ہے پر نظر رکھی، ترجمہ آیت ''کاش وہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ﷺ خود نکلتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا''


حاکم خراسان عبداﷲ بن طاہر کے صاحبزادے طاہر اپنے باپ کی زندگی میں حج کو آئے تو گورنر مکہ اسحاق بن ابراہیم نے اپنے گھر پر علمائے مکہ کو مدعو کیا تاکہ طاہر ان سے مل لے اور ان سے کچھ پڑھ لے، اس دعوت کو دیگر تمام علما نے قبول کیا اور ہر قسم کے اہل علم شریک بھی ہوئے لیکن ابو عبیدہؒ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ علم کے پاس خود چل کر آنا چاہیے، اسحاق اس بات پر خفا ہوگیا اور عبداﷲ بن طاہر کی طرف سے ابو عبیدہ کو جو دو ہزار درہم وظیفہ ملتا تھا بند کردیا اور ابو عبیدہ کے جواب کی اطلاع طاہر کو بھیج دی، عبداﷲ بن طاہر کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے اسحاق کو خط لکھا کہ ابو عبیدہ نے بالکل سچ کہا آج سے میں اس کا وظیفہ دو چند کرتاہوں تم اس پر عمل کرو اور ان کا بقایا بھی ادا کرو''

امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ''ہارون الرشید خلیفہ وقت نے میرے پاس آدمی بھیج کر سماع حدیث کی خواہش ظاہر کی، میں نے کہلا بھیجا کہ علم کے پاس لوگ آتے ہیں وہ دوسروں کے پاس نہیں جایا کرتا، ہارون الرشید یہ جواب پاکر خود آئے اور آکر میرے پاس دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے میں نے کہا ''اے امیر المؤمنین خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیاجائے، ہارون کھڑے ہوگئے، پھر میرے سامنے شاگردانہ انداز سے بیٹھے، احادیث سنتے رہے''

ایک طالب علم کو حضرت علی المرتضیٰؓ کا بھی یہ قول یادداشت میں محفوظ رکھنا چاہیے کہ ''جس شخص نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے'' اس قول کا حکیم قا آنی سے معلوم ہے کہ کلاسز میں لیکچرز دینے والے حضرات ہی استاد نہیں بلکہ معاشرے میں کوئی فرد ماشہ بھر نقطہ سکھانے والا بھی استاد ہے، ایک اور فلاسفر کا قول ہے کہ وہ شخص ہمیشہ بے فیض رہتا ہے جو اپنے استاد کی عظمت و بزرگی کا خیال نہیں رکھتا جس سے ایک نقطہ بھی سیکھو اس کی دل سے عزت کرو۔

مسلم عہد رفتہ کے اساتذہ کی شان بھی ذرا ملاحظہ کیجیے انھیں مال و زر کی قطعی کوئی خواہش نہ تھی ایک مرتبہ مشہور مسلم سائنسدان ابو علی الحسن الحسن ابن الہشیم کے پاس سمنان کا ایک امیر آدمی جس کا نام سرخاب تھا آیا، انھوں نے کہا ''میں تمھیں پڑھانے کا معاوضہ سو اشرفی ماہانہ لوںگا'' سرخاب نے یہ شرط قبول کرلی اور تین برس تک ان سے تعلیم حاصل کی جب سرخاب واپس جانے لگا تو انھوں نے یہ کہہ کر سرخاب کی ساری رقم واپس کردی ''اپنی رقم واپس لے لو، مجھے اس کی ضرورت نہیں، جب تم اپنے ملک جائو گے تو تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہوگی، میں تو یہ فیس مانگ کر تمہارے شوق کا اندازہ کرنا چاہتا تھا، جب مجھے معلوم ہوگیا کہ تمہیں دولت کے مقابلے میں علم زیادہ عزیز ہے تو میں نے اپنی پوری طاقت صرف کردی، یاد رکھو! نیک کام کے انجام دینے میں اجرت، رشوت اور ہدیہ کوئی چیز نہیں ہے''

علم خزینۂ معرفت ہے جس سے خود مستفید ہوکر دوسروں کو بھی اس کی جانب راغب کرنا ہے موجودہ زمانے میں اس کی ہیئت ہی تبدیل ہوگئی ہے اب یہ دولت سمیٹنے کا ایک اعلیٰ ترین آلہ اور موثر ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اس مادی دور میں ہر شخص دوسرے پر زر کی برتری چاہتاہے بدقسمتی سے ہمارے اساتذہ بھی اس لہر سے نہ بچ سکے، استاد کا مقام بہت بلند ہے لیکن افسوس کہ اساتذہ بھی اس مقام کو بُھولا بیٹھے ہیں اگر اساتذہ ہی اپنا مقام و مرتبہ بھولا بیٹھے ہوں تو بھلا عہد جدید کا آزاد خیال شاگرد ان کا احترام کیسے کرسکے گا۔

یہ استاد ہی ہوتا ہے جو انسان کو احسن التقویم سے سرفراز کرتا ہے، اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ معاشرے میں استاد کو جائز مقام دلوایا جائے اور استاد بھی خود کو اس کا اہل ثابت کرے، یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے فرائض کو پہچانیں اسی میں ہماری ترقی کا راز ہے ایک مسلمان استاد اور طالب علم کو دنیا اور عقبیٰ دونوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے، میرا یہ یقین محکم ہے کہ اگر ہم میں فرض شناس طالب علم اور اساتذہ کرام نے دوبارہ جنم لے لیا تو یہ امت مسلمہ مرحومہ ایک بار پھر سینہ سپر ہوکر دنیا و عقبیٰ سے سرخرو ہوگی، اے رحمت خداوندی اب جوش میں آ اور ایسے اساتذہ اور تلامذہ پیدا فرما جن کے دلوں میں قومی جذبہ اور لگن تلاش جستجو ہو اور ان کے اذہان و قالب پر دینی و ایمانی اقدار انمٹ نقوش ثبت کرچکے ہوں۔

شیخ مکتب ہے ایک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
کہہ گیا ہے حکیم قا آنی
پیش خورشید برمکشن دیوار
خواہی از صحن خانہ نورانی
Load Next Story