توہین عدالت کیس میں آئی جی سندھ اور کراچی پولیس چیف کی غیر مشروط معافی مسترد
آئی جی سمیت پولیس حکام پر فردِ جرم 28 عائد کی جائے گی
QUETTA:
سندھ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں آئی جی غلام حیدر جمالی اور ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو کے معافی نامے مسترد کردیئے ہیں تاہم ان پر فرد جرم 28 مئی کو عائد کی جائے گی۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ہائی کورٹ کے احاطہ عدالت میں صحافیوں اور ذوالفقار مرزا کے حامیوں پرپولیس تشدد کے واقعے کے نوٹس پر سماعت کی، سماعت کے دوران آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سندھ کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگی گئی۔ آئی جی سندھ کی جانب سے واقعے کی رپورٹ کہا گیا کہ انہیں واقعے کی اطلاع نہیں تھی تاہم وہ یقین دلاتے ہیں کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے گی اس سلسلے میں انچارج ایس ایس یو سمیت 12 کمانڈوز معطل کردیئے گئے ہیں۔
عدالت عالیہ نے پولیس کی رپورٹ پر سخت اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ میں اصل حقائق کو نظرانداز کیا گیا،آئی جی سندھ کی اجازت کے بغیر اتنے سارے پولیس افسران عدالت میں کیسے تعینات ہوسکتے ہیں، واقعے کی براہ راست ذمہ داری آئی جی سندھ پرعاَئد ہوتی ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ شہر میں امن کی بحالی کے لیے پولیس نے قربانیاں دیں، جسٹس مقبول باقر پر حملے میں بھی پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں قربانیوں کی بات نہیں ہو رہی، جھگڑا وہاں سے شروع ہوتا جب آپ آئی جی نہیں بلکہ ایجنٹ بن کر کام کرتے ہیں۔ صورت حال کے ذمہ دار آپ ہیں اور آپ کو اس روز یہاں آنا چاہیے تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی غلام حیدر جمالی اور ایڈیشنل آئی جی غلام قادرتھیبو کے معافی نامے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی جی سندھ سمیت ملزمان کے کٹہرے میں کھڑاکریں گے، عدالت نے ڈی آئی جی غربی، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ، ایس ایس پی جنوبی، ایس ایس یو کمانڈر میجر ریٹائرڈ سلیم ، ایس ایس پی لیاقت آباد،ایس ایس پی سٹی اور ایس پی صدر کو حلف نامے داخل کرنے کا حکم دے دیا۔ کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی جس میں آئی جی سمیت پولیس حکام پر فردِ جرم 28 عائد کی جائے گی۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rjydr
سندھ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں آئی جی غلام حیدر جمالی اور ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو کے معافی نامے مسترد کردیئے ہیں تاہم ان پر فرد جرم 28 مئی کو عائد کی جائے گی۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ہائی کورٹ کے احاطہ عدالت میں صحافیوں اور ذوالفقار مرزا کے حامیوں پرپولیس تشدد کے واقعے کے نوٹس پر سماعت کی، سماعت کے دوران آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سندھ کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگی گئی۔ آئی جی سندھ کی جانب سے واقعے کی رپورٹ کہا گیا کہ انہیں واقعے کی اطلاع نہیں تھی تاہم وہ یقین دلاتے ہیں کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے گی اس سلسلے میں انچارج ایس ایس یو سمیت 12 کمانڈوز معطل کردیئے گئے ہیں۔
عدالت عالیہ نے پولیس کی رپورٹ پر سخت اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ میں اصل حقائق کو نظرانداز کیا گیا،آئی جی سندھ کی اجازت کے بغیر اتنے سارے پولیس افسران عدالت میں کیسے تعینات ہوسکتے ہیں، واقعے کی براہ راست ذمہ داری آئی جی سندھ پرعاَئد ہوتی ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ شہر میں امن کی بحالی کے لیے پولیس نے قربانیاں دیں، جسٹس مقبول باقر پر حملے میں بھی پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں قربانیوں کی بات نہیں ہو رہی، جھگڑا وہاں سے شروع ہوتا جب آپ آئی جی نہیں بلکہ ایجنٹ بن کر کام کرتے ہیں۔ صورت حال کے ذمہ دار آپ ہیں اور آپ کو اس روز یہاں آنا چاہیے تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی غلام حیدر جمالی اور ایڈیشنل آئی جی غلام قادرتھیبو کے معافی نامے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی جی سندھ سمیت ملزمان کے کٹہرے میں کھڑاکریں گے، عدالت نے ڈی آئی جی غربی، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ، ایس ایس پی جنوبی، ایس ایس یو کمانڈر میجر ریٹائرڈ سلیم ، ایس ایس پی لیاقت آباد،ایس ایس پی سٹی اور ایس پی صدر کو حلف نامے داخل کرنے کا حکم دے دیا۔ کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی جس میں آئی جی سمیت پولیس حکام پر فردِ جرم 28 عائد کی جائے گی۔
https://www.dailymotion.com/video/x2rjydr