کراچی میں دہشت گردی کا رنگ بدلتا منظرنامہ
کراچی کے حالات میں قدر بہتری بھی آئی ہے لیکن ابھی اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا
کراچی میں دہشت گردی، قانون شکنی، اسٹریٹ کرائم، بینک ڈکیتیوں اور ٹارگٹ کلنگ کا تسلسل جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں کے پس منظر میں ہولناک صورتحال پیش کرتا ہے، ایک طرف جہاں دہشت گردوں کا بھرپور تعاقب جاری ہے اور ان سے قبضہ میں لیے جانے والے اسلحہ ،خود کش جیکٹ اور مختلف مقدمات اور سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے کے انکشافات اورانٹیلی جنس کے ذریعے اطلاعات کے حصول میں کامیابیوں کا شور ہے وہاں شہر قائد میں دہشتگرد اور ڈکیت گروپس کی دیدہ دلیری بھی حیران کن جب کہ قانون نافذ کرنے والوں کے کریک ڈاؤن پر سوالیہ نشان ہے۔
گزشتہ روز یکے بعد دیگرے تین ہولناک وارداتوں نے کراچی کو بدامنی کے شدید جھٹکے دیے، ایک واقعہ مومن آباد کے علاقے فقیر کالونی پریشان چوک کے قریب ہوا جس میں رینجرز کے سرچ آپریشن کے دوران خودکش بمبار نے خود کو اڑالیا، ذرائع کا کہنا تھا کہ اسی مکان میں 5 سے زیادہ دہشت گرد تھے جن کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، ادھر سرجانی ٹاؤن ناردرن بائی پاس کے قریب زیرو پوائنٹ پر رینجرز سے مقابلے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، رینجرز نے انٹیلی جنس اطلاع پر جب چھاپہ مارا تو دہشتگردوں نے فائرنگ کردی۔، رینجرز کے ایک اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
علاوہ ازیں گلشن اقبال میں بینک گارڈ نے ساتھیوں کی مدد سے 90 لاکرز توڑ کر کروڑوں روپے مالیت کا سونا، طلائی زیورات، ملکی اور غیرملکی کرنسی ، انعامی بانڈز اور جائیدات کے کاغذات سمیت قیمتی اشیاء لوٹ لیے ، ملزم کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے پارا چنار سے بتایا جاتا ہے ۔ مرکزی ملزم کے ساتھی اور سیکیورٹی کمپنی کے دو گارڈز گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ غیر مقامی اور مشتبہ بینک گارڈز کی تعیناتی پر میڈیا کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرے ، نہ اسکروٹنی کی گئی، اگر یہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں لاقانونیت اور انارکی کا منظر نامہ نہیں تو اسے کیا نام دیا جائے۔
شہریوں کو کسی پل چین نہیں ملتا۔ تاہم دوسری جانب سانحہ صفورا میں اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے جس میں پولیس کے مطابق تازہ ترین کارروائی میں گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر گولیاں برسانے والے 2دہشت گردوں کے وہ کپڑے برآمد کر لیے گئے جو معصوم لوگوں کے خون سے آلودہ ہیں، یہ ثبوت عدالتی کارروائی میں اہم ثابت ہوں گے۔ پولیس نے کپڑے فارنسک ٹیسٹ کے لیے لیباریٹری بھجوادیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس کیس میں پہلے سے گرفتار 4ملزمان کی نشاندہی پر مزید 4ملزمان گرفتارکر لیے گئے ہیں۔ دریں اثنا سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے احاطہ عدالت میں صحافیوں اورذوالفقارمرزا کے حامیوں پر پولیس تشدد کے واقعے پر ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادرتھیبو، ڈی آئی جی ساؤتھ فیروزشاہ اور ایس ایس پی ساؤتھ چوہدری اسد کو تاحکم ثانی کام سے روک دیا جب کہ آئی جی سندھ ،اے آئی جی ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کوشوکاز نوٹس جاری کر دیے اور توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ دیدیا، عدالت کا استفسار چشم کشا ہے کہ پولیس کو سندھ ہائیکورٹ کا گھیراؤ کرنے کے احکامات کس نے دیے تھے، میڈیا کے نمایندوں اوردیگر پرتشدد کا اختیارکس نے دیا، ذمے دارافسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی مخدوش صورتحال گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے اور امن وامان کے قیام کے لیے بڑے پیمانہ پر اقدامات کی ضرورت کل کے مقابلہ میں آج بے حد شدید ہوگئی ہے۔ منی پاکستان کو مافیاؤں ، دہشت گردوں اور مجرمانہ عناصر کے مضبوط شکنجہ سے نکالنے کے لیے پولیس و رینجرز میں مزید اشتراک عمل اور موثر انٹیلی جنس کو یقینی بنانا شرط اول ہے۔کوئی ہے جو فغان درویش سنے!کراچی کی پیچیدہ صورت حال میں انتہائی متحرک انتظامیہ کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں کراچی کے حالات میں قدر بہتری بھی آئی ہے لیکن ابھی اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رینجرز پولیس اور ضلعی انتظامیہ زیادہ بہتر اور متحرک کردار ادا کریں تو کراچی کے حالات میں خاصی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ سفر بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی سوچ کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا جائے اور وہ کام کیا جائے جس سے کراچی امن کا گہوارہ بن سکے۔
گزشتہ روز یکے بعد دیگرے تین ہولناک وارداتوں نے کراچی کو بدامنی کے شدید جھٹکے دیے، ایک واقعہ مومن آباد کے علاقے فقیر کالونی پریشان چوک کے قریب ہوا جس میں رینجرز کے سرچ آپریشن کے دوران خودکش بمبار نے خود کو اڑالیا، ذرائع کا کہنا تھا کہ اسی مکان میں 5 سے زیادہ دہشت گرد تھے جن کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، ادھر سرجانی ٹاؤن ناردرن بائی پاس کے قریب زیرو پوائنٹ پر رینجرز سے مقابلے میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، رینجرز نے انٹیلی جنس اطلاع پر جب چھاپہ مارا تو دہشتگردوں نے فائرنگ کردی۔، رینجرز کے ایک اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
علاوہ ازیں گلشن اقبال میں بینک گارڈ نے ساتھیوں کی مدد سے 90 لاکرز توڑ کر کروڑوں روپے مالیت کا سونا، طلائی زیورات، ملکی اور غیرملکی کرنسی ، انعامی بانڈز اور جائیدات کے کاغذات سمیت قیمتی اشیاء لوٹ لیے ، ملزم کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے پارا چنار سے بتایا جاتا ہے ۔ مرکزی ملزم کے ساتھی اور سیکیورٹی کمپنی کے دو گارڈز گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ غیر مقامی اور مشتبہ بینک گارڈز کی تعیناتی پر میڈیا کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرے ، نہ اسکروٹنی کی گئی، اگر یہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں لاقانونیت اور انارکی کا منظر نامہ نہیں تو اسے کیا نام دیا جائے۔
شہریوں کو کسی پل چین نہیں ملتا۔ تاہم دوسری جانب سانحہ صفورا میں اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے جس میں پولیس کے مطابق تازہ ترین کارروائی میں گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر گولیاں برسانے والے 2دہشت گردوں کے وہ کپڑے برآمد کر لیے گئے جو معصوم لوگوں کے خون سے آلودہ ہیں، یہ ثبوت عدالتی کارروائی میں اہم ثابت ہوں گے۔ پولیس نے کپڑے فارنسک ٹیسٹ کے لیے لیباریٹری بھجوادیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس کیس میں پہلے سے گرفتار 4ملزمان کی نشاندہی پر مزید 4ملزمان گرفتارکر لیے گئے ہیں۔ دریں اثنا سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے احاطہ عدالت میں صحافیوں اورذوالفقارمرزا کے حامیوں پر پولیس تشدد کے واقعے پر ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادرتھیبو، ڈی آئی جی ساؤتھ فیروزشاہ اور ایس ایس پی ساؤتھ چوہدری اسد کو تاحکم ثانی کام سے روک دیا جب کہ آئی جی سندھ ،اے آئی جی ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کوشوکاز نوٹس جاری کر دیے اور توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ دیدیا، عدالت کا استفسار چشم کشا ہے کہ پولیس کو سندھ ہائیکورٹ کا گھیراؤ کرنے کے احکامات کس نے دیے تھے، میڈیا کے نمایندوں اوردیگر پرتشدد کا اختیارکس نے دیا، ذمے دارافسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی مخدوش صورتحال گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے اور امن وامان کے قیام کے لیے بڑے پیمانہ پر اقدامات کی ضرورت کل کے مقابلہ میں آج بے حد شدید ہوگئی ہے۔ منی پاکستان کو مافیاؤں ، دہشت گردوں اور مجرمانہ عناصر کے مضبوط شکنجہ سے نکالنے کے لیے پولیس و رینجرز میں مزید اشتراک عمل اور موثر انٹیلی جنس کو یقینی بنانا شرط اول ہے۔کوئی ہے جو فغان درویش سنے!کراچی کی پیچیدہ صورت حال میں انتہائی متحرک انتظامیہ کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں کراچی کے حالات میں قدر بہتری بھی آئی ہے لیکن ابھی اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رینجرز پولیس اور ضلعی انتظامیہ زیادہ بہتر اور متحرک کردار ادا کریں تو کراچی کے حالات میں خاصی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ سفر بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی سوچ کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا جائے اور وہ کام کیا جائے جس سے کراچی امن کا گہوارہ بن سکے۔