ڈالر جیسا روپ ہے تیرا یورو جیسے بال
روزنامہ ایکسپریس کو یہ بری عادت لگی ہوئی ہے کہ روز اپنا پڑھنے والوں کا حلقہ بڑھاتا جاتا ہے
LONDON:
ہم پرانی باتیں دہرانے کے بالکل بھی روادار نہیں لیکن کیا کریں، روزنامہ ایکسپریس کو یہ بری عادت لگی ہوئی ہے کہ روز اپنا پڑھنے والوں کا حلقہ بڑھاتا جاتا ہے چنانچہ ایسے نئے پڑھنے والوں کے لیے بعض باتوں کو دہرانا پڑتا ہے۔
چنانچہ ہماری ''رگ تحقیق'' کے بارے میں نئے پڑھنے والے یہاں سے شروع کریں کہ ہم بھی اچھے بھلے کام کے آدمی تھے لیکن ایک دن شہر سے یونی ورسٹی جانا پڑا اور جب واپس آئے تو تحقیق و تفتیش کے جراثیم چمٹ چکے تھے کیوں کہ راستے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہم پر جو تحقیق و تفتیش کی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایسی بہت سی باتیں ہم پہلی مرتبہ اپنے بارے میں جان گئے جن کا کبھی اپنے اوپر گمان بھی نہیں تھا لیکن ان اداروں کے ماہرین نے ان کو سارٹ آؤٹ کر دیا مثلاً ہمیں یہ بالکل بھی پتہ نہیں تھا کہ ہماری شکل ان تمام مطلوبہ خودکشوں اور ماسٹر مائنڈوں سے ملتی ہے۔
جن کے خاکے اخباروں میں شایع ہوتے رہتے ہیں، وہ تو اچھا ہوا کہ ان ماہرین کی دور بینی اور خورد بینی نظروں نے اس ظاہری مشابہت کو اپنی بے مثل و بے مثال تفتیش و تحقیق سے محض اتفاقی قرار دیا ورنہ ہم وہاں ہوتے جہاں سے ہمیں خود بھی اپنی خبر نہ ملتی، پھر مزید خوش قسمتی یا بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہم پشتو اکیڈمی کے اندر جانے کی غلطی بھی کر بیٹھے جہاں در و دیوار سے تحقیق و دانش یوں ٹپک رہی تھی جیسے چراپونجی میں بارش ٹپکتی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم جہاں بھی جاتے ہیں داستاں چھوڑ آتے ہیں، بات بات پر رگ تحقیق پھڑکتی ہے اور ہمیں پریشان کیے رہتی ہے، چنانچہ پچھلے دنوں اچانک جب ہم نے یہ مشہور گانا سنا تو پھر وہی ہوا جس کا ڈر لگا رہتا ہے حالانکہ یہ گانا ہم کافی زمانے سے سنتے آئے تھے لیکن کبھی زیادہ توجہ نہیں دی تھی، آپ بھی سنیے کہ
ڈالر جیسا روپ ہے تیرا یورو جیسے بال
تو ہی ایک دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
رگ تحقیق نے پھڑک پھڑک کر ''گوری'' پر فوکس کیا اور جب فوکس کیا تو تحقیق کی نئی نئی جہتیں کھلتی چلی گئیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہ اٹھا کہ آخر یہ کون شاعر تھا جس نے شعر و ادب کی دنیا میں اتنا بڑا انقلاب برپا کیا، شعرا حضرات تو جب بھی کسی گوری کا ذکر کرتے ہیں تو پھل پھول، سرو سمن، پھول کلیوں، نسیم و شمیم اور سر و صنوبر جیسے غیر تجارتی یا ناقابل خرید و فروخت چیزوں کی تشبیہات استعمال کرتے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ ہے جب کسی شاعر نے ''سونے'' جیسے بال اور چاندی جیسا رنگ کہا ہے اور چونکہ آج کل خرید و فروخت سونے چاندی سے نہیں بلکہ کرنسی سے ہوتی ہے، اس لیے سکہ رائج الوقت کے مطابق ترمیم ضروری تھی کیونکہ اگر چاندی جیسا رنگ اور سونے جیسے بال کہا جائے تو عامتہ الناس کو کیا خبر کہ سونا چاندی کیا ہوتے ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ڈالر جیسا اور یورو جیسے بال کہا جائے، خیر یہ تو ہو گیا، اصل مسئلہ اس ''گوری'' کا ہے اور یہی تو ہمارے سامنے تحقیق کا اصل مسئلہ ہے۔
اب تک ہم نے جتنی بھی گوریاں دیکھی اور سنی ہیں ان میں کسی کا بھی ''چاندی'' جیسا رنگ اور سونے جیسے بال نہیں تھے یا چلیے ڈالر اور یورو کہیے مطلب کسی نہ کسی کرنسی یا ''زر'' سے بلکہ اگر کوئی ایسی گوری دستیاب بھی ہو جائے تو وہ نہایت ہی ناقابل دید ہو گی، چہرہ برص زدہ ہو گا اور بال ہائیڈروجن پروکسائڈ کے مارے ہوں گے۔
غور و فکر کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی آدم زاد یا پری زاد گوری کا ذکر نہیں ہے کیوں کہ اس کے گزرنے سے راستے پھولوں سے بھر جاتے ہیں، پیر کی صرف آہٹ ہی ''سوتے بھاگ'' جگائے اور پتھر کو ہیرا بنانے کا کام تو کسی لڑکی کا ہو ہی نہیں سکتا البتہ اگر بات الٹی ہوتی یعنی ہیرے کو پتھر بنانا تو بات سمجھ میں آنے والی ہو جاتی بلکہ اس کے بعد کا مصرعہ تو چیخ چیخ کر حقیقت بتا رہا ہے یعنی تو جس کو مل جائے وہ ہو جائے مالا مال ۔۔۔ کیوں کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں کی رو سے کوئی حسینہ یا گوری کسی کو کروڑ پتی سے لکھ پتی ہزار پتی یا صرف ''پتی' تو بنا سکتی ہے بلکہ بناتی رہتی ہے لیکن کسی بھی ''پتی'' کو کروڑ پتی بنانے کا واقعہ آج تک ریکارڈ نہیں ہوا اور یہاں تو کروڑ پتی سے بھی اونچے گریڈ یعنی ''مالا مال'' کرنے کی بات کی جارہی ہے۔
تمام حالات و واقعات ثبوتوں اور اندرونی و بیرونی شہادتوں سے جس گوری کی طرف اشارہ ہو رہا ہے وہ انسان تو بالکل بھی نہیں ہو سکتی، زیادہ سے زیادہ کسی سپر اسٹار اداکارہ پر شبہ کیا جا سکتا ہے لیکن وہاں کی گوریاں بھی کسی کنگال کو مالا مال کرنے کا رحجان نہیں رکھتیں بلکہ پہلے سے ''مالا مال'' نشانے کو تاکتی ہیں، چاروں بلکہ شش جہات میں اپنی تحقیق کا خچر دوڑانے کے بعد صرف ایک ''گوری'' ایسی نظر آتی ہے جو اس معیار کے لیے کوالی فائی کرتی ہے اور گوری کا نام ''کرسی'' ہے، اب پورے گانے میں گوری کی جگہ کرسی کر دیجیے سب کچھ سیاست کی طرح صاف اور لیڈروں کی طرف شفاف نظر آجاتا ہے۔
ڈالر جیسا رنگ ہے تیرا یورو جیسے بال
تو ہی ایک دھنواں ہے ''کرسی'' باقی سب کنگال
آگے بڑھیے پورا گیت اس قسم کے اشاروں سے بھرا ہوا ہے کہ ذرا سا غور کرنے پر ''کرسی'' نمودار ہو جاتی ہے جس کی ماں کا نام کرنسی ہے اور بیٹی کا نام بھی یہی ہے، اس کی تصدیق ایک اور گانے سے بھی ہو جاتی ہے یعنی
زبان یار من کرنسی و من کرنسی نہ مے دارم
ایمان یار من ''کرسی'' ومن کرسی نہ مے دارم