یونیورسٹیاں اور انتہا پسندی کا کلچر

سبین محمود اور اسماعیلی برادری کے 45 افراد کو شہید کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نکلے۔

tauceeph@gmail.com

سبین محمود اور اسماعیلی برادری کے 45 افراد کو شہید کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نکلے۔ پولیس اور رینجرز حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان میں سے ایک نے بزنس ایجوکیشن کے سب سے بڑے سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA)، دوسرے نوجوان نے انجنیئرنگ کی تعلیم دینے والی نجی شعبے کی واحد سرسید یونیورسٹی اور تیسرے ملزم نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

یہ گروہ کئی برسوں سے شہر میں بے گناہ افراد اور پولیس والوں کو قتل کررہا تھا۔ پولیس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ بظاہر القاعدہ یا کالعدم مذہبی تنظیمو ں سے منسلک نہیں تھا مگر اس گروہ کے سربراہ کا اسامہ بن لادن اور ان کے جانشیں ایمن الظواہری سے رابطہ تھا۔ نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث ملزمان نے بھی امریکا کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں سزائے موت پانے والے عمر شیخ کا تعلق بھی برطانیہ کی بڑی یونیورسٹی سے ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں خودکش دھماکے میں بھی اسی یونیورسٹی کا طالب علم ملوث تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی ریموٹ کنٹرول بم کا دھماکا کرنے والے اسی یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور دائیں بازو کی طلبہ تنظیم سے نکلے ہوئے کارکن تھے۔ یوں حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جدید تعلیمی ادارے بھی دہشت گردی کی پرورش کے مراکز بن چکے ہیں۔ اب تک پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات دینی مدارس پر ہی لگائے جاتے تھے جہاں غریب طالب علم مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اب متوسط اور امراء کے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی بے گناہ افراد کو قتل کرنے کے الزامات عائد ہوگئے۔

پاکستان میں دہشت گردی کا معاملہ مذہبی انتہاپسندی سے منسلک ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کی تاریخ یوں تو انتہائی قدیم ہے مگر جدید تاریخ میں جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے مذہبی انتہاپسندی کا دور شروع ہوتا ہے۔ افغانستان میں کامریڈ نور محمد تراکئی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا اور کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے سود کے خاتمے، عورتوں کی خریدو فروخت پر پابندی اور زرعی اصلاحات جیسے اہم فیصلے کیے۔ امریکی سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ اس پروجیکٹ میں پاکستان نے اہم کردار اداکیا۔

اس پروجیکٹ کا سب سے اہم نکتہ مذہبی انتہاپسندی کو افغانستان اور سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا تھا، یوں ایک طرف دنیا بھر سے انتہاپسندوں کو پہلے پشاور اور کوئٹہ میں جمع کیا گیا پھر انھیں افغانستان برآمد کیا گیا۔ اسامہ بن لادن بھی ان میں شامل تھا۔ اس طرح افغان جہاد کو افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے ایک طرف مخصوص ذہن تیار کرنے کے لیے مدارس کا جال بچھایا گیا تو دوسری طرف سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں سے انتہاپسندوں کی پیداوار شروع کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ ایک سرکاری پالیسی کے تحت ایک مذہبی جماعتوںسے منسلک طلبہ تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔


یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ کے تقرر کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا۔ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں مخصوص ذہن کے اساتذہ کا تقرر کیا گیا۔ یہ اساتذہ اب ترقی کر کے اہم عہدوں تک پہنچ گئے۔ پھر نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ فرقہ واریت کو پروان چڑھایا گیا۔ اردو، تاریخ اور سماجی علوم کی کتابوں میں نفرت آمیز مواد شامل کیا گیا۔ حتیٰ کہ سائنس کی کتابوں میں بھی مذہبی مواد کو شامل کرلیا گیا۔ پورے ملک کی طبعی سائنسز کی فیکلٹی میں ڈارون کی ارتقاء کی تھیوری کو سائنسی طرزِ فکر کے مطابق پڑھانے والا استاد موجود نہیں رہا۔

یوں صرف سماجی سائنس میں ہی نہیں فزیکل سائنس کی تعلیم میں بھی رجعت پسندی غالب آگئی۔ ملک میں غیر سرکاری یونیورسٹیوں کا جال بچھا تو ان یونیورسٹیوں میں بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جانے لگی۔ ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ سماجی علوم سے دور رہے تو وہ اپنے اساتذہ کے مخصوص مائنڈ سیٹ کے سائے میں پروان چڑھے۔ یہ سلسلہ اگلی کئی نسلوں میں منتقل ہوگیا۔ اس صورتحال کے ملکی سطح پر منفی اثرات برآمد ہوئے۔ ملک میں فرقہ وارانہ خلیج گہری ہوگئی اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے نامور افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا جانے لگا۔ اس دوران اقلیتوں کی زندگی مشکل ہوگئی۔ متنازعہ قوانین کی بناء پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

کئی جیل میں قتل ہوگئے اور جو رہا ہونے کے بعد ملک میں ہی رہ گئے انھیں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ ان افراد کے قاتلوں کو ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مذہبی انتہاپسندی کو تقویت دینے میں الیکٹرونک میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بعض ٹی وی ٹاک شوز کے اینکر پرسنز نے محض ریٹنگ بڑھانے کے لیے اشتعال انگیز اور توہین آمیز مواد پیش کیا جس کے باعث مذہبی انتہاپسندی کے جراثیم معاشرے کے ہر طبقے میں سرائیت کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسوں کے علاوہ جدید تعلیم دینے والے مراکز بھی انتہاپسندی کا مرکز بن گئے۔

کچھ ماہرین اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ عالمگیریت کے اس دور میں فری مارکیٹ اکانومی کے تصور کے مضبوط ہونے کے بعد یونیورسٹیوں کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں۔ عام طالب علموں نے سماجی علوم کے بجائے بزنس ایڈمنسٹریشن، کامرس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دینی شروع کردی۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سماجی علوم کے مضامین کی تعداد بڑھانی چاہیے مگر ذہن سازی کا معاملہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ تعلیمی نظام کی تبدیلی سے منسلک ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے نصاب تعلیم میں تبدیلی کا عمل شروع ہونا چاہیے۔

نصاب تعلیم میں سے شدت پسندی اور فرقہ وارانہ خلیج پیدا کرنے والے مواد کو خارج کرنا چاہیے۔ اسی طرح سائنسی مضامین کے نصاب سے بھی غیر ضروری مواد خارج ہونا چاہیے اور عالمی معیار کے مطابق ان مضامین کا نصاب تیار ہونا چاہیے۔ اساتذہ کے تقرر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کا سائنسی ذہن ہونا اور انتہاپسندی سے دور ہونا ضروری ہے۔ نصاب میں تشدد کے نقصانات کے بارے میں ہر سطح پر ابواب شامل ہونے چاہئیں تاکہ بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں اس بارے میں شعور پیدا ہوسکے۔

سب سے اہم معاملہ ریاستی اداروں کے بیانیہ کی تبدیلی کا ہے۔ حقائق کی بنیاد پر ایک روشن خیال اور سیکیولر بیانیہ ہی نوجوانوں میں انتہاپسندی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ جناح صاحب کی 11 اگست 1947 کی تقریر ہر سطح کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے اور ہر نصابی کتاب کے آخری صفحے پر یہ تقریر شایع کی جائے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اہم مقامات پر یہ تقریر ہورڈنگز پر لگائی جائے۔ الیکٹرونک میڈیا روزانہ یہ تقریر نشر کرے تو نوجوانوں کے ذہنوں میں تبدیلی کا عمل بہتر ہوسکتا ہے۔
Load Next Story