جنگل میں ٹینشن
ہمیں کیا ہے کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ میں پورے ملک میں آگ لگا دوں گا۔
ہمیں کیا ہے کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ میں پورے ملک میں آگ لگا دوں گا۔ وہ کہہ دے کہ میں یہاں سے گزرنے والے ہر شخص کا راستہ روک لوں گا۔ وہ کہہ دے کہ پولیس کے نظام کو نہیں مانتا۔ میں خود قانون ہوں، میں خود پولیس والا ہوں، میں خود عدالت ہوں، میں خود انصاف ہوں اور میں ہی منصف ہوں۔
وہ کہہ دے کہ میں یہاں کہ ہر گوشے کو آگ لگا دوں گا تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے، میں تو اپنی کمیں گاہ میں حفاظت سے ہوں۔ ہماری بلا سے کوئی یہاں روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو چھین لے، میرے دسترخوان پر تو سب کچھ رکھا ہوا ہے۔
میری صحت پر کون سا فرق پڑتا ہے کہ اگر وہ پانی کا ایک قطرہ چھین لے تو کیا ہوگا؟ ہمارے ٹینکوں میں تو صدیوں کا پانی پڑا ہوا ہے۔ کوئی ان کی زبان کو روکنے والا نہیں، کوئی ان کے مردہ جسموں میں روح ڈالنے والا نہیں ہے۔ ہم سب بھی اسی جگہ اپنی آنکھوں کو کھلی رکھتے ہیں جہاں چار پیسے کا فائدہ ہو۔ ورنہ ہر اس جگہ پر ہمارے ہونٹ بند ہوتے ہیں جس کے شور سے ہماری نیند خراب نہ ہو۔
یہاں غلط کو صحیح اور حق کو باطل کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے کیوں نہیں پوچھتا کہ انھوں نے مردان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ اگر انھیں حقوق نہیں ملے تو وہ پورے ملک میں آگ لگا دیں گے۔
انھوں نے یہ کیوں کہا کہ اگر انھیں راہداری میں حصہ نہیں دیا گیا تو وہ کسی کو بھی صوبے سے گزرنے نہیں دیں گے۔ وقت وقت کا کھیل ہے یہ ہی بات اگر ان جماعتوں کی جانب سے آتی جو اس وقت عتاب کا شکار ہیں تو ایک قیامت برپا ہو چکی ہوتی۔ کیا ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ یہ واویلا مچا ہوا ہے کہ انڈیا کے وزراء اور ان کے چمچے کیوں ہم پر بیان داغ رہے ہیں۔
وہ تو ہمارے دشمن ہیں لیکن کیا ہمیں یہ دشمن نظر نہیں آتے جو عوام کو اپنے مفاد کے لیے اشتعال دلاتے ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں جب الیکشن کمیشن خاموش ہے کہ خیبرپختونخوا کے اندر بلدیاتی الیکشن کی مہم سرکاری خرچ پر کیوں چل رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراء کون سے خرچے پر وہاں مہم چلا رہے ہیں۔ ہماری زبان کیوں اس وقت بولنے کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اہم بلدیاتی الیکشن میں کون کس طرح سے مہم چلا رہا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں بولنے والے، جب کسی کے پیٹ میں درد نہیں ہوتا ہے۔
سب کو یہ نظر آ رہا ہے کہ سندھ کا ایک نیا وزیر داخلہ آیا ہے جو ایک خاص شخصیت کے قریب ہے تو ہم کیوں اس بات سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اس خاص شخصیت کے متعلق ذوالفقار مرزا صاحب نے کس طرح کی زبان استعمال کی ہے اور اس وقت وہاں موجود اینکر کس طرح سے مجرمانہ طور پر یہ چاہتا رہا ہے کہ وہ اور زیادہ بولے۔ مجھے کیوں افسوس ہونا چاہیے جب پیمرا خاموش تھا۔
گالیاں دی گئیں، اور ایسی زبان کا استعمال کیا گیا جو شاید میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ جب کوئی کچھ نہیں کر رہا تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ سب کے پیٹ میں اس بات کا درد ہے کہ مصالحہ کیوں کم ہے۔ اگر سب کو اجتماعی طور پر اپنی آنکھیں بند کر لینی ہیں تو ہمیں کون سا شوق ہے کہ ہم ہاتھوں میں آئینہ لے کر گھومیں۔
اب یہ کہہ رہے ہیں کہ سندھ پولیس نے بھی اپنے گلو بٹ پیدا کر دیے۔ نہ گلو بٹوں سے ہمیں کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی ہمدردی ہے۔ قانون کو کوئی بٹ ہاتھ میں لے یا کوئی سیال۔ نہ یہ ہمارا دکھ ہے اور نہ ہماری یہ سوچ ہے۔ مگر یہ جو براہ راست دکھایا جاتا ہے کہ ایک ہیرو آتا ہے وہ تھانے میں تمام چیزوں کو توڑ دیتا ہے، قانون کا جھنڈا خود ہاتھ میں لے لیتا ہے، پولیس والوں کو ننگی گالیاں دیتا ہے، تو کیا یہ ہمارا ہیرو بن جاتا ہے؟ اگر پولیس کو اپنی بے عزتی کرانا پسند ہے، وہ ہمیشہ طاقتور لوگوں کے سامنے جی حضوری کرتی رہی ہے، وہ کبھی کسی کے سیاسی جھنڈے میں ڈانڈا لگاتی رہی ہے تو میں اور آپ کون ہوتے ہیں کہ جب ان کو تھانوں کے اندر ایک موسمی ہیرو آ کر گالیاں دیتا ہے۔
مجھے کوئی اس بات کا دکھ نہیں لیکن اس بات کی تشویش ضرور ہے کہ ہر وقت چلتے ہوئے اس ڈرامے کو میں اپنے بچوں کے سامنے کس طرح پیش کروں، ایسے کہ یہ ہمارا ہیرو ہے جسے ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے، جائو تم بھی کسی تھانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دو، تم بھی ہیرو بن جائو گے۔ ایسے ہی اگر کوئی تھانوں میں جا کر کوئی کچھ کر لے تو کیا ہمارا قانون اسے شاباش دے گا۔ ہمارا میڈیا اسے ہیرو کے طور پر پیش کرے گا؟
کیا اخلاقیات کا درس ہم نے شروع کر دیا، یہ کام تو ہمارے معززین کا ہے، جب آج کی خبر 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نہیں بلکہ ایان علی کی گردن پر بنا ہوا ایک ٹیٹو ہے تو ہمیں ڈوبنے کے لیے کون سا زیادہ پانی چاہیے۔
ایک چِلو بھر پانی بہت ہے۔ مگر ہم کیا کریں کہ پانی ہی نایاب ہے، ایسے میں آپ بتا دیجیے کہ ایان علی نے سر پر ٹوپی لگائی ہو یا نہ لگائی ہو، اس سے کون سا کنواں پانی دینے لگ جائے گا۔ ہماری کیا مجال جو ہم یہ کہہ سکیں کہ ایان علی نے کون سے کپڑے پہنے ہیں، مگر اس کا ذکر ہر محفل میں کر دینے سے کیا CNG بغیر لائن کے مل جائے گی؟ لیکن کیا کریں ہم بھی تو پک گئے تھے، سیاسی خبریں اور سیاسی تبصرے سن کر۔ اگر ایسے میں کوئی اچھا چہرا نظر آ جائے تو کیا برا ہے۔ خبر اور خبریت پر تو ہر وقت ہی ذکر ہو رہا ہوتا ہے، اگر تھوڑا سا کیٹ واک پر بات ہو جائے تو کیا برا ہے۔
ہم کیوں دل جلا رہے ہیں کہ دیر میں خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ جب ہمارے گھر کی عورت کو اس کی فکر نہیں تو ہم کیوں اپنے بازو آزمانا چاہتے ہیں۔ وہ جو لوگ اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ عورت کا ووٹ نہ ڈالنا ہمارا کلچر ہے تو ہم کیوں بے ادب بن رہے ہیں۔
جب کراچی میں آ کر کلچر بدل جاتا ہے اور لاہور میں آ کر لاہوری ہو جاتا ہے ایسے میں ہم کیوں دکھ لیے بیٹھے ہیں جب ہمارے حقوق کے سارے چیمپئن اس پر دستخط کر دیتے ہیں۔ اب ماڈل ٹائون میں کوئی کسی کو ہری پرچی دے یا کسی کو لال بتی دکھائے ہم کیوں مرچیں لے رہے ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے کہ جس کی گردن پتلی ہو اسی کو دبا دو۔
میرے بھائی اتنی لمبی چوڑی تقریر کر کے بس یہ بتا رہا تھا کہ کیوں اپنا قیمتی وقت ضایع کر رہے ہو۔ پہلے دن سے یہاں کرپشن کا شور سنتے آ رہے ہو تو کیا کرپشن ختم ہو گئی۔ ہر وقت یہاں سازش کے چشمے بدلتے رہتے ہیں تو کیا آنکھوں سے سازش ختم ہو گئی۔ یہ راگ سارے ڈبے میں ڈال دو کہ یہاں اب آگ نہیں لگے گی۔ ساری ان تجوریوں کو تالے لگا دو جس میں تم نے اپنے خواب رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں ہر نسل کا رونا وہی ہو گا جو پچھلی نسل کا تھا۔ تم سب کچھ کرتے ہو۔ سب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہو۔ ہر آنے والے کو آزماتے ہو۔ میری ایک بات کیوں نہیں مان لیتے کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں اور ہمیں جنگل کے قانون کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ بے وجہ جنگل میں رہ کر شہر کا نظام لانے کی جستجو میں۔ یہاں جو طاقتور ہے وہ ہمیشہ ٹھیک ہے۔
چاہے وہ جتنی بکریوں کو کھا لے۔ یہاں جس کے پاس لاٹھی ہو گی بھینس اسی کی بات مانے گی۔ خود کو تسلیاں دینا چھوڑ دو۔ بس اس بات کو ڈھونڈو کہ آج کل کچھ وزیروں کی تصویریں آئی ہیں کچھ خاص جگہوں پر بیٹھ کر آرام کرنے کی۔ آپ بھی ان سے پتہ پوچھ لیں اور زندگی کو انجوائے کریں۔ بے وجہ جنگل میں ٹینشن پھیلا رہے ہو۔
وہ کہہ دے کہ میں یہاں کہ ہر گوشے کو آگ لگا دوں گا تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے، میں تو اپنی کمیں گاہ میں حفاظت سے ہوں۔ ہماری بلا سے کوئی یہاں روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو چھین لے، میرے دسترخوان پر تو سب کچھ رکھا ہوا ہے۔
میری صحت پر کون سا فرق پڑتا ہے کہ اگر وہ پانی کا ایک قطرہ چھین لے تو کیا ہوگا؟ ہمارے ٹینکوں میں تو صدیوں کا پانی پڑا ہوا ہے۔ کوئی ان کی زبان کو روکنے والا نہیں، کوئی ان کے مردہ جسموں میں روح ڈالنے والا نہیں ہے۔ ہم سب بھی اسی جگہ اپنی آنکھوں کو کھلی رکھتے ہیں جہاں چار پیسے کا فائدہ ہو۔ ورنہ ہر اس جگہ پر ہمارے ہونٹ بند ہوتے ہیں جس کے شور سے ہماری نیند خراب نہ ہو۔
یہاں غلط کو صحیح اور حق کو باطل کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے کیوں نہیں پوچھتا کہ انھوں نے مردان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ اگر انھیں حقوق نہیں ملے تو وہ پورے ملک میں آگ لگا دیں گے۔
انھوں نے یہ کیوں کہا کہ اگر انھیں راہداری میں حصہ نہیں دیا گیا تو وہ کسی کو بھی صوبے سے گزرنے نہیں دیں گے۔ وقت وقت کا کھیل ہے یہ ہی بات اگر ان جماعتوں کی جانب سے آتی جو اس وقت عتاب کا شکار ہیں تو ایک قیامت برپا ہو چکی ہوتی۔ کیا ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ یہ واویلا مچا ہوا ہے کہ انڈیا کے وزراء اور ان کے چمچے کیوں ہم پر بیان داغ رہے ہیں۔
وہ تو ہمارے دشمن ہیں لیکن کیا ہمیں یہ دشمن نظر نہیں آتے جو عوام کو اپنے مفاد کے لیے اشتعال دلاتے ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں جب الیکشن کمیشن خاموش ہے کہ خیبرپختونخوا کے اندر بلدیاتی الیکشن کی مہم سرکاری خرچ پر کیوں چل رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراء کون سے خرچے پر وہاں مہم چلا رہے ہیں۔ ہماری زبان کیوں اس وقت بولنے کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اہم بلدیاتی الیکشن میں کون کس طرح سے مہم چلا رہا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں بولنے والے، جب کسی کے پیٹ میں درد نہیں ہوتا ہے۔
سب کو یہ نظر آ رہا ہے کہ سندھ کا ایک نیا وزیر داخلہ آیا ہے جو ایک خاص شخصیت کے قریب ہے تو ہم کیوں اس بات سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اس خاص شخصیت کے متعلق ذوالفقار مرزا صاحب نے کس طرح کی زبان استعمال کی ہے اور اس وقت وہاں موجود اینکر کس طرح سے مجرمانہ طور پر یہ چاہتا رہا ہے کہ وہ اور زیادہ بولے۔ مجھے کیوں افسوس ہونا چاہیے جب پیمرا خاموش تھا۔
گالیاں دی گئیں، اور ایسی زبان کا استعمال کیا گیا جو شاید میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ جب کوئی کچھ نہیں کر رہا تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ سب کے پیٹ میں اس بات کا درد ہے کہ مصالحہ کیوں کم ہے۔ اگر سب کو اجتماعی طور پر اپنی آنکھیں بند کر لینی ہیں تو ہمیں کون سا شوق ہے کہ ہم ہاتھوں میں آئینہ لے کر گھومیں۔
اب یہ کہہ رہے ہیں کہ سندھ پولیس نے بھی اپنے گلو بٹ پیدا کر دیے۔ نہ گلو بٹوں سے ہمیں کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی ہمدردی ہے۔ قانون کو کوئی بٹ ہاتھ میں لے یا کوئی سیال۔ نہ یہ ہمارا دکھ ہے اور نہ ہماری یہ سوچ ہے۔ مگر یہ جو براہ راست دکھایا جاتا ہے کہ ایک ہیرو آتا ہے وہ تھانے میں تمام چیزوں کو توڑ دیتا ہے، قانون کا جھنڈا خود ہاتھ میں لے لیتا ہے، پولیس والوں کو ننگی گالیاں دیتا ہے، تو کیا یہ ہمارا ہیرو بن جاتا ہے؟ اگر پولیس کو اپنی بے عزتی کرانا پسند ہے، وہ ہمیشہ طاقتور لوگوں کے سامنے جی حضوری کرتی رہی ہے، وہ کبھی کسی کے سیاسی جھنڈے میں ڈانڈا لگاتی رہی ہے تو میں اور آپ کون ہوتے ہیں کہ جب ان کو تھانوں کے اندر ایک موسمی ہیرو آ کر گالیاں دیتا ہے۔
مجھے کوئی اس بات کا دکھ نہیں لیکن اس بات کی تشویش ضرور ہے کہ ہر وقت چلتے ہوئے اس ڈرامے کو میں اپنے بچوں کے سامنے کس طرح پیش کروں، ایسے کہ یہ ہمارا ہیرو ہے جسے ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے، جائو تم بھی کسی تھانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دو، تم بھی ہیرو بن جائو گے۔ ایسے ہی اگر کوئی تھانوں میں جا کر کوئی کچھ کر لے تو کیا ہمارا قانون اسے شاباش دے گا۔ ہمارا میڈیا اسے ہیرو کے طور پر پیش کرے گا؟
کیا اخلاقیات کا درس ہم نے شروع کر دیا، یہ کام تو ہمارے معززین کا ہے، جب آج کی خبر 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نہیں بلکہ ایان علی کی گردن پر بنا ہوا ایک ٹیٹو ہے تو ہمیں ڈوبنے کے لیے کون سا زیادہ پانی چاہیے۔
ایک چِلو بھر پانی بہت ہے۔ مگر ہم کیا کریں کہ پانی ہی نایاب ہے، ایسے میں آپ بتا دیجیے کہ ایان علی نے سر پر ٹوپی لگائی ہو یا نہ لگائی ہو، اس سے کون سا کنواں پانی دینے لگ جائے گا۔ ہماری کیا مجال جو ہم یہ کہہ سکیں کہ ایان علی نے کون سے کپڑے پہنے ہیں، مگر اس کا ذکر ہر محفل میں کر دینے سے کیا CNG بغیر لائن کے مل جائے گی؟ لیکن کیا کریں ہم بھی تو پک گئے تھے، سیاسی خبریں اور سیاسی تبصرے سن کر۔ اگر ایسے میں کوئی اچھا چہرا نظر آ جائے تو کیا برا ہے۔ خبر اور خبریت پر تو ہر وقت ہی ذکر ہو رہا ہوتا ہے، اگر تھوڑا سا کیٹ واک پر بات ہو جائے تو کیا برا ہے۔
ہم کیوں دل جلا رہے ہیں کہ دیر میں خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ جب ہمارے گھر کی عورت کو اس کی فکر نہیں تو ہم کیوں اپنے بازو آزمانا چاہتے ہیں۔ وہ جو لوگ اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ عورت کا ووٹ نہ ڈالنا ہمارا کلچر ہے تو ہم کیوں بے ادب بن رہے ہیں۔
جب کراچی میں آ کر کلچر بدل جاتا ہے اور لاہور میں آ کر لاہوری ہو جاتا ہے ایسے میں ہم کیوں دکھ لیے بیٹھے ہیں جب ہمارے حقوق کے سارے چیمپئن اس پر دستخط کر دیتے ہیں۔ اب ماڈل ٹائون میں کوئی کسی کو ہری پرچی دے یا کسی کو لال بتی دکھائے ہم کیوں مرچیں لے رہے ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے کہ جس کی گردن پتلی ہو اسی کو دبا دو۔
میرے بھائی اتنی لمبی چوڑی تقریر کر کے بس یہ بتا رہا تھا کہ کیوں اپنا قیمتی وقت ضایع کر رہے ہو۔ پہلے دن سے یہاں کرپشن کا شور سنتے آ رہے ہو تو کیا کرپشن ختم ہو گئی۔ ہر وقت یہاں سازش کے چشمے بدلتے رہتے ہیں تو کیا آنکھوں سے سازش ختم ہو گئی۔ یہ راگ سارے ڈبے میں ڈال دو کہ یہاں اب آگ نہیں لگے گی۔ ساری ان تجوریوں کو تالے لگا دو جس میں تم نے اپنے خواب رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں ہر نسل کا رونا وہی ہو گا جو پچھلی نسل کا تھا۔ تم سب کچھ کرتے ہو۔ سب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہو۔ ہر آنے والے کو آزماتے ہو۔ میری ایک بات کیوں نہیں مان لیتے کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں اور ہمیں جنگل کے قانون کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ بے وجہ جنگل میں رہ کر شہر کا نظام لانے کی جستجو میں۔ یہاں جو طاقتور ہے وہ ہمیشہ ٹھیک ہے۔
چاہے وہ جتنی بکریوں کو کھا لے۔ یہاں جس کے پاس لاٹھی ہو گی بھینس اسی کی بات مانے گی۔ خود کو تسلیاں دینا چھوڑ دو۔ بس اس بات کو ڈھونڈو کہ آج کل کچھ وزیروں کی تصویریں آئی ہیں کچھ خاص جگہوں پر بیٹھ کر آرام کرنے کی۔ آپ بھی ان سے پتہ پوچھ لیں اور زندگی کو انجوائے کریں۔ بے وجہ جنگل میں ٹینشن پھیلا رہے ہو۔