او آئی سی روہنگیا مسلمانوں کی بے بسی

دفترخارجہ کےایک بیان کےمطابق حکومت پاکستان نےروہنگیامسلمانوں کی حالت اورمشکل حالات زندگی پرگہرےافسوس کا اظہار کیا ہے


Editorial May 28, 2015
بحرہند سے فیضیاب ہوتے بیشتر اسلامی ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ باآسانی ان روہنگیا مہاجرین کو عارضی پناہ دے سکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

گزشتہ برس میانمار میں نسلی فسادات پھوٹنے اور روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم کے نتیجے میں نہ صرف سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں بلکہ ہزاروں روہنگیا مسلمان جبری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ لیکن بعد از سانحہ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ ان خانماں بربادوں کو کوئی ملک پناہ دینے پر راضی نہیں اور ہزاروں کی تعداد میں یہ روہنگیا مسلمان کشتیوں میں بحرہند کی موجوں پر خوراک اور پانی تک رسائی کے بغیر انتہائی کٹھن وقت گزار رہے ہیں۔ نہ صرف مسلم بھائی چارے بلکہ انسانیت کے ناطے بھی دیگر ممالک کو اس کڑے وقت میں بحرہند میں زندگی گزارتے ان تباہ حال مسلمانوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

پاکستان میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امورخارجہ سرتاج عزیز نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو بھیجے گئے ایک مکتوب میں اسلامی ممالک کی تنظیم پر زور دیا ہے کہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے ریسکیو اور بحالی کے لیے تمام تر ممکنہ اور فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ سرتاج عزیز جو دو روزہ پر او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے کویت پہنچے ہیں، انھوں نے بدھ کو اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے مسئلے کو اٹھایا تاکہ رکن ممالک اس اہم معاملے پر متفقہ پوزیشن اختیار کرسکیں۔

دفتر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق حکومت پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت اور مشکل حالات زندگی پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ او آئی سی جو اسلامی ممالک کی مشترکہ تنظیم ہے، یہ اس کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس کڑے وقت میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا سختی سے نوٹس لے اور میانمار کے مسلمانوں کی بحالی کے لیے راست اقدامات کیے جائیں۔ بلاشبہ ایک کثیر تعداد میں جلاوطن افراد کی بحالی اور انھیں اپنے ملک میں پناہ دینا میزبان ملک کے لیے بھی ہش جہت مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

بحرہند سے فیضیاب ہوتے بیشتر اسلامی ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ باآسانی ان روہنگیا مہاجرین کو عارضی پناہ دے سکتے ہیں۔ او آئی سی کو اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ایسا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے جس سے ان مصیبت زدوں کو عارضی ٹھکانہ بھی میسر آسکے اور بعد ازاں انھیں اپنے ہی ملک میں دوبارہ بسایا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں