انصاف بکتا ہے
ہم بول سکتے ہیں بلکہ جی بھر کر اور گلا اور کفن دونوں پھاڑ کر بول سکتے ہیں
پہلے تین تازہ ترین اقوال زرین پیش خدمت ہیں، (1) عدالتی نظام بوسیدہ ہو چکا ہے (2) انصاف بکتا ہے (3) سیاسی پارٹیاں برھمنوں کے ٹولے ہیں، اور یہ اقوال زرین ہم نے یہ ثبوت دینے کے لیے پیش کیے ہیں کہ اگر ہم جناب صاحب حق مولانا سراج الحق کے ''فین'' ہیں تو ایسے نہیں ہیں بلکہ حق دے پیرہ، فین کے ساتھ ہم پرانے کا لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنی سنیارٹی رجسٹرڈ کریں کیوں کہ ہم اس زمانے سے ان کے فین ہیں جب وہ طالب علم ہوا کرتے تھے اور ان کے سر، ہاتھ اور پیر گرمیاں سننے میں آتی تھیں گویا
ہوئی اس دور میں منسوب ہم سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جب جہاں میں جام جم نکلے
لیکن پھر بھی ''پرانے'' کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ مذکورہ تین اقوال زرین میں ایک قول زرین ''بوسیدگی'' سے بھی تعلق رکھتا ہے اب جس نظام کی بوسیدگی کا ذکر انھوں نے کیا ہے اس کے بارے میں ہم اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ نہ تو کبھی اس نظام سے واسطہ پڑا ہے نہ ہی بوسیدگی کا علم ہوا ہے یا یوں کہیے کہ نہ تو ہم اتنے خوش نصیب تھے کہ کوئی ہم پر مقدمہ کرتا اور نہ اتنے بدنصیب کہ کسی اور پر کوئی مقدمہ ٹھوکتے، اس لیے پہلے قول زرین پر تو ہم صرف ''نو کمنٹس'' ہی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ بوسیدہ نہ سہی پرانے تو ہم بھی ہیں، لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ
ہم تو تیرے عاشق ہیں صدیوں پرانے
چاہے تو مانے یا کہ نہ مانے
باقی جو دو اقوال زرین ہیں ان پر ہم بول سکتے ہیں بلکہ جی بھر کر اور گلا اور کفن دونوں پھاڑ کر بول سکتے ہیں ... سب سے پہلے انصاف بکتا ہے اور یہ اردو زبان بھی عجیب و غریب زبان ہے کیونکہ زبر زیر سے بہت کچھ زیر و زبر ہو جاتا ہے اور اخبار والے تو جان بوجھ کر زیر زبر پیش نہیں لگاتے تاکہ جو چاہیے ''بکتا'' پر لگا دیجیے، زیر اور زبر سے تو اردو کے اپنے الفاظ بنتے ہیں لیکن اگر پیش بھی لگا دیا جائے تو انگریزی میں ''بک'' کرنے کو کہا جائے اور آج کون سی چیز ہے جو ''بک'' نہیں ہوتی یا جس کے ''بکی'' نہیں ہوتے، انصاف بھی ایک چیز تو ہے اس لیے ''بکتا'' بھی ہے ''بکتا'' بھی ہے اور ''بکتا'' بھی ہے، یعنی جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی، لیکن اگر انصاف بکتا ہے یا بکتا ہے اور یا بکتا ہے تو اس میں کوئی خاص بات کہاں سے آئی اس لیے ہم اپنے ممدوح صاحب حق جناب سراج الحق سے بصد ادب عرض کریں گے کہ اگر انصاف بکتا ہے تو بھی ٹھیک ہے بکتا ہے تب بھی غلط نہیں اور اگر بکتا ہے تو یہ تو اور بھی اچھا ہے، تین چیزیں جتنی زیادہ ملٹی پرپز اور کثیر الاستعمال ہوں اتنی ہی اچھی ہوتی ہیں۔
اگر باقی دو ''بکتاؤں'' کو چھوڑ کر صرف ایک ''بکتا'' بھی کر دیں جس کے نیچے ''زیر'' ہوتا ہے تو بھی بات اتنی بری تو نہیں ''چیز اچھی ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی'' کیوں کہ پاکستان میں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اشیائے ضرورت قیمتاً بھی دستیاب نہیں ہوتیں بے چارے ضرورت مند ہتھیلی پر قیمت لیے پھرتے ہیں لیکن بازار میں شارٹیج ہوتی ہے مثال کے طور پر گیس، بجلی، پٹرولیم اور ''دیانت'' منہ مانگے داموں پر دستیاب نہیں اور دکان دار یا ڈیلر یا بلیک مارکیٹر جو بھی کہیے سزا وار ہے یعنی حکومت خالی دکان لیے بیٹھی رہتی ہے اور ''مال'' سپلائی نہ کرتے ہوئے بھی روزانہ ''نرخ'' بڑھاتی رہتی ہے۔
اس لیے اگر انصاف بکتا ہے تو یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے بلکہ ہمارا تو ناچنے کو من کر رہا ہے اس افیونی کی طرح ... جس نے ایک دکان دار کے منہ سے ''کتنی'' سن کر وہیں پر بھنگڑا ڈال دیا کہ قربان تیری کتنی ... قربان تیری کتنی... اصل میں افیونی کی قلت ہو گئی تھی بے چارا افیونی سارے شہر میں دربدر ہو کر افیون ڈھونڈ رہا تھا لیکن ہر جگہ سے ''نہیں'' کا جواب ملتا تھا آخر میں جب ایک دکان دار نے اس کے پوچھنے پر کہا کہ کتنی ؟ تو وہیں پر خوشی سے ناچنے لگا
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر باز ارمی رقصم
اس لیے ہم تو یہ سن کر دھنے ہو گئے کہ چلو اس قلت قحط اور شارٹیج کے زمانے میں کم از کم انصاف کی لوڈ شیڈنگ یا راشن کارڈ سسٹم تو نہیں ہے، بکتا ہے تو بکنے دو، دستیاب تو ہے چاہے نرخ اور قیمت کچھ بھی ہو بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ''انصاف'' نہ صرف بازار میں دستیاب ہے اور کھلے عام بکتا ہے بل ہ ہوم ڈیلیوری کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں اور ضرورت مندوں کو آرڈر کرنے پر عین اس کی ''دہلیز'' پر ''ڈیلیوری'' دی جاتی ہے بل کہ ممکن ہے کہ وہ پیزا ڈیلیوری والا سسٹم بھی ہو کہ اگر 35 منٹ میں پیزا کی ہوم ڈیلیوری دہلیز پر نہیں ہوئی تو اور چھتیسواں منٹ ہو گیا تو بے شک کوئی پیسہ مت دیجیے گا، اور یہ تو ہم مان ہی نہیں سکتے کہ حکومت انصاف کی ہو۔
سیاست انصاف کی ہو کرپشن انصاف کی ہو اور انصاف نہ ہو اور انصاف کا لغوی مفہوم تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ''نصف لی و نصف لک'' ہوتا ہے اس لیے اگر بقول جناب صاحب حق مولانا سراج الحق انصاف بکتا ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی کم از کم بجلی ایمان داری اور گیس سے تو اچھا ہے جو بکتے بھی ہیں اور دستیاب بھی نہیں ہیں، جہاں تک ان کے تیسرے قول زرین'' سیاسی پارٹیاں برھمنوں کے ٹولے ہیں'' کا تعلق ہے تو اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور جب راوی بھی ''ثقہ'' ہو تو ماننے سے کون انکار کر سکتا ہے کیوں کہ موصوف خود ''سیاست'' میں ہیں ان سے زیادہ اور کسی کو ''اندرونہ'' کی معلومات ہو سکتی ہیں مطلب یہ کہ اندر کی بات تو صرف ''اندر والے'' ہی جانتے ہیں اس لیے ہم مان لیتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں برھمنوں کے ٹولے بھی ہوں گی بلکہ اور بھی نہ جانے کیا کیا ٹولے ہوں گے آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔
ہوئی اس دور میں منسوب ہم سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جب جہاں میں جام جم نکلے
لیکن پھر بھی ''پرانے'' کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ مذکورہ تین اقوال زرین میں ایک قول زرین ''بوسیدگی'' سے بھی تعلق رکھتا ہے اب جس نظام کی بوسیدگی کا ذکر انھوں نے کیا ہے اس کے بارے میں ہم اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ نہ تو کبھی اس نظام سے واسطہ پڑا ہے نہ ہی بوسیدگی کا علم ہوا ہے یا یوں کہیے کہ نہ تو ہم اتنے خوش نصیب تھے کہ کوئی ہم پر مقدمہ کرتا اور نہ اتنے بدنصیب کہ کسی اور پر کوئی مقدمہ ٹھوکتے، اس لیے پہلے قول زرین پر تو ہم صرف ''نو کمنٹس'' ہی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ بوسیدہ نہ سہی پرانے تو ہم بھی ہیں، لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ
ہم تو تیرے عاشق ہیں صدیوں پرانے
چاہے تو مانے یا کہ نہ مانے
باقی جو دو اقوال زرین ہیں ان پر ہم بول سکتے ہیں بلکہ جی بھر کر اور گلا اور کفن دونوں پھاڑ کر بول سکتے ہیں ... سب سے پہلے انصاف بکتا ہے اور یہ اردو زبان بھی عجیب و غریب زبان ہے کیونکہ زبر زیر سے بہت کچھ زیر و زبر ہو جاتا ہے اور اخبار والے تو جان بوجھ کر زیر زبر پیش نہیں لگاتے تاکہ جو چاہیے ''بکتا'' پر لگا دیجیے، زیر اور زبر سے تو اردو کے اپنے الفاظ بنتے ہیں لیکن اگر پیش بھی لگا دیا جائے تو انگریزی میں ''بک'' کرنے کو کہا جائے اور آج کون سی چیز ہے جو ''بک'' نہیں ہوتی یا جس کے ''بکی'' نہیں ہوتے، انصاف بھی ایک چیز تو ہے اس لیے ''بکتا'' بھی ہے ''بکتا'' بھی ہے اور ''بکتا'' بھی ہے، یعنی جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی، لیکن اگر انصاف بکتا ہے یا بکتا ہے اور یا بکتا ہے تو اس میں کوئی خاص بات کہاں سے آئی اس لیے ہم اپنے ممدوح صاحب حق جناب سراج الحق سے بصد ادب عرض کریں گے کہ اگر انصاف بکتا ہے تو بھی ٹھیک ہے بکتا ہے تب بھی غلط نہیں اور اگر بکتا ہے تو یہ تو اور بھی اچھا ہے، تین چیزیں جتنی زیادہ ملٹی پرپز اور کثیر الاستعمال ہوں اتنی ہی اچھی ہوتی ہیں۔
اگر باقی دو ''بکتاؤں'' کو چھوڑ کر صرف ایک ''بکتا'' بھی کر دیں جس کے نیچے ''زیر'' ہوتا ہے تو بھی بات اتنی بری تو نہیں ''چیز اچھی ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی'' کیوں کہ پاکستان میں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اشیائے ضرورت قیمتاً بھی دستیاب نہیں ہوتیں بے چارے ضرورت مند ہتھیلی پر قیمت لیے پھرتے ہیں لیکن بازار میں شارٹیج ہوتی ہے مثال کے طور پر گیس، بجلی، پٹرولیم اور ''دیانت'' منہ مانگے داموں پر دستیاب نہیں اور دکان دار یا ڈیلر یا بلیک مارکیٹر جو بھی کہیے سزا وار ہے یعنی حکومت خالی دکان لیے بیٹھی رہتی ہے اور ''مال'' سپلائی نہ کرتے ہوئے بھی روزانہ ''نرخ'' بڑھاتی رہتی ہے۔
اس لیے اگر انصاف بکتا ہے تو یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے بلکہ ہمارا تو ناچنے کو من کر رہا ہے اس افیونی کی طرح ... جس نے ایک دکان دار کے منہ سے ''کتنی'' سن کر وہیں پر بھنگڑا ڈال دیا کہ قربان تیری کتنی ... قربان تیری کتنی... اصل میں افیونی کی قلت ہو گئی تھی بے چارا افیونی سارے شہر میں دربدر ہو کر افیون ڈھونڈ رہا تھا لیکن ہر جگہ سے ''نہیں'' کا جواب ملتا تھا آخر میں جب ایک دکان دار نے اس کے پوچھنے پر کہا کہ کتنی ؟ تو وہیں پر خوشی سے ناچنے لگا
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر باز ارمی رقصم
اس لیے ہم تو یہ سن کر دھنے ہو گئے کہ چلو اس قلت قحط اور شارٹیج کے زمانے میں کم از کم انصاف کی لوڈ شیڈنگ یا راشن کارڈ سسٹم تو نہیں ہے، بکتا ہے تو بکنے دو، دستیاب تو ہے چاہے نرخ اور قیمت کچھ بھی ہو بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ''انصاف'' نہ صرف بازار میں دستیاب ہے اور کھلے عام بکتا ہے بل ہ ہوم ڈیلیوری کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں اور ضرورت مندوں کو آرڈر کرنے پر عین اس کی ''دہلیز'' پر ''ڈیلیوری'' دی جاتی ہے بل کہ ممکن ہے کہ وہ پیزا ڈیلیوری والا سسٹم بھی ہو کہ اگر 35 منٹ میں پیزا کی ہوم ڈیلیوری دہلیز پر نہیں ہوئی تو اور چھتیسواں منٹ ہو گیا تو بے شک کوئی پیسہ مت دیجیے گا، اور یہ تو ہم مان ہی نہیں سکتے کہ حکومت انصاف کی ہو۔
سیاست انصاف کی ہو کرپشن انصاف کی ہو اور انصاف نہ ہو اور انصاف کا لغوی مفہوم تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ''نصف لی و نصف لک'' ہوتا ہے اس لیے اگر بقول جناب صاحب حق مولانا سراج الحق انصاف بکتا ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی کم از کم بجلی ایمان داری اور گیس سے تو اچھا ہے جو بکتے بھی ہیں اور دستیاب بھی نہیں ہیں، جہاں تک ان کے تیسرے قول زرین'' سیاسی پارٹیاں برھمنوں کے ٹولے ہیں'' کا تعلق ہے تو اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور جب راوی بھی ''ثقہ'' ہو تو ماننے سے کون انکار کر سکتا ہے کیوں کہ موصوف خود ''سیاست'' میں ہیں ان سے زیادہ اور کسی کو ''اندرونہ'' کی معلومات ہو سکتی ہیں مطلب یہ کہ اندر کی بات تو صرف ''اندر والے'' ہی جانتے ہیں اس لیے ہم مان لیتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں برھمنوں کے ٹولے بھی ہوں گی بلکہ اور بھی نہ جانے کیا کیا ٹولے ہوں گے آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔