شہیدوں کی یاد میں
میں تاریخ کا طالب علم نہیں ہوں اور طویل مصری تاریخ سے تو بس سرسری سا تعارف ہے
میں تاریخ کا طالب علم نہیں ہوں اور طویل مصری تاریخ سے تو بس سرسری سا تعارف ہے لیکن ایک بات پر تعجب ہوتا ہے کہ خدا کے منکر ماضی کے فرعونوں کا یہ ملک اپنے تاریخی کردار کو فراموش نہیں کرتا اور یہاں کسی نہ کسی وقت میں کوئی نہ کوئی فرعون جنم لیتا رہتا ہے جو ماضی کے فرعونوں کی طرح خدائی کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن عمل وہی کرتا ہے جو اس کے پیشرو کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو خدا کہلواتے تھے۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ مصر نے اپنے ملک کے ایک آمریت کے دشمن اور خدا پرست لیڈر کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔ یہ تھا مرحوم و مغفور شہید حسن البناء۔جب ان کو موت کی سزا کا حکم ہوا اور ان کو موت کے حوالے کر دیا گیا تو عجیب کیفیت تھی۔ انھی دنوں امام حسن البناء نے کہا تھا کہ '' اے اخوان جب قید خانے تمہارے لیے کھول دیے جائیں اور تمہارے لیے پھانسی کی لکڑیاں لٹکا دی جائیں تو جان لو کہ تمہاری دعوت نے نتیجہ خیز ہونا شروع کردیا ہے'' چنانچہ امام حسن البنا کے لیے بھی یہی ہوا۔ قید خانوں کے دروازے کھول دیے گئے اور پھانسی لٹکا دی گئی۔
ایک پھانسی پر خود حسن البناء کو لٹکا دیا گیا اور پھر کیا ہوا کہ ان کے مسلمان بھائیوں کو جنازے کو کندھا دینے کی اجازت نہ دی گئی تو شہید کے ضعیف العمر والد ماجد اور گھر کی خواتین نے جنازہ اٹھایا۔ اللہ کے نام پر جان دینے والے کا جنازہ ان کے والد، اہلیہ، بہن، بیٹی اور والد کے کاندھوں پر رب کائنات کے حضور روانہ ہوا۔ بے بسی اور تنہائی کے اس عالم میں ان کی بیٹی نے کہا کہ بابا جان آپ کے جنازے کے ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں۔ انھیں زمین والوں نے روک دیا ہے مگر آسمان والوں کو کون روک سکتا ہے۔ آپ کے جنازے کے ساتھ شہدا کی روحوں کا قافلہ چلا آ رہا ہے آپ اطمینان کے ساتھ اپنے رب اعلیٰ کے پاس جائیے آپ نے جو پیغام ہمیں دیا ہے وہ زندہ رہے گا جو پرچم ہمیں تھمایا ہے وہ سر بلند رہے گا۔
اب مصر کی اس فرعونیت کا نیا تماشا دیکھئے۔ مصر کی ایک فرعون صفت عدالت نے اخوان کے مرشد عام یعنی حسن البنا کے جانشین محمد بدیع، پہلے منتخب جمہوری صدر جناب محمد مرسی، اخوان کے جلاوطن عالم اعلی حضرت یوسف القرضاوی اور ان کے ایک سو پانچ دوسرے اخوانی ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ جرم یہ ہے کہ ایک سابق مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس انقلاب کے دعوے دار تو بہت ہیں مگر سزا صرف اخوان کو ملی ہے۔
سزا کے اس منظر کو برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں یوں بیان کیا ہے۔ ''قیدی کے لباس میں محمد مرسی عدالت کے پنجرہ نما کٹہرے میں کھڑے تھے جب اس دوران جج نے موت کا فیصلہ سنایا تو وہ مسکرائے۔ جب جج شعبان الشامی فیصلہ پڑھ رہے تھے تو محمد مرسی فضا میں مٹھیاں لہرا رہے تھے۔ دوسرے کٹہرے میں کھڑے دیگر اخوان فیصلہ سن کر رابعہ کی فتح کا نشان بنا رہے تھے۔ ساؤنڈ پروف گلاس کے عقب سے فوجی حکومت مردہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے اور یہ سب دیکھ کر حسن البناء کہیں مسکرا رہے تھے (یہ مواد برادرم عمر ابراہیم کی رپورٹ سے لیا گیا ہے)
اخوان المسلمون نے مصر میں جنم لیا اور بالکل انھی اصولوں پر کام شروع کیا جن پر پاکستان میں جماعت اسلامی نے شروع کیا۔ جماعت کے بانی اور ان کے کئی ساتھی بھی فوجی حکومت سے سزائے موت سننے کے بعد اس کے انتظار میں رہے لیکن بعد میں فوج اس پر عملدرآمد نہ کر سکی اور سزا منسوخ ہو گئی۔ میں ایک کالم میں اس سزا کا ذکر کر چکا ہوں لیکن معلوم ہوتا ہے مصر کے فوجی ہمارے فوجیوں سے کہیں زیادہ سنگدل ہیں بہر کیف جس کی قسمت میں جو ہے وہ اسے مل کر رہتا ہے اور یہ سب اپنی اپنی قسمت ہے۔
اخوان المسلمون کو علمی اور فکری مدد پاکستان کی جماعت اسلامی نے دی لیکن جماعت نے خود اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایک حد کے اندر علمی انداز تک محدود رکھا۔ اس احتیاط کے باوجود ڈاکٹر نذیر احمد جیسے باغی بھی پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنے عمل اور خدمت خلق سے اپنے وقت کے سرداروں کو زیر اور رسوا کر دیا چنانچہ انھیں شہادت نصیب ہو گئی۔
جماعت کی اس صف میں سے صرف ایک ڈاکٹر نذیر ہی کیوں نکلا اس بحث کی یہاں گنجائش نہیں۔ جماعت سیاسی سرگرمیوں میں عمر بھر مصروف رہی لیکن وہ عوام تک نہ پہنچ سکی اور انتخابی سیاست میں اسے کامیابی نہ مل سکی ورنہ اس کے کارکن اور امید وار عام لوگ تھے۔ خدمت گزار اور پرہیز گار لیکن پھر بھی جیت ڈاکٹر نذیر کے پاس رہی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے وقت کے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کو اپنی جانثاری کی طاقت کے ساتھ شکست دی وہ ایک ایسی شخصیت کی صورت میں عوام کے سامنے آئے کہ سردار ان کی ذات کو برداشت کر سکے۔
جماعت کی عوامی سیاست پر بات کرنی ضروری ہے جس جماعت کے ارکان کے بارے میں عدالتوں کا فیصلہ ہو کہ جماعت کا رکن جھوٹ نہیں بولتا اس کے حق میں فیصلہ دینا اصل انصاف ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جماعت کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات کہاں سے آ گئی کہ وہ عام مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں اس طرح مسلمانوں کے درمیان ایک غیر مرئی سی تفریق پیدا ہو گئی جس کی سزا جماعت کو عوامی سیاست میں مسلسل ناکامی کی صورت میں ملتی رہی اور کسی بھی الیکشن میں اسے صوبائی کامیابی نہ مل سکی۔
کجا کہ قومی سطح پر وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان کو ایک صحیح پاکستانی حکومت مل جاتی جو اس کی دنیا ہی بدل دیتی اور یہ سقوط ڈھاکا جیسے کسی سانحے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور بھارت جیسے کسی دشمن کو ہماری خوشنودی مطلوب ہوتی لیکن جو ہونا تھا ہو گیا اور اب ہر بات کی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ کاش کہ یوں نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ مصر نے اپنے ملک کے ایک آمریت کے دشمن اور خدا پرست لیڈر کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔ یہ تھا مرحوم و مغفور شہید حسن البناء۔جب ان کو موت کی سزا کا حکم ہوا اور ان کو موت کے حوالے کر دیا گیا تو عجیب کیفیت تھی۔ انھی دنوں امام حسن البناء نے کہا تھا کہ '' اے اخوان جب قید خانے تمہارے لیے کھول دیے جائیں اور تمہارے لیے پھانسی کی لکڑیاں لٹکا دی جائیں تو جان لو کہ تمہاری دعوت نے نتیجہ خیز ہونا شروع کردیا ہے'' چنانچہ امام حسن البنا کے لیے بھی یہی ہوا۔ قید خانوں کے دروازے کھول دیے گئے اور پھانسی لٹکا دی گئی۔
ایک پھانسی پر خود حسن البناء کو لٹکا دیا گیا اور پھر کیا ہوا کہ ان کے مسلمان بھائیوں کو جنازے کو کندھا دینے کی اجازت نہ دی گئی تو شہید کے ضعیف العمر والد ماجد اور گھر کی خواتین نے جنازہ اٹھایا۔ اللہ کے نام پر جان دینے والے کا جنازہ ان کے والد، اہلیہ، بہن، بیٹی اور والد کے کاندھوں پر رب کائنات کے حضور روانہ ہوا۔ بے بسی اور تنہائی کے اس عالم میں ان کی بیٹی نے کہا کہ بابا جان آپ کے جنازے کے ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں۔ انھیں زمین والوں نے روک دیا ہے مگر آسمان والوں کو کون روک سکتا ہے۔ آپ کے جنازے کے ساتھ شہدا کی روحوں کا قافلہ چلا آ رہا ہے آپ اطمینان کے ساتھ اپنے رب اعلیٰ کے پاس جائیے آپ نے جو پیغام ہمیں دیا ہے وہ زندہ رہے گا جو پرچم ہمیں تھمایا ہے وہ سر بلند رہے گا۔
اب مصر کی اس فرعونیت کا نیا تماشا دیکھئے۔ مصر کی ایک فرعون صفت عدالت نے اخوان کے مرشد عام یعنی حسن البنا کے جانشین محمد بدیع، پہلے منتخب جمہوری صدر جناب محمد مرسی، اخوان کے جلاوطن عالم اعلی حضرت یوسف القرضاوی اور ان کے ایک سو پانچ دوسرے اخوانی ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ جرم یہ ہے کہ ایک سابق مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس انقلاب کے دعوے دار تو بہت ہیں مگر سزا صرف اخوان کو ملی ہے۔
سزا کے اس منظر کو برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں یوں بیان کیا ہے۔ ''قیدی کے لباس میں محمد مرسی عدالت کے پنجرہ نما کٹہرے میں کھڑے تھے جب اس دوران جج نے موت کا فیصلہ سنایا تو وہ مسکرائے۔ جب جج شعبان الشامی فیصلہ پڑھ رہے تھے تو محمد مرسی فضا میں مٹھیاں لہرا رہے تھے۔ دوسرے کٹہرے میں کھڑے دیگر اخوان فیصلہ سن کر رابعہ کی فتح کا نشان بنا رہے تھے۔ ساؤنڈ پروف گلاس کے عقب سے فوجی حکومت مردہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے اور یہ سب دیکھ کر حسن البناء کہیں مسکرا رہے تھے (یہ مواد برادرم عمر ابراہیم کی رپورٹ سے لیا گیا ہے)
اخوان المسلمون نے مصر میں جنم لیا اور بالکل انھی اصولوں پر کام شروع کیا جن پر پاکستان میں جماعت اسلامی نے شروع کیا۔ جماعت کے بانی اور ان کے کئی ساتھی بھی فوجی حکومت سے سزائے موت سننے کے بعد اس کے انتظار میں رہے لیکن بعد میں فوج اس پر عملدرآمد نہ کر سکی اور سزا منسوخ ہو گئی۔ میں ایک کالم میں اس سزا کا ذکر کر چکا ہوں لیکن معلوم ہوتا ہے مصر کے فوجی ہمارے فوجیوں سے کہیں زیادہ سنگدل ہیں بہر کیف جس کی قسمت میں جو ہے وہ اسے مل کر رہتا ہے اور یہ سب اپنی اپنی قسمت ہے۔
اخوان المسلمون کو علمی اور فکری مدد پاکستان کی جماعت اسلامی نے دی لیکن جماعت نے خود اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایک حد کے اندر علمی انداز تک محدود رکھا۔ اس احتیاط کے باوجود ڈاکٹر نذیر احمد جیسے باغی بھی پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنے عمل اور خدمت خلق سے اپنے وقت کے سرداروں کو زیر اور رسوا کر دیا چنانچہ انھیں شہادت نصیب ہو گئی۔
جماعت کی اس صف میں سے صرف ایک ڈاکٹر نذیر ہی کیوں نکلا اس بحث کی یہاں گنجائش نہیں۔ جماعت سیاسی سرگرمیوں میں عمر بھر مصروف رہی لیکن وہ عوام تک نہ پہنچ سکی اور انتخابی سیاست میں اسے کامیابی نہ مل سکی ورنہ اس کے کارکن اور امید وار عام لوگ تھے۔ خدمت گزار اور پرہیز گار لیکن پھر بھی جیت ڈاکٹر نذیر کے پاس رہی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے وقت کے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کو اپنی جانثاری کی طاقت کے ساتھ شکست دی وہ ایک ایسی شخصیت کی صورت میں عوام کے سامنے آئے کہ سردار ان کی ذات کو برداشت کر سکے۔
جماعت کی عوامی سیاست پر بات کرنی ضروری ہے جس جماعت کے ارکان کے بارے میں عدالتوں کا فیصلہ ہو کہ جماعت کا رکن جھوٹ نہیں بولتا اس کے حق میں فیصلہ دینا اصل انصاف ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جماعت کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات کہاں سے آ گئی کہ وہ عام مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں اس طرح مسلمانوں کے درمیان ایک غیر مرئی سی تفریق پیدا ہو گئی جس کی سزا جماعت کو عوامی سیاست میں مسلسل ناکامی کی صورت میں ملتی رہی اور کسی بھی الیکشن میں اسے صوبائی کامیابی نہ مل سکی۔
کجا کہ قومی سطح پر وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان کو ایک صحیح پاکستانی حکومت مل جاتی جو اس کی دنیا ہی بدل دیتی اور یہ سقوط ڈھاکا جیسے کسی سانحے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور بھارت جیسے کسی دشمن کو ہماری خوشنودی مطلوب ہوتی لیکن جو ہونا تھا ہو گیا اور اب ہر بات کی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ کاش کہ یوں نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔