منوہر پاریکر اور دہشت گردی

بھارت نے ہمارے قومی نظریے‘ ثقافت اور معیشت کے خلاف باقاعدہ حکمت عملی وضع کر رکھی ہے

بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ہندی زبان کا ایک محاورہ ''کانٹے سے کانٹا نکالنا'' استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت بھی اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے ہی دے گا۔ یہ ایسی بات ہے جس کا بھارت کی طرف سے گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا کہنا ہے کہ آخر ہمارے فوجیوں کو کیوں اس لڑائی میں گھسیٹا جائے۔

ہمیں بھی جوابی طور پر ویسی ہی حکمت عملی استعمال کرنی چاہیے جو ہمارے خلاف استعمال کی جا رہی ہے۔ اجیت دوول اور پاریکر کے بیانات بھارت کی اصلی ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اس خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ پاریکر نے اپنے بیان کو قدرے نرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم صرف ٹارگٹڈ حملے کریں گے جس کی بنیاد ہماری انٹیلی جنس رپورٹس فراہم کریں گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' اور اس کے دیگر متعلقہ ادارے 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے ہی پاکستان میں ٹارگٹڈ آپریشن کر رہے ہیں۔

بھارت نے ہمارے قومی نظریے' ثقافت اور معیشت کے خلاف باقاعدہ حکمت عملی وضع کر رکھی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ہمیں مختلف شعبوں میں تنہائی کا شکار بنا دے۔ اب روایتی جنگوں کے دن گزر چکے ہیں بلکہ اب باقاعدہ جنگوں کے ساتھ ساتھ بے قاعدہ حربے اور دہشت گردی کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے جس میں میڈیا کا بھی ایک کردار ہے جو مالیاتی اداروں کی اشتہار بازی کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اب دشمن کے خلاف سائبر وار فیئر کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی ہے اور ریاستوں کے پاس ''نان اسٹیٹ ایکٹرز'' کی بھی ایک متنوع تعداد ہوتی ہے۔ وکی پیڈیا اس نئی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جنگ میں جوہری' حیاتیاتی اور کیمیاوی ہتھیاروں کے علاوہ انفارمیشن وار فیئر بھی استعمال ہو رہی ہے ان ساری چیزوں کو ملا کر اس کو ہائبرڈ وار فیئر "Hybrid Warfare" کا نام دیا گیا ہے اور بھارت اس کا استعمال پاکستان کے خلاف خاصی کامیابی سے کر رہا ہے جس کے نتیجے میں 1971ء میں پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔

قارئین کرام کو 30 جنوری 1971 کو بھارت کے گنگا نامی طیارہ کے اغوا کا ڈرامہ یاد ہو گا۔ جب انڈین ایئر لائن کا فوکر 27 مبینہ طور پر اغوا کر کے لاہور ایئر پورٹ پر اتارا گیا اور جسے اغوا کنندگان نے آگ لگا کر تباہ کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ واقعہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پاکستانی پروازیں بند کرنے کا بہانہ بن گیا۔ جس کے بعد مشرقی بازو میں علیحدگی کی تحریک میں بھارت کھلم کھلا شامل ہو گیا۔

سیاسی زندگی میں میڈیا کا کردار حقیقی معاملات پر فوقیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہائبرڈ جنگ میں جن ہتھیاروں کو استعمال کیا جاتاہے ان میں میڈیا اور انفارمیشن کے ہتھیار بھی شامل ہوتے ہیں جن کے ذریعے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر حملہ کیا جاتا ہے جس کے اثرات بہت وسیع اور دوررس ہوتے ہیں۔ اس کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن اس مقصد کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرتا ہے جن میں رشوت' لالچ' دھونس اور دھمکی بھی شامل ہوتی ہے۔ میڈیا کی نمایاں شخصیات جانتے بوجھتے یا انجانے میں دشمن کے مقاصد کی ترویج کرتی ہیں۔


اس کی ایک مثال ایگزیکٹ کا معاملہ بھی ہے جسے بڑے باقاعدہ انداز سے پروجیکٹ کیا جا رہا ہے لیکن اس میں کس کا فائدہ ہے اس کی ابھی تک وضاحت نہیں ہو سکی۔ جعلی ڈگریوں کا کاروبار مغربی ممالک میں بھی خاصے زور شور سے جاری ہے لیکن نیویارک ٹائمز نے محض ایک خاص ادارے کا نام ہی اچھالا ہے۔

میں نے 4 فروری 2015ء کو ہائبرڈ وار فیئر کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت ہمارے خلاف سخت اور نرم طاقت کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس مقصد کے لیے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول ''ڈرائیونگ سیٹ'' پر بیٹھے ہیں اور پاکستان پر دہشت گردی سمیت مختلف الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جب کہ پاکستان کی طرف سے ان کی سختی سے تردید کی جاتی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پاکستان کے خلاف مختلف سازشوں میں مصروف ہے جن میں غلط اطلاعات کا پروپیگنڈا بھی شامل ہے جن کو بھارتی میڈیا ہوا دیتا ہے اور ہماری مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی زیادہ موثر دکھائی نہیں دیتی۔ سویلین انٹیلی جنس ایجنسیز میں سے ایک کے نہایت پیشہ ور اور مستعد علاقائی سربراہ نے مجھ سے درخواست کی کہ اس معاملے کو زیادہ نہ اچھالا جائے۔

دہشت گردوں کو مذموم مقاصد کے لیے بیرونی امداد بھی حاصل ہوتی ہے۔ مئی 2011ء میں پاکستان بحریہ کے مہران بیس پر مسلح حملہ آوروں نے پی سی تھری اورین طیارے کے ہینگروں پر حملہ کر کے دو طیاروں کو تباہ کر دیا تھا جب کہ ایک طیارہ ناکارہ بنا دیا گیا۔ کیا کسی نے اس بات پر سوال کیا ہے کہ دہشت گردوں نے درجنوں طیارے جو ان سے پہلے کھڑے ہوئے تھے ان کو کیوں چھوڑا اور صرف پی سی تھری اورین پر ہی کیوں حملہ کیا جو کہ وہاں سے ایک ہزار میٹر (یعنی پورے ایک کلومیٹر) دور کھڑے تھے۔ آخر دہشت گردوں کا اورین طیاروں کو تباہ کرنے کا کیا مقصد تھا جنھیں کہ پاک بحریہ کی آنکھوں اور کانوں کا درجہ حاصل ہے۔ آخر ان طیاروں کی تباہی سے بھارت کے علاوہ اور کس کا فائدہ ہو سکتا ہے؟

افغانستان کی این ڈی ایس آئی کا سربراہ نبیل جس نے کہ افغانستان پر روسی قبضے کے دوران پناہ گزین کے طور پر پاکستان میں تعلیم حاصل کی اس نے نیویارک ٹائم کے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ انھوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا کیونکہ دشمن کے دشمن کو دوست تصور کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ این ڈی ایس آئی کے افسروں کی تربیت بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' نے کی ہے اور افغانستان میں زیادہ تر آپریشن اسی کی سرکردگی میں کیے جاتے رہے۔

ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ آفریدی کے نائب لطیف اللہ آفریدی کو این ڈی ایس آئی کے ایجنٹوں کے ہمراہ اس وقت امریکی اسپیشل فورسز نے گرفتار کر لیا جب وہ کابل میں کرزئی کے ساتھ ملاقات کے لیے جا رہا تھا۔ کرزئی نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ اسے امریکا سے چھڑا لیا جائے لیکن یہ بات صدر اشرف غنی کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ انھوں نے لطیف اللہ آفریدی کو امریکا کی تحویل سے پاکستان کے سپرد کرا دیا۔ این ڈی ایس آئی کی پاکستان کے خلاف سرگرمیاں ممکن ہے کہ ختم نہ ہوئی ہوں لیکن ڈاکٹر اشرف غنی کے افغانستان کا صدر بننے کے بعد ان میں بہت کمی یقیناً آ گئی ہے۔ پشاور کے اے پی ایس پر حملے میں بھی این ڈی ایس آئی ملوث تھی۔

ہمیں پاکستان میں 'را' کی ہائبرڈ وار فیئر کو براہ راست یا بلواسطہ طور پر حمایت فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ وہ لوگ بھی جو 'را' کے لیے بالواسطہ کام کرتے ہیں اتنے ہی دہشت گرد ہیں جتنی کہ دہشت گردی کی براہ راست وارداتیں کرنے والے ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story