یوم تکبیر پاکستانی تاریخ کا دوسرا معجزہ

قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔

قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28 مئی 1998ء کو آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلہ نے ایک ایسا معجزہ کردکھایا کہ دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔

پاکستان کی تاریخ میں دو بڑے معجزے ہوئے ہیں۔ پہلا معجزہ قیام پاکستان کا ہے کہ کس طرح ایک منتشر قوم جو مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی تھی وہ ہندو اور انگریزوں کی متحدہ مخالفانہ قوت کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور دوسرا معجزہ 1998 ء میں ہوا جب ایسی قوم جس میں نہ کوئی تعلیم عام تھی اور نہ ہی ٹیکنالوجی میسر تھی، وہ ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہوگئی اور آج سے ٹھیک 17 سال پہلے 28 مئی 1998 ء کو جمعرات کے دن 3بج کر 15منٹ پر چاغی کے مقام پر واقع کوہ کامبران میں کھدی ہوئی ایک کلو میٹر لمبی زگ زیگ سرنگ میں ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کردیا اور دفاع وطن کو بیرونی جارحیت سے مکمل محفوظ بنادیا۔

ہر سال 28مئی کو چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کی یاد میں ملک بھر میں ''یوم تکبیر'' منایا جاتا ہے اور تقریبات، جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی دھماکے اس وقت کیے جب اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں برملا اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے ہر حربہ اختیار کرینگے اور ایٹم بم گرانے پڑا تو بھی گریز نہیں کرینگے۔

واجپائی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے جارحانہ عزائم کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور 11مئی 1998 کو تین اور 13 مئی کو مزید دو دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے۔ چنانچہ پاکستانی سائنسدانوں نے عسکری اور سیاسی قیادت کے فیصلے پر چاغی کے مقام پر 28 مئی 1998 کو پانچ اور 30 مئی کو کھاران میں ایک وسیع صحرائی وادی میں چھٹا ایٹمی دھماکا کرکے بھارت کی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا۔

ناقدین عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ تیسری دنیا کا ملک پاکستان جو آج بجلی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور جہاں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے اور جہاں صحت و تعلیم کی سہولیات غریب کے لئے ناپید ہیں اسے نیو کلیئر پروگرام میں قومی وسائل صرف کرنا دانشمندی نہ تھی۔

پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن پر اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو انڈیا پاکستان کو کھا چکا ہوتا۔ قارئین کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، نیپال ہو یا بھوٹان حتیٰ کہ مالدیپ ان سب کو بھارت نے ایٹمی قوت بن کر اپنی طفیلی ریاستیں اس حد تک بنا رکھا ہے کہ بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک پاکستان اپنی کرکٹ ٹیم بھیجنے کا اعلان کرکے بھارتی آنکھ کے اشارے پر یہ اعلان واپس لے لیتا ہے۔


جب سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی بموں کی تعداد اور کوالٹی میں بھارت پر برتری اور پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت نے بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنادیا ہے اور اس حد تک محفوظ بنادیا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرسکے گا۔

پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، کسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے اسے بار بار جنگیں لڑنا پڑیں۔ پاکستان اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے اور انہیں خوراک، تعلیم اور علاج و معالجے سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کرنے کا شدت سے آرزو مند ہے مگر دہشتگردی اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا۔ مختلف اسباب کی بناء پر اس کی سلامتی کے لئے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد کررہا ہے۔ چند ماہ قبل جدید ترین سٹیلتھ کروز میزائل رعد کے کامیاب تجربہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

امریکا نے بھارت کے ساتھ سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی اور جدید ترین ہتھیار دینے کے معاہدے کئے تھے جن کے نتیجے میں برصغیر میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے تاہم رعد میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد میزائل ٹیکنالوجی میں پاکستان کو بھارت پر سبقت حاصل ہوگئی ہے۔

ایٹم بم کی تیاری کے ابتدائی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت حالات انتہائی نامساعد تھے کیونکہ اس قسم کے کام کی تعلیم اور ٹریننگ نہ تو کسی کالج اور یونیورسٹی میں دی جاتی ہے اور نہ ہی اس موضوع تک اسکے انتہائی خفیہ ہونے کی وجہ سے رسائی ممکن ہے۔

آج کل تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے جس سے کام کا کچھ نہ کچھ آئیڈیا ہوجاتا ہے لیکن آج سے اکتالیس سال پہلے یہ چیزیں دسترس سے باہر تھیں، حتیٰ کہ ایک تو فوٹو کاپی مشین تک نہیں تھی، ایک ٹوٹی پھوٹی فورڈ ویگن ٹرانسپورٹ تھی اور ایک تاریک اور بدبو دار کمرہ لیبارٹری تھا جس میں بیٹھنے کے لئے چار کرسیاں بھی پوری نہیں ہوتی تھیں۔

یہاں پر بیٹھ کر ایٹمی سائنسدانوں نے ایٹم بم بنایا تھا۔ لوگوں کی طعن اس کے علاوہ تھی کہ ایک ملک میں جہاں توپ کا گولہ تک بنتا نہیں وہاں ایٹم بم کدھر سے بن جائیگا۔ گورنمنٹ کو بھی شاید یقین نہیں تھا کہ یہ کام ہوجائیگا اس وجہ سے فنڈز کی فراہمی بھی کوئی خاص نہیں تھی۔ اگر تھی تو ایک چیز اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور جذبہ صادق کہ یہ بقاء کی جنگ ہے اور اس جنگ کو لڑتے ہوئے یا تو ہم کامیاب ہوجائینگے یا پھر مرمٹیں گے، اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان باتوں کا تذکرہ محض اس لئے کیا ہے کہ قوم کو یہ معلوم ہو کہ سائنسدانوں اور انجینئرز نے کتنی خاموشی سے انتہائی نامساعد حالات میں کام کیا ہے۔

اگر 28 مئی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر محنت، لگن اور ایمانداری سے کام لیا جائے تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے، پاکستان میں جس طرح اٹامک انرجی کمیشن، نیسکام، آر ایل کے ادارے کام کررہے ہیں اگر اسی طرح ملک کے دوسرے ادارے بھی کام کریں تو ہم صرف 10 سال کے قلیل عرصہ میں ملک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بناسکتے ہیں۔
Load Next Story