اقتصادی کوریڈور اتفاق رائے ضروری
اگر پاک چائنا اقتصادی کوریڈور بخیر و خوبی مکمل ہو جاتا ہے تو اس سے اس خطے کی اقتصادی حالت یکسر بدل جائے گی
چین پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، جس میں دیگر اہم اقتصادی منصوبوں کے ساتھ ساتھ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور کا منصوبہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک میں اتنی بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے لیکن اس منصوبے کی ابتداء میں ہی منتازع بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ بعض چھوٹی سیاسی قوتوں نے راہداری کے مسئلے کو متنازع بنا کر اس طرح پیش کیا ہے جسے وہ قوم و ملک کے مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ یہ منصوبہ پورے خطے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اگر پاک چائنا اقتصادی کوریڈور بخیر و خوبی مکمل ہو جاتا ہے تو اس سے اس خطے کی اقتصادی حالت یکسر بدل جائے گی۔ ہمارے بعض نادان دوست اور دشمنوں کے دل میں یہ منصوبے کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ اور وہ اس کو ناکام بنانے کے لیے اپنے پروں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نہایت اہم نکتہ ہے ہماری تمام سیاسی جماعتوں اور چھوٹی سیاسی قوتوں کو خاص طور پر اپنے صوبائی اور جماعتی مفادات سے بالا تر ہو کر اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ اتنے بڑے پروجیکٹ صدیوں میں آتے ہیں۔
اس لیے ہماری سیاسی قیادت کو دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اس سے قبل بھی کئی منصوبوں کو متنازع بنا کر ملک و قوم کو ترقی کے سفر سے روک دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ واضح موقف ہے کہ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ جو روٹ پہلے سے طے تھا اب بھی وہی روٹ ہے اور وزیر اعظم محمد نواز شریف سیاسی قائدین کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اس منصوبے کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
یہ خوش آیند امر ہے کہ حکومت اس منصوبے پر پائے جانے والے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے اور اس ضمن میں اعتراضات دور کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ حکومت تمام قومی معاملات اتفاق رائے سے طے کرنا چاہتی ہے۔
مشاورت کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔ اس منصوبے کے ثمرات سے کوئی صوبہ محروم نہیں رہے گا بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان بھی اس سے استفادہ کریں گے۔ البتہ بعض بیرونی قوتیں اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ جب کہ پاک چائنا کوریڈور کسی کے خلاف نہیں ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا موقف بالکل درست ہے جب سے پاک چائنا کوریڈور منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے بعض قوتیں اس منصوبے کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بعض قوتوں سے یہ منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا ۔
دراصل یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ ا س منصوبے سے ایک صوبے کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان ہو گا لیکن وفاقی حکومت یہ بات واضح کر چکی ہے پاک چائنا اقتصادی کوریڈور سے تمام صوبوں کو فائدہ ہو گا، لیکن پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن اس منصوبے کی کامیابی کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ یہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرے۔
یقینا وزیرِ اعظم کی جانب سے سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینا اور اس اجلاس میں اہم فیصلہ کرنا خوش آیند امر ہے توقع کی جانی چاہیے کہ اجلاس کے فیصلوں کے درست نتائج پیدا ہوں گے۔ اس حوالے یہ خواہش بھی بڑی معصومانہ ہے کہ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور ہر سیاسی رہنما کے گھر سے گزرے یہ منصوبہ پاکستان اور چین نے ایک نقطہ نظر سے بنایا ہے یہ بات نکتہ چینی کرنے والے رہنمائوں کو اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ منصوبے سراسر قومی مفاد کا منصوبہ ہے جس سے پورے ملک کو فائدہ ہو گا۔ اور ایک منتخب حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ جس منصوبے کو چاہے جیسے مکمل کرے۔ اگر حکومت اس مخمصے کا شکار ہو گئی کہ اس منصوبے کو اس طرح بنایا جائے کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کو یا کسی مخصوص سیاسی رہنما کو ناراض نہ کیا جائے تو پھر اس منصوبے کا حشر بھی بعض ماضی کے ایسے منصوبوں جیسا ہو گا جنھیں متنازع بنا دیا گیا تھا۔
بعض اطلاعات میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے بھرپور انداز سے کام شروع کر دیا ہے، خود وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی یہ بات ایک سے زائد بار دہرا چکے ہیں کہ کچھ بیرونی قوتیں پاکستان کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہمیں اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے دشمن قوتوں کی سازشوں سے بچنا ہو گا۔ یوں بھی حالیہ دنوں میں کئی حوالوں سے ''را'' کی کارروائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے حکومت اور سلامتی اداروں کے اہم عہدیداروں نے کھل کر ''را'' کی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس پس منظر میں ہماری خصوصاً چھوٹی سیاسی قوتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی کی آلہ کار تو نہیں بن رہیں۔
کیونکہ گزشتہ دنوں پاک چائنا کوریڈور کے حوالے سے اے این پی نے ایک آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی اور اس منصوبے پر اپنے اعتراضات کا اظہار کیا تھا۔ دوسری جانب نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے بتایا انھوں نے اسفندیار ولی سے جب پاک چائنا اقتصادی کوریڈور کے روٹ میں تبدیلی کے حوالے سے سوال کیا تو وہ اس تبدیلی کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے۔ مجموعی طور پر اے این پی کی اے پی سی گفتن، نشستن اور برخاستن کے مترادف تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام پاکستانیوں کو پاک چائنا اقتصادی کوریڈور پر اتفاق رائے پیدا کر کے اس منصوبے کی کامیابی کی راہ ہموار کرنی چاہیے تا کہ ہم اپنے قومی اتحاد سے دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنا دیں۔
اگر پاک چائنا اقتصادی کوریڈور بخیر و خوبی مکمل ہو جاتا ہے تو اس سے اس خطے کی اقتصادی حالت یکسر بدل جائے گی۔ ہمارے بعض نادان دوست اور دشمنوں کے دل میں یہ منصوبے کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ اور وہ اس کو ناکام بنانے کے لیے اپنے پروں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نہایت اہم نکتہ ہے ہماری تمام سیاسی جماعتوں اور چھوٹی سیاسی قوتوں کو خاص طور پر اپنے صوبائی اور جماعتی مفادات سے بالا تر ہو کر اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ اتنے بڑے پروجیکٹ صدیوں میں آتے ہیں۔
اس لیے ہماری سیاسی قیادت کو دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اس سے قبل بھی کئی منصوبوں کو متنازع بنا کر ملک و قوم کو ترقی کے سفر سے روک دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ واضح موقف ہے کہ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ جو روٹ پہلے سے طے تھا اب بھی وہی روٹ ہے اور وزیر اعظم محمد نواز شریف سیاسی قائدین کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اس منصوبے کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
یہ خوش آیند امر ہے کہ حکومت اس منصوبے پر پائے جانے والے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے اور اس ضمن میں اعتراضات دور کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ حکومت تمام قومی معاملات اتفاق رائے سے طے کرنا چاہتی ہے۔
مشاورت کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔ اس منصوبے کے ثمرات سے کوئی صوبہ محروم نہیں رہے گا بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان بھی اس سے استفادہ کریں گے۔ البتہ بعض بیرونی قوتیں اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ جب کہ پاک چائنا کوریڈور کسی کے خلاف نہیں ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا موقف بالکل درست ہے جب سے پاک چائنا کوریڈور منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے بعض قوتیں اس منصوبے کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بعض قوتوں سے یہ منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا ۔
دراصل یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ ا س منصوبے سے ایک صوبے کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان ہو گا لیکن وفاقی حکومت یہ بات واضح کر چکی ہے پاک چائنا اقتصادی کوریڈور سے تمام صوبوں کو فائدہ ہو گا، لیکن پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن اس منصوبے کی کامیابی کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ یہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرے۔
یقینا وزیرِ اعظم کی جانب سے سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینا اور اس اجلاس میں اہم فیصلہ کرنا خوش آیند امر ہے توقع کی جانی چاہیے کہ اجلاس کے فیصلوں کے درست نتائج پیدا ہوں گے۔ اس حوالے یہ خواہش بھی بڑی معصومانہ ہے کہ پاک چائنا اقتصادی کوریڈور ہر سیاسی رہنما کے گھر سے گزرے یہ منصوبہ پاکستان اور چین نے ایک نقطہ نظر سے بنایا ہے یہ بات نکتہ چینی کرنے والے رہنمائوں کو اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ منصوبے سراسر قومی مفاد کا منصوبہ ہے جس سے پورے ملک کو فائدہ ہو گا۔ اور ایک منتخب حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ جس منصوبے کو چاہے جیسے مکمل کرے۔ اگر حکومت اس مخمصے کا شکار ہو گئی کہ اس منصوبے کو اس طرح بنایا جائے کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کو یا کسی مخصوص سیاسی رہنما کو ناراض نہ کیا جائے تو پھر اس منصوبے کا حشر بھی بعض ماضی کے ایسے منصوبوں جیسا ہو گا جنھیں متنازع بنا دیا گیا تھا۔
بعض اطلاعات میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے بھرپور انداز سے کام شروع کر دیا ہے، خود وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی یہ بات ایک سے زائد بار دہرا چکے ہیں کہ کچھ بیرونی قوتیں پاکستان کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہمیں اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے دشمن قوتوں کی سازشوں سے بچنا ہو گا۔ یوں بھی حالیہ دنوں میں کئی حوالوں سے ''را'' کی کارروائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے حکومت اور سلامتی اداروں کے اہم عہدیداروں نے کھل کر ''را'' کی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس پس منظر میں ہماری خصوصاً چھوٹی سیاسی قوتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی کی آلہ کار تو نہیں بن رہیں۔
کیونکہ گزشتہ دنوں پاک چائنا کوریڈور کے حوالے سے اے این پی نے ایک آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی اور اس منصوبے پر اپنے اعتراضات کا اظہار کیا تھا۔ دوسری جانب نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے بتایا انھوں نے اسفندیار ولی سے جب پاک چائنا اقتصادی کوریڈور کے روٹ میں تبدیلی کے حوالے سے سوال کیا تو وہ اس تبدیلی کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے۔ مجموعی طور پر اے این پی کی اے پی سی گفتن، نشستن اور برخاستن کے مترادف تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام پاکستانیوں کو پاک چائنا اقتصادی کوریڈور پر اتفاق رائے پیدا کر کے اس منصوبے کی کامیابی کی راہ ہموار کرنی چاہیے تا کہ ہم اپنے قومی اتحاد سے دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنا دیں۔