تعمیراتی شاہ کار جو نہ ہوسکے آشکار
کچھ ایسی شان دار عمارتیں، جو تخیل سے تعمیر تک کا سفر طے نہ کرسکیں.
انسان کو معاشرتی حیوان قرار دیا گیا ہے، جس کا ایک سبب اس کی جبلت میں شامل اپنے اثاثے اور سرمائے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سوچ بھی ہے.
جو اسے دیگر نوع کے حیوانات سے ممتاز بناتی ہے۔ اس کا طرز رہائش نہایت متمدن ہوتا ہے، جس میں تخیلق و جدت کے شاہ کار محل، سرائے اور مکان شامل ہیں، جو خطیر رقوم یا زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر بنائے جاتے ہیں۔
انسان اپنے آشیانے بنانے کا جذبہ اتنا ہی محبوب رکھتا ہے، جتنا کہ اسے اپنی زندگی عزیز ہے۔ اس کا یہی جذبہ اقوام عالم میں فن تعمیر کی ترقی کا ضامن بنا۔ اس حوالے تاریخ رفتہ اور عہد حاضر پر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے، تو ہمیں تاحد نظر انسانی تعمیرات کا ایک خوب صورت سلسلہ نظر آتا ہے، جن میں سے ہر عمارت شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارا کرۂ ارض 7 براعظموں پر محیط ہے، جن میں انٹارکٹیکا کے سوا ہر خطے میں انسان نے اپنے فن تعمیر کے جوہر دکھا رکھے ہیں۔
اس ضمن میں اس نے عشق حقیقی اور مجازی کی یادگاریں کھڑی کرنے کے علاوہ رہائشی، نمائشی اور دفتری مراکز بھی بنائے۔ ان میں سے کچھ مقامات نے معبدوں اور مقدسات کا درجہ پایا تو بعض آگرہ کے تاج محل کی طرح غریبوں کے عشق کا منہ چڑانے پر مامور ہوئے۔ کسی نے اہرام مصر کی شکل میں فراعین کے عہد کو انسانی ذہنوں میں بیدار رکھا تو کوئی بلندی کے سبب ایفل ٹاور کی صورت میں سیاحوں کی توجہ حاصل کرتا رہا۔ غرض کہ ہر ملک میں سیکڑوں ایسی عمارات پائی جاتی ہیں، جو اپنی بلندی ، دل کشی، قدامت، تاریخ یا اور کسی مناسبت سے ناقابل فراموش ٹھیری ہیں۔
مگر یہاں تذکرہ ان غنچوں کا ہوا چاہتا ہے جو بن کھلے ہی مرجھا گئے۔ یعنی وہ تعمیراتی پراجیکٹ انسانی تخیل میں جاگزیں ہوئے، لیکن ان کی قسمت میں خطۂ اراضی پر نمودار ہونا نہ تھا۔ اگرچہ ان منصوبہ پر بہت دل جمعی سے کام بھی کیا گیا، لیکن بعض وجوہات نے انھیں ابدی نیند سُلادیا اور ان کا حال وہی ہوا جو شکم مادر میں نمودار ہونے والا متوقع ولادت طفل کا ہوتا ہے، لیکن قدرت کو اس کا فضا ارضی پر قرار مقصد نہیں ہوتا۔ ان منصوبوں کے آغاز میں کہیں موجد اور خاکہ نگار کے تخیل کوتاہیاں مانع بنیں تو کہیں جنگوں اور دیگر آفات نے انھیں آ دبوچا۔
بسا اوقات تو یہاں تک دیکھنے میں آیا کہ بعض منصوبوں کی تعمیر کے لیے وہاں پر موجود پرانی عمارت کو ڈھانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ وقت کے حکم رانوں کی گرم جوشی دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ارادے کے آڑے کوئی عذر نہیں آسکے گا، لیکن دور بدلنے پر ان کا منصوبہ جاہ وجلال کے ساتھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور آج اس مقام پر وہی عمارتیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں، جنہیں منہدم کرکے نئے شاہ کار ان کی جگہ زمین کی پیوند کاری کے لیے تعمیر کیے جانے تھے۔ اسی قسم کے واقعات کی تاریخ کا جائزہ لینے کے لیے ذیل میں بعض ایسی عمارتوں کی روداد بیان کی جارہی ہے، تخیل سے تعمیر تک کا سفر طے کرلیتیں تو شاہ کار کہلاتیں۔
٭ہوٹل ایٹریکشن
آرکیٹیکٹ انٹونی گائوڈی کا ڈیزائن کردہ یہ منصوبہ اگر پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا تو اسے نیویارک کی بلندترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ منصوبے کے مطابق عمارت کی لمبائی 360 میٹرز یا 1181فٹ تھی، جسے اُس وقت ایک غیرحقیقی خیال سمجھا جارہا تھا۔ ابتدا میں اس ہوٹل کے متعلق چند ہی لوگوں کو معلومات حاصل تھیں، لیکن 1956 میں ''نیو ورلڈ کالڈ گائوڈی'' کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے اس راز کو اقوام عالم پر افشا کردیا۔ واضح رہے کہ گائوڈی کا وضع کردہ ایٹریکشن ہوٹل کا خاکہ بعد ازاں مین ہیٹن کے گرائونڈ زیرو پراجیکٹ کی تعمیر نو کی بنیاد بنا۔
٭دی الینوائس
دی الینوائس ایک میل بلند فلک بوس عمارت کا مجوزہ منصوبہ تھا، جو فرینک لائیڈ رائٹ کے چشم تصور میں شکاگو الینوائس کے لیے 1950 کی دہائی میں اترا تھا۔ اس وقت رائٹ کا خیال تھا کہ ان کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینا ممکن ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق اس تعمیراتی شاہ کار میں 528 منزلیں بنائی جانی تھیں، جب کہ اس کا مجموعی رقبہ ایک کروڑ 84لاکھ 60 ہزار مربع فٹ تجویز کیا گیا تھا۔ دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ رائٹ کے پیش کردہ ڈیزائن کی خامیاں ہی اس منصوبے کو لے بیٹھیں۔ ان کے منصوبے میں لفٹ کا نظام بہت وسیع وعریض تھا، جو نچلی منازل کا تقریباً تمام ہی احاطہ اپنے زیر اثر لے رہا تھا۔
٭فورتھ گریس
اگرچہ انگلش کائونٹی لیور پول کے لیے 2002 میں تشکیل پانے والا یہ منصوبہ بہت سے لوگوں کے خیال میں بدصورت ترین تھا، لیکن آرکیٹیکٹ ول الوسپ نے اسی منصوبے کے لیے ''دی کلائوڈ'' کے نام سے ڈیزائن پیش کرکے کام یابی حاصل کی۔ اس منصوبے کا نام ''فورتھ گریس '' رکھا گیا جس کی وجہ تسمیہ ایسے علاقے میں تعمیر تھی جہاں پہلے سے 3 تاریخی عمارتیں موجود تھیں اور پیئر ہیڈ کے اس مقام کو ''دی تھری گریسز'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ تاہم 2004 میں لاگت میں زبردست اضافہ اس پراجیکٹ کی وجہِ تنسیخ بن گئی۔ فورتھ گریس کے خاکے میں دفتری حصے سمیت 107 کمروں کا ہوٹل، 50 ہزار مربع فٹ کا کمیونٹی سینٹر بہ شمول مئے کدہ، ریستوراں اور نظارہ گاہ شامل تھے۔
٭بیکن آف پروگریس
شکاگو ورلڈ فیئر 1893 کے لیے جیکسن پارک میں اس نام سے ایک 457 میٹر یا 1500 فٹ بلند مینار بنانے کا منصوبہ بنایا گیا، جس کی تعمیر پتھروں کی مدد سے ہوتی اور اس کا خاکہ وضع کرنے کی ذمے داری فرانسیسی نژاد آرکیٹیکٹ اور ایم آئی ٹی کے پروفیسر ڈیسائر ڈیسپراڈیل کو سونپی گئی۔ اگر اس منصوبے کو صحیح طرح سے معاونت ملتی، تو وہ اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی دنیا کی بلند ترین عمارت ہوتی۔
٭ویلے کونٹیم پورنے
یہ پراجیکٹ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے لیے 1922 میں آرکیٹیکٹ لی کوربوسیئر نے ڈیزائن کیا، جسے 30 لاکھ افراد کے سروں کا سائبان بننا تھا۔ جس کامرکز 60 منزلہ فلک بوس اسٹیل کا ڈھانچا تھا، جس پر شیشوں کا لباس پہنایا جانا تھا۔ اس حصے میں دفاتر اور رئوسا کی رہائش کا اہتمام ہونا تھا جب کہ اس کے بالکل وسط میں ذرائع آمدورفت کا ایک وسیع مرکز تشکیل دیا جانا تھا، جہاں زیریں حصہ بسوں اور ٹرینوں کے ڈیپو اور بالائی حصہ ہوائی اڈے کا کام دیتا۔ یاد رہے کہ فرانسیسی حکام طویل عرصے سے پیرس کی آئے دن وجود میں آنے والی کچی بستیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوتے بیزار آچکے ہیں اور لی کوربوسیئر نے اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ پراجیکٹ کا خاکہ ڈیزائن کیا تھا، تاکہ ویلے کونٹیم پورنے کے منصوبے سے استفادہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں گھروں کے متمنی شہریوں کو اپنی چھت اور رہنے کا ٹھکانا میسر آجائے۔
٭ٹیٹلنز ٹاور
روس کے سینٹ پیٹرزبرگ کے لیے ڈیزائن ہونے والا یہ خاکہ اگر زمینی حقیقت کا روپ دھار لیتا تو پیرس کے ایفل ٹاور کی بلندی کو پیچھے چھوڑ دیتا۔ یہ تعمیراتی شاہ کار لوہے، شیشے اور اسٹیل سے تیار کیا جانا تھا، جو جدید دور کی تعمیرات کی علامت بن جاتا، جس میں دو 400 میٹر بلند جڑواں زینے رکھے جانے تھے، جن کی بہ دولت دیکھنے آنے والوں کو عمارت کے ایک سے دوسرے حصے میں جانے کی سہولت ملتی۔ ٹاور میں آمدورفت کے نظام کو میکانی آلات کی مدد سے چلایا جانا تھا۔ اس پراجیکٹ کی اہم بات عمارت کی بنیاد روٹیٹنگ کیوب پر ہونا تھی، جو لیکچرز، کانفرنسوں اور قانونی نوعیت کے اجلاسوں کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔ یہ کیوب ایک سال کے عرصے میں ایک چکر پورا کرتے، جب کہ ان کے اوپر قدرے چھوٹا کیوب ہوتا جو ایگزیکٹیو سرگرمیوں کے لیے وقف ہوتا اور ایک چکر ایک ماہ میں مکمل کرتا۔
٭الٹیما ٹاور
اگرچہ سان فرانسسکو، کیلیفورنیا کے لیے 1991 میں بننے والا یہ ڈیزائن سنجیدہ نوعیت کے تعمیراتی منصوبوں میں شامل ہونے کی اہلیت تو نہیں رکھتا تھا، لیکن اس میں کچھ خصوصیات ایسی تھیں جن کی بنا پر اس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے۔ اس عمارت کو بنانے کا خیال آرکیٹیکٹ یوجین ٹسوئی کے ذہن میں اس وقت اترا جب وہ سان فرانسسکو کے شہری علاقوں کے جامع مطالعے میں مصروف تھا۔ اس منصوبے کے خاکے کی سب اہم بات تعمیراتی ڈھانچے کی بلند و پست ترین منزلوں میں ماحولیاتی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت تھی، جو ہر طرح کے ماحولیاتی دبائو میں کارگر رہتی تھی۔ اس کا ڈھانچا افریقی ٹرمائٹ نیسٹ کے طرز پر وضع کیا گیا تھا۔
٭شمی زو میگا سٹی پیرامڈ
پیرامڈ یا اہرام کا نام سن کر تصور فوری طور پر اہرام مصر کا رُخ کرتا ہے، جو ساخت کے اعتبار سے نچلے حصے میں مربع اور اوپر بڑھ کر نوک دار پہاڑی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ تعمیرات عقل انسانی کو فراعین مصر کے زمانے اور اس وقت کی ٹیکنالوجی یاد دلاتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فراعین مصر کے مدفن ہوتے تھے، جو27 ویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ ان میں سے138 ابھی 2008 میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔ یہ اہرام مصر کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں، جن سے متاثر ہوکر جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کے ساحل پر اہرام کی تعمیر کا منصوبہ تجویز کیا گیا تھا، جو غزہ کے عظیم پیرامڈ سے 12 گنا وسیع ڈھانچے پر محیط ہوتا۔
اس اہرام کی تعمیر کی تجویز 2004 میں پیش کی گئی۔ اس وینیو میں ساڑھے7 لاکھ افراد بیک وقت سما سکتے تھے اور اسے کرۂ ارض کے سب سے بڑے انسان ساختہ تعمیراتی شاہ کار ہونے کی وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہوتی۔ مجوزہ اہرام کا ڈھانچا 55 چھوٹے پیرامڈز پر مشتمل تھا، جو 5 بڑے اہراموں پر تعمیر کیے جانے تھے۔ ہر چھوٹے پیرامڈ کا رقبہ لاس ویگاس کے لکسر ہوٹل کے مساوی رکھا جانا تھا، لیکن اس منصوبے میں خامی یہ تھی کہ اسے ایسے تصوراتی میٹریئل سے تعمیر کیا جانا تھا، جو تاحال دست یاب نہیں ہوسکا ہے۔
٭پیلس آف سوویت
یہ عمارت اگر تعمیر ہوجاتی تو اسے اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل ہوتا۔ اس کا منصوبہ 1930 کی دہائی میں منظر عام پر آیا اور اسے ماسکو کے ایک کلیسا کو منہدم کرکے بنانے کا ارادہ کیا گیا۔ اس کا خاکہ تیار کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایک مقابلہ رکھا گیا، جس میں دنیا بھر سے 272 آرکیٹیکٹس نے اپنے خیالات کو کاغذ پر وضع کیا اور اس مقابلے کے فاتح بورس لوفان رہے، جنھوں نے تجویز دی کہ مجوزہ فلک بوس شاہ کار کے او پر انقلاب روس کے نقیب لینن کا مجسمہ نصب کیا جائے۔
1937 میں اس منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہوا، جس میں بعد ازاں نازی جرمنی کا حملہ مخل ہوگیا۔ 1942 میں پیلس آف سوویت کا دھاتی ڈھانچا بھی اکھاڑ کر پلوں جیسی تنصیبات کی تعمیر میں استعمال کرلیا گیا، جب کہ 1995 سے2000 کے درمیان اسی مقام پر کلیسا کو دوبارہ تعمیر کردیا گیا۔
٭والکشیلے
جرمن زبان میں اس سے مراد ایک بہت بڑا گنبد یا لوگوں کی وسیع و عریض لوگوں کی مجمع گاہ ہے۔ یہ نازی ڈکٹیٹر اوڈلف ہٹلر کا ایک اہم ترین منصوبہ تھا، جس کے لیے ذمے داری البرٹ اسپیر نامی آرکیٹیکٹ کے سپرد کی گئی تھی اور اسے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں تعمیر کیا جانا تھا۔ اپنے محل وقوع اور رقبے کے اعتبار سے یہ برلن کے تعمیراتی شاہ کاروں میں مرکزی اہمیت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا تھا، لیکن اس کی تعمیر میں دوسری جنگ عظیم آڑے آگئی۔
جو اسے دیگر نوع کے حیوانات سے ممتاز بناتی ہے۔ اس کا طرز رہائش نہایت متمدن ہوتا ہے، جس میں تخیلق و جدت کے شاہ کار محل، سرائے اور مکان شامل ہیں، جو خطیر رقوم یا زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر بنائے جاتے ہیں۔
انسان اپنے آشیانے بنانے کا جذبہ اتنا ہی محبوب رکھتا ہے، جتنا کہ اسے اپنی زندگی عزیز ہے۔ اس کا یہی جذبہ اقوام عالم میں فن تعمیر کی ترقی کا ضامن بنا۔ اس حوالے تاریخ رفتہ اور عہد حاضر پر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے، تو ہمیں تاحد نظر انسانی تعمیرات کا ایک خوب صورت سلسلہ نظر آتا ہے، جن میں سے ہر عمارت شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارا کرۂ ارض 7 براعظموں پر محیط ہے، جن میں انٹارکٹیکا کے سوا ہر خطے میں انسان نے اپنے فن تعمیر کے جوہر دکھا رکھے ہیں۔
اس ضمن میں اس نے عشق حقیقی اور مجازی کی یادگاریں کھڑی کرنے کے علاوہ رہائشی، نمائشی اور دفتری مراکز بھی بنائے۔ ان میں سے کچھ مقامات نے معبدوں اور مقدسات کا درجہ پایا تو بعض آگرہ کے تاج محل کی طرح غریبوں کے عشق کا منہ چڑانے پر مامور ہوئے۔ کسی نے اہرام مصر کی شکل میں فراعین کے عہد کو انسانی ذہنوں میں بیدار رکھا تو کوئی بلندی کے سبب ایفل ٹاور کی صورت میں سیاحوں کی توجہ حاصل کرتا رہا۔ غرض کہ ہر ملک میں سیکڑوں ایسی عمارات پائی جاتی ہیں، جو اپنی بلندی ، دل کشی، قدامت، تاریخ یا اور کسی مناسبت سے ناقابل فراموش ٹھیری ہیں۔
مگر یہاں تذکرہ ان غنچوں کا ہوا چاہتا ہے جو بن کھلے ہی مرجھا گئے۔ یعنی وہ تعمیراتی پراجیکٹ انسانی تخیل میں جاگزیں ہوئے، لیکن ان کی قسمت میں خطۂ اراضی پر نمودار ہونا نہ تھا۔ اگرچہ ان منصوبہ پر بہت دل جمعی سے کام بھی کیا گیا، لیکن بعض وجوہات نے انھیں ابدی نیند سُلادیا اور ان کا حال وہی ہوا جو شکم مادر میں نمودار ہونے والا متوقع ولادت طفل کا ہوتا ہے، لیکن قدرت کو اس کا فضا ارضی پر قرار مقصد نہیں ہوتا۔ ان منصوبوں کے آغاز میں کہیں موجد اور خاکہ نگار کے تخیل کوتاہیاں مانع بنیں تو کہیں جنگوں اور دیگر آفات نے انھیں آ دبوچا۔
بسا اوقات تو یہاں تک دیکھنے میں آیا کہ بعض منصوبوں کی تعمیر کے لیے وہاں پر موجود پرانی عمارت کو ڈھانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ وقت کے حکم رانوں کی گرم جوشی دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ارادے کے آڑے کوئی عذر نہیں آسکے گا، لیکن دور بدلنے پر ان کا منصوبہ جاہ وجلال کے ساتھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور آج اس مقام پر وہی عمارتیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں، جنہیں منہدم کرکے نئے شاہ کار ان کی جگہ زمین کی پیوند کاری کے لیے تعمیر کیے جانے تھے۔ اسی قسم کے واقعات کی تاریخ کا جائزہ لینے کے لیے ذیل میں بعض ایسی عمارتوں کی روداد بیان کی جارہی ہے، تخیل سے تعمیر تک کا سفر طے کرلیتیں تو شاہ کار کہلاتیں۔
٭ہوٹل ایٹریکشن
آرکیٹیکٹ انٹونی گائوڈی کا ڈیزائن کردہ یہ منصوبہ اگر پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا تو اسے نیویارک کی بلندترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ منصوبے کے مطابق عمارت کی لمبائی 360 میٹرز یا 1181فٹ تھی، جسے اُس وقت ایک غیرحقیقی خیال سمجھا جارہا تھا۔ ابتدا میں اس ہوٹل کے متعلق چند ہی لوگوں کو معلومات حاصل تھیں، لیکن 1956 میں ''نیو ورلڈ کالڈ گائوڈی'' کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے اس راز کو اقوام عالم پر افشا کردیا۔ واضح رہے کہ گائوڈی کا وضع کردہ ایٹریکشن ہوٹل کا خاکہ بعد ازاں مین ہیٹن کے گرائونڈ زیرو پراجیکٹ کی تعمیر نو کی بنیاد بنا۔
٭دی الینوائس
دی الینوائس ایک میل بلند فلک بوس عمارت کا مجوزہ منصوبہ تھا، جو فرینک لائیڈ رائٹ کے چشم تصور میں شکاگو الینوائس کے لیے 1950 کی دہائی میں اترا تھا۔ اس وقت رائٹ کا خیال تھا کہ ان کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینا ممکن ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق اس تعمیراتی شاہ کار میں 528 منزلیں بنائی جانی تھیں، جب کہ اس کا مجموعی رقبہ ایک کروڑ 84لاکھ 60 ہزار مربع فٹ تجویز کیا گیا تھا۔ دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ رائٹ کے پیش کردہ ڈیزائن کی خامیاں ہی اس منصوبے کو لے بیٹھیں۔ ان کے منصوبے میں لفٹ کا نظام بہت وسیع وعریض تھا، جو نچلی منازل کا تقریباً تمام ہی احاطہ اپنے زیر اثر لے رہا تھا۔
٭فورتھ گریس
اگرچہ انگلش کائونٹی لیور پول کے لیے 2002 میں تشکیل پانے والا یہ منصوبہ بہت سے لوگوں کے خیال میں بدصورت ترین تھا، لیکن آرکیٹیکٹ ول الوسپ نے اسی منصوبے کے لیے ''دی کلائوڈ'' کے نام سے ڈیزائن پیش کرکے کام یابی حاصل کی۔ اس منصوبے کا نام ''فورتھ گریس '' رکھا گیا جس کی وجہ تسمیہ ایسے علاقے میں تعمیر تھی جہاں پہلے سے 3 تاریخی عمارتیں موجود تھیں اور پیئر ہیڈ کے اس مقام کو ''دی تھری گریسز'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ تاہم 2004 میں لاگت میں زبردست اضافہ اس پراجیکٹ کی وجہِ تنسیخ بن گئی۔ فورتھ گریس کے خاکے میں دفتری حصے سمیت 107 کمروں کا ہوٹل، 50 ہزار مربع فٹ کا کمیونٹی سینٹر بہ شمول مئے کدہ، ریستوراں اور نظارہ گاہ شامل تھے۔
٭بیکن آف پروگریس
شکاگو ورلڈ فیئر 1893 کے لیے جیکسن پارک میں اس نام سے ایک 457 میٹر یا 1500 فٹ بلند مینار بنانے کا منصوبہ بنایا گیا، جس کی تعمیر پتھروں کی مدد سے ہوتی اور اس کا خاکہ وضع کرنے کی ذمے داری فرانسیسی نژاد آرکیٹیکٹ اور ایم آئی ٹی کے پروفیسر ڈیسائر ڈیسپراڈیل کو سونپی گئی۔ اگر اس منصوبے کو صحیح طرح سے معاونت ملتی، تو وہ اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی دنیا کی بلند ترین عمارت ہوتی۔
٭ویلے کونٹیم پورنے
یہ پراجیکٹ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے لیے 1922 میں آرکیٹیکٹ لی کوربوسیئر نے ڈیزائن کیا، جسے 30 لاکھ افراد کے سروں کا سائبان بننا تھا۔ جس کامرکز 60 منزلہ فلک بوس اسٹیل کا ڈھانچا تھا، جس پر شیشوں کا لباس پہنایا جانا تھا۔ اس حصے میں دفاتر اور رئوسا کی رہائش کا اہتمام ہونا تھا جب کہ اس کے بالکل وسط میں ذرائع آمدورفت کا ایک وسیع مرکز تشکیل دیا جانا تھا، جہاں زیریں حصہ بسوں اور ٹرینوں کے ڈیپو اور بالائی حصہ ہوائی اڈے کا کام دیتا۔ یاد رہے کہ فرانسیسی حکام طویل عرصے سے پیرس کی آئے دن وجود میں آنے والی کچی بستیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوتے بیزار آچکے ہیں اور لی کوربوسیئر نے اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ پراجیکٹ کا خاکہ ڈیزائن کیا تھا، تاکہ ویلے کونٹیم پورنے کے منصوبے سے استفادہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں گھروں کے متمنی شہریوں کو اپنی چھت اور رہنے کا ٹھکانا میسر آجائے۔
٭ٹیٹلنز ٹاور
روس کے سینٹ پیٹرزبرگ کے لیے ڈیزائن ہونے والا یہ خاکہ اگر زمینی حقیقت کا روپ دھار لیتا تو پیرس کے ایفل ٹاور کی بلندی کو پیچھے چھوڑ دیتا۔ یہ تعمیراتی شاہ کار لوہے، شیشے اور اسٹیل سے تیار کیا جانا تھا، جو جدید دور کی تعمیرات کی علامت بن جاتا، جس میں دو 400 میٹر بلند جڑواں زینے رکھے جانے تھے، جن کی بہ دولت دیکھنے آنے والوں کو عمارت کے ایک سے دوسرے حصے میں جانے کی سہولت ملتی۔ ٹاور میں آمدورفت کے نظام کو میکانی آلات کی مدد سے چلایا جانا تھا۔ اس پراجیکٹ کی اہم بات عمارت کی بنیاد روٹیٹنگ کیوب پر ہونا تھی، جو لیکچرز، کانفرنسوں اور قانونی نوعیت کے اجلاسوں کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔ یہ کیوب ایک سال کے عرصے میں ایک چکر پورا کرتے، جب کہ ان کے اوپر قدرے چھوٹا کیوب ہوتا جو ایگزیکٹیو سرگرمیوں کے لیے وقف ہوتا اور ایک چکر ایک ماہ میں مکمل کرتا۔
٭الٹیما ٹاور
اگرچہ سان فرانسسکو، کیلیفورنیا کے لیے 1991 میں بننے والا یہ ڈیزائن سنجیدہ نوعیت کے تعمیراتی منصوبوں میں شامل ہونے کی اہلیت تو نہیں رکھتا تھا، لیکن اس میں کچھ خصوصیات ایسی تھیں جن کی بنا پر اس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے۔ اس عمارت کو بنانے کا خیال آرکیٹیکٹ یوجین ٹسوئی کے ذہن میں اس وقت اترا جب وہ سان فرانسسکو کے شہری علاقوں کے جامع مطالعے میں مصروف تھا۔ اس منصوبے کے خاکے کی سب اہم بات تعمیراتی ڈھانچے کی بلند و پست ترین منزلوں میں ماحولیاتی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت تھی، جو ہر طرح کے ماحولیاتی دبائو میں کارگر رہتی تھی۔ اس کا ڈھانچا افریقی ٹرمائٹ نیسٹ کے طرز پر وضع کیا گیا تھا۔
٭شمی زو میگا سٹی پیرامڈ
پیرامڈ یا اہرام کا نام سن کر تصور فوری طور پر اہرام مصر کا رُخ کرتا ہے، جو ساخت کے اعتبار سے نچلے حصے میں مربع اور اوپر بڑھ کر نوک دار پہاڑی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ تعمیرات عقل انسانی کو فراعین مصر کے زمانے اور اس وقت کی ٹیکنالوجی یاد دلاتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فراعین مصر کے مدفن ہوتے تھے، جو27 ویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ ان میں سے138 ابھی 2008 میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔ یہ اہرام مصر کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں، جن سے متاثر ہوکر جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کے ساحل پر اہرام کی تعمیر کا منصوبہ تجویز کیا گیا تھا، جو غزہ کے عظیم پیرامڈ سے 12 گنا وسیع ڈھانچے پر محیط ہوتا۔
اس اہرام کی تعمیر کی تجویز 2004 میں پیش کی گئی۔ اس وینیو میں ساڑھے7 لاکھ افراد بیک وقت سما سکتے تھے اور اسے کرۂ ارض کے سب سے بڑے انسان ساختہ تعمیراتی شاہ کار ہونے کی وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہوتی۔ مجوزہ اہرام کا ڈھانچا 55 چھوٹے پیرامڈز پر مشتمل تھا، جو 5 بڑے اہراموں پر تعمیر کیے جانے تھے۔ ہر چھوٹے پیرامڈ کا رقبہ لاس ویگاس کے لکسر ہوٹل کے مساوی رکھا جانا تھا، لیکن اس منصوبے میں خامی یہ تھی کہ اسے ایسے تصوراتی میٹریئل سے تعمیر کیا جانا تھا، جو تاحال دست یاب نہیں ہوسکا ہے۔
٭پیلس آف سوویت
یہ عمارت اگر تعمیر ہوجاتی تو اسے اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل ہوتا۔ اس کا منصوبہ 1930 کی دہائی میں منظر عام پر آیا اور اسے ماسکو کے ایک کلیسا کو منہدم کرکے بنانے کا ارادہ کیا گیا۔ اس کا خاکہ تیار کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایک مقابلہ رکھا گیا، جس میں دنیا بھر سے 272 آرکیٹیکٹس نے اپنے خیالات کو کاغذ پر وضع کیا اور اس مقابلے کے فاتح بورس لوفان رہے، جنھوں نے تجویز دی کہ مجوزہ فلک بوس شاہ کار کے او پر انقلاب روس کے نقیب لینن کا مجسمہ نصب کیا جائے۔
1937 میں اس منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہوا، جس میں بعد ازاں نازی جرمنی کا حملہ مخل ہوگیا۔ 1942 میں پیلس آف سوویت کا دھاتی ڈھانچا بھی اکھاڑ کر پلوں جیسی تنصیبات کی تعمیر میں استعمال کرلیا گیا، جب کہ 1995 سے2000 کے درمیان اسی مقام پر کلیسا کو دوبارہ تعمیر کردیا گیا۔
٭والکشیلے
جرمن زبان میں اس سے مراد ایک بہت بڑا گنبد یا لوگوں کی وسیع و عریض لوگوں کی مجمع گاہ ہے۔ یہ نازی ڈکٹیٹر اوڈلف ہٹلر کا ایک اہم ترین منصوبہ تھا، جس کے لیے ذمے داری البرٹ اسپیر نامی آرکیٹیکٹ کے سپرد کی گئی تھی اور اسے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں تعمیر کیا جانا تھا۔ اپنے محل وقوع اور رقبے کے اعتبار سے یہ برلن کے تعمیراتی شاہ کاروں میں مرکزی اہمیت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا تھا، لیکن اس کی تعمیر میں دوسری جنگ عظیم آڑے آگئی۔