ملک میں غیرقانونی جامعات کی تعداد قانونی یونیورسٹیوں سے بڑھ گئی

وفاقی وصوبائی حکومتوں کی بغیرمنظوری اورایچ ای سی سے غیرتسلیم شدہ جامعات وانسٹی ٹیوٹس کے کیمپس کی تعداد173تک جاپہنچی ہے


Safdar Rizvi May 28, 2015
چاروں صوبوں اورآزادجموں کشمیرمیں ایچ ای سی کی تسلیم شدہ جامعات اورانسٹی ٹیوٹس کی تعداد169ہے جس میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے شامل ہیں ۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت کی عدم توجہی کے سبب ملک میں کام کرنے والی غیرقانونی جامعات اوران کے کیمپسز کی تعدادقانونی جامعات اوران کے کیمپسز سے تجاوز کرگئی ہے اور چاروں صوبوں میں وفاقی وصوبائی حکومتوں کی بغیرمنظوری اورایچ ای سی سے غیرتسلیم شدہ جامعات وانسٹی ٹیوٹس کے کیمپس کی تعداد173تک جاپہنچی ہے جبکہ چاروں صوبوں اورآزادجموں کشمیرمیں ایچ ای سی کی تسلیم شدہ جامعات اورانسٹی ٹیوٹس کی تعداد169ہے جس میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے شامل ہیں ۔

'ایکسپریس'کوموصولہ تفصیلات کے مطابق ایچ ای سی کی منظوری کے بغیرکام کرنے والے یونیورسٹیوں کے کیمپسز لاہور، راولپنڈی،ملتان، ایبٹ آباد، پشاور، اسلام آباد، رحیم یارخان، سوات، چنو، آزادجموں کشمیرکے علاوہ دیگرشہروں میں بھی قائم ہیں۔ قابل ذکرامریہ ہے کہ ملک میں ایچ ای سی سے تسلیم شدہ سرکاری ونجی جامعات اورانسٹی ٹیوٹس کی تعداد169ہے جن میں 97سرکاری اور72غیرسرکاری ادارے ہیں، ان اداروں کے تسلیم شدہ کیمپسز کی تعداد 93ہے،سرکاری اداروں کے 65کیمپس اورنجی اداروں کے 28 کیمپس ہیں جبکہ متعدد اداروں کے کیمپس این اوسی کے بغیرہی کام کررہے ہیں۔ یادرہے کہ ڈاکٹرعطا الرحمن اورڈاکٹرلغاری کے دورمیں اس سلسلے میں ایچ ای سی کی جانب سے باقاعدہ طورپرعوامی آگاہی مہم چلائی گئی تھی۔

ایچ ای سی سے تسلیم شدہ سرکاری تعلیمی اداروں میں وفاق میں24، پنجاب میں24، سندھ میں19، خیبرپختونخوا میں19، بلوچستان میں 6اورآزاد جموں کشمیرمیں5ادارے شامل ہیں جبکہ تسلیم شدہ غیرسرکاری جامعات وانسٹی ٹیوٹس میں وفاق میں6، پنجاب میں24، سندھ میں29، خیبرپختونخوامیں10، بلوچستان میں ایک اورکشمیرمیں 2ادارے ہیں۔ 'ایکسپریس'کے رابطہ کرنے پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرمختاراحمد کاکہناہے کہ ایچ ای سی نے اس معاملے پرتمام متعلقہ اداروں کونوٹس جاری کردیے ہیں اوران سے کہاگیاہے کہ وہ3 ماہ کے اندراپنے کیمپس کوقانونی دائرے میں لے آئیں اس حوالے سے کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں