چوڑیاں
رنگ باتیں کرتے ہیں، ہاتھ بول اٹھتے ہیں.
ن م راشد نے کہا تھا ''ہاتھ بول اُٹھتے ہیں۔۔۔۔۔'' یہ ذکر تو ستم زدوں کے ہاتھوں کا ہے، جو ظلم کے خلاف وقت کی آواز بن کر اٹھتے ہیں تو ظالموں کے گَلوں اور گریبانوں کی خیر نہی رہتی۔
مگر محنت کی مشقت سے سخت اور کُھردرے ہوجانے والے ہاتھوں کی بابت تخلیق کی جانے والی یہ ادھوری لائن راشد کی مشہورِ زمانہ اور دلوں کو گرماتی نظم ''زندگی سے ڈرتے ہو'' سے ''چُرا'' کر ہم نے اسے نرم ونازک ہاتھوں کی باتوں کا عنوان کردیا ہے۔
وہ ہاتھ، جن کی نزاکت اور نرماہٹ کو چوڑیوں کی صورت رنگ کے دائرے اپنے حصار میں لیتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے کسی نے باروں مہینے کے چندرما دھنک میں ڈبوکر پہن لیے ہوں۔ کومل کلائیوں کی جنبش سے جب کانچ کے گھیرے آپس میں ٹکراتے ہیں تو سماعتوں میں سُر کھنک اٹھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے رنگ بول اٹھے ہوں، ہاتھ باتیں کر رہے ہوں۔