ایک خوفناک منصوبہ
مغربی دنیا کے بے پناہ دباو اور اندرونی سازشوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
وائٹ ہاوس کی فلک بوس عمارت میں آج ہلچل مچی ہوئی تھی ۔۔۔ امریکی صدر سے لیکر ایک عام آدمی بھی متفکّر دکھائی دے رہا تھا۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ اگر ایسا ہوگیا تو مہذّب دنیا (مغربی دنیا) کا کیا ہوگا؟ اِس طرح تو اِس سرزمین پر رہنے والے کروڑوں انسانوں اور حیوانوں کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی! ان جاہل، اْجڈ اور گنواروں کے ہاتھ میں اگر یہ طاقت آگئی تو وہ اس دنیا کو ختم کرکے ہی دم لیں گے ۔۔۔ یہ اور اِس قسم کے ڈھیروں سوالات نے روشن خیالوں کے دل و دماغ میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔
وائٹ ہاوس کے اندر امریکی صدر کمر پر ہاتھ باندھے انتہائی بے چینی کے عالم میں، کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ پاس ہی وزیر داخلہ اور چند مزید اہم شخصیات مودبانہ انداز میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ امریکی صدر کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ وہ زیر لب بڑ بڑا رہے تھے، ''یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔۔۔ ایک بار پھر بات کرکے دیکھو''۔ اب کی بار وہ وزیر داخلہ سے مخاطب ہوئے، لیکن ایک بار پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
''سر! وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اُس کے عزائم انتہائی خطرناک ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے وہ ۔۔۔'' وزیر داخلہ بات پوری ہی نہیں کرسکا۔ ''سر! اسرائیل سے فون ہے''، امریکی صدر اب اس جانب متوجہ ہوگئے۔
1998ء میں بھارت نے پوکھران (راجستھان) کے صحرا میں ایٹمی دھماکا کیا تو رعونت وتکبر سے مست اس گیدڑ نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردی۔ فوج اس کی سرحدوں پر آگئی۔ قریب تھا کہ بھارت حملہ کردیتا مگر اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ہر پاکستانی کا دل لرز رہا تھا۔ لبوں پر ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟ مگر خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کے چند روز بعد پاکستان نے چاغی کے بلند وبالا پہاڑوں میں اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کے منہ پر گویا طمانچہ رسید کردیا۔ حیرت کے مارے ہکا بکا بھارت کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس درجے تک پہنچ جائے گی۔
مغربی دنیا کے بے پناہ دبائو اور اندرونی سازشوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ سازشوں کے اس جال میں یہ انہونی معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کے یوں ''اچانک'' اتنی بڑی ایٹمی طاقت بن جانا مغربی دنیا کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ پوری مغربی دنیا میں بھونچال ساآگیا۔
اسرائیل تو اس سے پہلے ایک خوفناک منصوبہ بناچکا تھا جو اگر کامیاب ہوجاتا تو اس وقت پاکستان ۔۔۔ خاکم بدہن ۔۔۔ دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا۔ پاکستان کے محافظ اچھی طرح جانتے تھے کہ دشمن کبھی بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو 7 جون 1981ء میں اس وقت تباہی سے دوچار کیا جب محافظوں کی ایک شفٹ اپنی ڈیوٹی ختم کرکے جارہی تھی اور دوسری شفٹ والے ابھی اپنی ڈیوٹیاں نہ سنبھالنے پائے تھے کہ درمیانی وقفے کا ٹھیک ٹھیک وقت معلوم کرکے اسرائیلی طیاروں نے ایسا اچانک اور بھرپور حملہ کیا کہ سب کچھ ملیامیٹ ہوگیا۔ ساتھ ہی وہ اِس منصوبے کو شروع کرنے والا نامور سائنس دان بھی اللہ کو پیارا ہوگیا اورعراق اس میدان میں بہت پیچھے چلا گیا۔ ایسا ہی ایک کھیل اسرائیل پاکستان کے ساتھ بھی کھیلنا چاہتا تھا۔
ایٹمی دھماکے سے چند روز پہلے سعودی عرب کے''اواکس'' (Awacs) طیاروں نے اسرائیلی جہازوں کے 6 اسکواڈرنز کو بھارت کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس وقت کی کشیدگی اور حالات کے ''سیاق وسباق'' میں سعودی فضائیہ کو یہ صورت حال بڑی عجیب وغریب اور معنی خیز معلوم ہوئی۔ چنانچہ سعودی عرب نے روایتی دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس سے مطلع کرنا اپنا فرض سمجھا۔ یہیں سے معاملہ اسرائیل کی مخالفت میں چلا گیا۔ حکومت پاکستان معاملے کو بھانپ گئی۔ مواصلاتی سیٹلائٹ کے ذریعے اسرائیلی طیاروں کی نقل وحرکت کی مانیٹرنگ شروع کردی۔
رات 12 بجے کے قریب بھارتی سفیر سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو بہانہ تراشا گیا کہ وہ کہیں ''گئے'' ہوئے ہیں۔ دوسری دفعہ فون کیا تو معلوم ہوا کہ جناب ''سورہے'' ہیں۔ اصرار کرکے جب جگایا گیا اور بھارت میں اسرائیلی طیاروں کی مصروفیات کا سبب پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ وہ کل سویرے اپنی حکومت سے صورت حال معلوم کرکے جواب دیں گے۔ پاکستانی حکام نے اس گول مول جواب پر سرتسلیم خم کرنے کے بجائے اسے غیر تسلی بخش پاکر سفیر کو فوراً دفتر خارجہ طلب کیا اور اسے پاکستان کے بے حد قریب ایک ایئربیس پر ان کی موجودگی کی فلم دکھائی۔ انہوں نے اسے بھارتی طیارے ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ بے سود ثابت ہوئیں۔
پاکستانی حکام نے واضح طور پر کہا، ''یہ طیارے بھارت کے خرید کردہ نہیں ہیں، اسرائیل ہی کے ہیں جو کل یہاں پہنچے ہیں۔'' اور ساتھ ہی یہ بھی کہا: ''اپنی حکومت کو ہمارا یہ انتباہ پہنچادیں کہ اگر بھارت نے اِس موقع پر کسی قسم کی مہم جوئی کی کوشش کی تو ان طیاروں کے پاکستان کی طرف بڑھنے سے پہلے بھارت کو عبرت ناک سبق سکھایا جائے گا''، چنانچہ جب بھارت کو اس تشویش سے آگاہ کیا گیا تو اسرائیل کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔
اگر اس وقت پاکستان کے جری مجاہد اپنے گردو پیش پر گہری نظر نہ رکھتے تو انہیں شدید قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا اور وہی ہوتا جو عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے اگلے روز سات ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا پر پاکستان نے اپنی افادیت کو واضح کردیا اور بتادیا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں اور پاکستان پر اپنی غلیظ نگاہیں جمانے والا بھارت کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے لگے۔ واقعی قوم کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت بھارت کی ریشہ دوانیوں کا بھرپور جواب دیا اور پاکستانی قوم کے جذبے کو مہمیز بخشی۔ امریکا واسرائیل اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد پیرس کی ''ساربون یونیورسٹی'' میں ممتاز یہودیوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ''بین الاقوامی صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈیالوجیکل (نظریاتی) جواب ہے۔ پاکستان کا ذہنی وفکری سرمایہ اور جنگی وعسکری قوت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے مصیبت بن سکتی ہے۔ ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفید بھی ہے۔ ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہیے
امریکی کونسل فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیر اہتمام چھپنے والی ایک کتاب ''مشرقی وسطیٰ: سیاست اور عسکری وسعت'' میں پاکستان کی مسلح افواج اورسول ایڈمنسٹریشن کے کردار کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے، ''پاکستان کی مسلح افواج نظریہ پاکستان، اس کے اتحاد وسالمیت اور استحکام کی ضامن بنی ہوئی ہیں جبکہ ملک کی سول ایڈمنسٹریشن بالکل مغرب زدہ ہے اور نظریہ پاکستان پر یقین نہیں رکھتی۔''
ان تجزیوں کو پڑھ کر دکھ ہوتا ہے کہ دشمن ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں جبکہ ہمیں مال سمیٹنے سے فرصت نہیں۔ اس وقت ملک پاکستان انتہائی کڑے حالات سے گزررہا ہے۔ ایٹم بم بنا تو لیا ہے مگر اس کی حفاظت بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا، بھارت، اسرائیل اور روس پاکستان کی ایٹمی توانائی پر اپنی رال ٹپکا رہے ہیں لیکن دوسری طرف حکمرانوں کی بے حسی اپنی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اگر اس موقع پر بھی ہم نے فہم وفراست کو پس پشت ڈال کر حماقت پر تکیہ کیا تو یقین جانیے یہ ایٹم بم بھی ہمیں نہیں بچاسکتا۔ ہمیں خود کو پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری اور مہاجر کے خول سے نکل کر متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر روس، امریکا، بھارت اور اسرائیل چار مختلف مذاہب کے ملک عالم اسلام کے خلاف ایک ہوسکتے ہیں تو کیا ہم سندھی، پنجابی، بلوچی، مہاجر، پٹھان ایک نہیں ہوسکتے جب کہ ہمارا مذہب ایک ہے؟ ہمارا رسول اور ہماری کتاب ایک ہے تو پھر دلوں میں یہ تعصب کیوں؟ آپ اس پر ضرور سوچیے اور میں بھی سوچتا ہوں۔
[poll id="447"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وائٹ ہاوس کے اندر امریکی صدر کمر پر ہاتھ باندھے انتہائی بے چینی کے عالم میں، کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ پاس ہی وزیر داخلہ اور چند مزید اہم شخصیات مودبانہ انداز میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ امریکی صدر کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ وہ زیر لب بڑ بڑا رہے تھے، ''یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔۔۔ ایک بار پھر بات کرکے دیکھو''۔ اب کی بار وہ وزیر داخلہ سے مخاطب ہوئے، لیکن ایک بار پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
''سر! وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اُس کے عزائم انتہائی خطرناک ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے وہ ۔۔۔'' وزیر داخلہ بات پوری ہی نہیں کرسکا۔ ''سر! اسرائیل سے فون ہے''، امریکی صدر اب اس جانب متوجہ ہوگئے۔
1998ء میں بھارت نے پوکھران (راجستھان) کے صحرا میں ایٹمی دھماکا کیا تو رعونت وتکبر سے مست اس گیدڑ نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردی۔ فوج اس کی سرحدوں پر آگئی۔ قریب تھا کہ بھارت حملہ کردیتا مگر اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ہر پاکستانی کا دل لرز رہا تھا۔ لبوں پر ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟ مگر خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کے چند روز بعد پاکستان نے چاغی کے بلند وبالا پہاڑوں میں اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کے منہ پر گویا طمانچہ رسید کردیا۔ حیرت کے مارے ہکا بکا بھارت کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس درجے تک پہنچ جائے گی۔
مغربی دنیا کے بے پناہ دبائو اور اندرونی سازشوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ سازشوں کے اس جال میں یہ انہونی معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کے یوں ''اچانک'' اتنی بڑی ایٹمی طاقت بن جانا مغربی دنیا کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ پوری مغربی دنیا میں بھونچال ساآگیا۔
اسرائیل تو اس سے پہلے ایک خوفناک منصوبہ بناچکا تھا جو اگر کامیاب ہوجاتا تو اس وقت پاکستان ۔۔۔ خاکم بدہن ۔۔۔ دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا۔ پاکستان کے محافظ اچھی طرح جانتے تھے کہ دشمن کبھی بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو 7 جون 1981ء میں اس وقت تباہی سے دوچار کیا جب محافظوں کی ایک شفٹ اپنی ڈیوٹی ختم کرکے جارہی تھی اور دوسری شفٹ والے ابھی اپنی ڈیوٹیاں نہ سنبھالنے پائے تھے کہ درمیانی وقفے کا ٹھیک ٹھیک وقت معلوم کرکے اسرائیلی طیاروں نے ایسا اچانک اور بھرپور حملہ کیا کہ سب کچھ ملیامیٹ ہوگیا۔ ساتھ ہی وہ اِس منصوبے کو شروع کرنے والا نامور سائنس دان بھی اللہ کو پیارا ہوگیا اورعراق اس میدان میں بہت پیچھے چلا گیا۔ ایسا ہی ایک کھیل اسرائیل پاکستان کے ساتھ بھی کھیلنا چاہتا تھا۔
ایٹمی دھماکے سے چند روز پہلے سعودی عرب کے''اواکس'' (Awacs) طیاروں نے اسرائیلی جہازوں کے 6 اسکواڈرنز کو بھارت کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس وقت کی کشیدگی اور حالات کے ''سیاق وسباق'' میں سعودی فضائیہ کو یہ صورت حال بڑی عجیب وغریب اور معنی خیز معلوم ہوئی۔ چنانچہ سعودی عرب نے روایتی دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس سے مطلع کرنا اپنا فرض سمجھا۔ یہیں سے معاملہ اسرائیل کی مخالفت میں چلا گیا۔ حکومت پاکستان معاملے کو بھانپ گئی۔ مواصلاتی سیٹلائٹ کے ذریعے اسرائیلی طیاروں کی نقل وحرکت کی مانیٹرنگ شروع کردی۔
رات 12 بجے کے قریب بھارتی سفیر سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو بہانہ تراشا گیا کہ وہ کہیں ''گئے'' ہوئے ہیں۔ دوسری دفعہ فون کیا تو معلوم ہوا کہ جناب ''سورہے'' ہیں۔ اصرار کرکے جب جگایا گیا اور بھارت میں اسرائیلی طیاروں کی مصروفیات کا سبب پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ وہ کل سویرے اپنی حکومت سے صورت حال معلوم کرکے جواب دیں گے۔ پاکستانی حکام نے اس گول مول جواب پر سرتسلیم خم کرنے کے بجائے اسے غیر تسلی بخش پاکر سفیر کو فوراً دفتر خارجہ طلب کیا اور اسے پاکستان کے بے حد قریب ایک ایئربیس پر ان کی موجودگی کی فلم دکھائی۔ انہوں نے اسے بھارتی طیارے ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ بے سود ثابت ہوئیں۔
پاکستانی حکام نے واضح طور پر کہا، ''یہ طیارے بھارت کے خرید کردہ نہیں ہیں، اسرائیل ہی کے ہیں جو کل یہاں پہنچے ہیں۔'' اور ساتھ ہی یہ بھی کہا: ''اپنی حکومت کو ہمارا یہ انتباہ پہنچادیں کہ اگر بھارت نے اِس موقع پر کسی قسم کی مہم جوئی کی کوشش کی تو ان طیاروں کے پاکستان کی طرف بڑھنے سے پہلے بھارت کو عبرت ناک سبق سکھایا جائے گا''، چنانچہ جب بھارت کو اس تشویش سے آگاہ کیا گیا تو اسرائیل کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔
اگر اس وقت پاکستان کے جری مجاہد اپنے گردو پیش پر گہری نظر نہ رکھتے تو انہیں شدید قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا اور وہی ہوتا جو عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے اگلے روز سات ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا پر پاکستان نے اپنی افادیت کو واضح کردیا اور بتادیا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں اور پاکستان پر اپنی غلیظ نگاہیں جمانے والا بھارت کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے لگے۔ واقعی قوم کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت بھارت کی ریشہ دوانیوں کا بھرپور جواب دیا اور پاکستانی قوم کے جذبے کو مہمیز بخشی۔ امریکا واسرائیل اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد پیرس کی ''ساربون یونیورسٹی'' میں ممتاز یہودیوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ''بین الاقوامی صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈیالوجیکل (نظریاتی) جواب ہے۔ پاکستان کا ذہنی وفکری سرمایہ اور جنگی وعسکری قوت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے مصیبت بن سکتی ہے۔ ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفید بھی ہے۔ ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہیے
امریکی کونسل فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیر اہتمام چھپنے والی ایک کتاب ''مشرقی وسطیٰ: سیاست اور عسکری وسعت'' میں پاکستان کی مسلح افواج اورسول ایڈمنسٹریشن کے کردار کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے، ''پاکستان کی مسلح افواج نظریہ پاکستان، اس کے اتحاد وسالمیت اور استحکام کی ضامن بنی ہوئی ہیں جبکہ ملک کی سول ایڈمنسٹریشن بالکل مغرب زدہ ہے اور نظریہ پاکستان پر یقین نہیں رکھتی۔''
ان تجزیوں کو پڑھ کر دکھ ہوتا ہے کہ دشمن ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں جبکہ ہمیں مال سمیٹنے سے فرصت نہیں۔ اس وقت ملک پاکستان انتہائی کڑے حالات سے گزررہا ہے۔ ایٹم بم بنا تو لیا ہے مگر اس کی حفاظت بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا، بھارت، اسرائیل اور روس پاکستان کی ایٹمی توانائی پر اپنی رال ٹپکا رہے ہیں لیکن دوسری طرف حکمرانوں کی بے حسی اپنی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اگر اس موقع پر بھی ہم نے فہم وفراست کو پس پشت ڈال کر حماقت پر تکیہ کیا تو یقین جانیے یہ ایٹم بم بھی ہمیں نہیں بچاسکتا۔ ہمیں خود کو پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری اور مہاجر کے خول سے نکل کر متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر روس، امریکا، بھارت اور اسرائیل چار مختلف مذاہب کے ملک عالم اسلام کے خلاف ایک ہوسکتے ہیں تو کیا ہم سندھی، پنجابی، بلوچی، مہاجر، پٹھان ایک نہیں ہوسکتے جب کہ ہمارا مذہب ایک ہے؟ ہمارا رسول اور ہماری کتاب ایک ہے تو پھر دلوں میں یہ تعصب کیوں؟ آپ اس پر ضرور سوچیے اور میں بھی سوچتا ہوں۔
[poll id="447"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس