خیبرپختونخواہ میں امن قائم کیوں نہیں ہورہا چند زمینی حقائق
ہم پشاور سے کوسوں دور بیٹھ کرصرف میڈیا کے ذریعے ہی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں اب چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں اور باصلاحیت و بہادر لوگوں سے نوازا ہے، اِن تمام خصوصیات سے بڑھ کر یہاں کے لوگوں کے بارے میں اگر کہا جائے کہ یہ پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں تو غلط نہ ہوگا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 11 سال سے حالت جنگ میں رہنے کے باوجود کسی ایک بھی پاکستان مخالف تحریک نے جنم نہیں لیا، اِس سے بڑھ کر وہاں کے لوگوں کا اپنے وطن سے بے پناہ محبت اور اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی کے جذبے کا اظہار نہیں ہوسکتا۔
اگر خیبر پختونخوا کے محل وقوع کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ چاروں طرف سے قبائلی علاقوں سے گھرا ہوا ہے۔ جن شمالی و جنوبی وزیرستان، اوکرزئی ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی شامل ہیں اور تمام ہی ایجنسیوں میں مسلسل فوجی آپریشن جاری ہے تاکہ دہشت گردی کے ناسور سے نجات حال کی جائے۔ لیکن اِس میں وقتاً فوقتاً کمی تو آتی رہی ہے مگر بدقسمتی یہ کہ مستقل طور پر ختم نہیں ہوسکی۔
چند روز قبل خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور جانے کا اتفاق ہوا تو دوستوں کے ساتھ پشاور کی واحد شاہراہ کا دورہ کیا جو پورے پشاور کا احاطہ کرتی ہے۔ میں نے اپنے 2 دوستوں کے ساتھ جو وزیرستان سے جڑے ضلع کرک کے رہائشی ہیں اور صرف نوکری کی غرض سے گزشتہ 6 برسوں سے پشاور میں مقیم ہیں، کے ساتھ یونیورسٹی روڈ سے سفر کا آغاز کیا تو میرے دونوں دوست اپنے مخصوص پختون اندازمیں مجھے پشاور کے گزشتہ اور موجودہ حالات سے متعلق معلومات فراہم کرتے رہے۔ جب ہماری گاڑی پشاور کے پوش ترین علاقے حیات آباد میں داخل ہوئی تو میرے دونوں دوستوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ آج ہم بتاتے ہیں کہ پشاور میں امن نہ آنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ پہلے تو میں پریشان ہوا کہ ایک طرف پوری ریاست یہاں امن قائم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کررہی ہیں اور دوسری طرف یہ دونوں مجھے امن نہ آنے کی وجہ بتارہے ہیں۔ اگر یہ باتیں اِن کو معلوم ہیں تو پھر ریاست کو کیونکر نہیں معلوم؟ لیکن میں نے بہتری اِسی میں جانی کہ فی الحال اپنے خیالات کو دبائے رکھوں اور یہ جاننے کی کوشش کروں کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے جس کی وجہ سے امن اب تک قائم نہیں ہوسکا۔
ابھی میں یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں نے مجھے حیات آباد سے جڑے 'علاقہ غیر' کی باڑ دکھانا شروع کی جو ہم سے صرف 10 قدم دور تھی اور اِس باڑ کی اونچائی بمشکل 3 فٹ تھی۔ اِس باڑ کے بارے میں اُن دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی شخص چوری یا قتل کرکے اس باڑ کی دوسری جانب چلا جائے تو پولیس، ایف سی اور رینجرز اپنی جگہ پاک فوج بھی اس شخص کو نہیں پکڑ سکتی، کیونکہ وہاں جرگے کا نظام ہے اور وہاں کے فیصلے وہیں ہوتے ہیں۔
میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ باڑ کے اِس طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درجنوں اہلکار اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں اور باڑ کے اُس طرف بالکل اُن کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر اپنے ہی ملک میں موجود سیکیورٹی اداروں کے لئے ''نوگو ایریا'' میں دوکان پر چرس اور شراب سرِعام فروخت کی جاتی ہے۔ ابھی وہ یہ حالات بتا ہی رہے تھے یکدم مجھ سے سوال پوچھ لیا کہ سعید بھائی آپ ہی بتائیں کہ بھلا ان حالات میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ ابھی میں سوال کا جواب دینے کا سوچ ہی رھا تھا کہ اُنہوں نے مزید بتانا شروع کردیا کہ حیات آباد کے علاقے میں ہی بڑی بڑی نجی جامعات، کالجز، اسکول، ججز کالونی اور دیگر سرکاری دفاتر واقع ہیں، لیکن اِس کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اس شہر کے لوگوں کو 'علاقہ غیر' کے جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا یہ معاملہ صرف یہاں نہیں بلکہ اسی طرح کارخانوں، مارکیٹ کے ساتھ خیبر ایجنسی جب کہ متنی کے ساتھ ایف آر پشاور کا علاقہ لگتا ہے اور ان علاقوں میں بھی یہی صورت حال ہے تو پھر ایک عقل مند شخص باآسانی حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس تبدیلی کے لئے خیبر پختونخوا کی غیور عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیئے ہیں اگر وہ ہمارے اعتماد پر پورا نہ اتری تو پھر ایم ایم اے اور اے این پی کی حکومتوں کا حال ان کے سامنے ہے لہذا حکومت کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت اور کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور عوام کی بہتری کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جائے کیونکہ ہم اُن کا ہر فیصلہ قبول کرسکتے ہیں لیکن اگر کسی نے ہماری روایات پر حملہ کیا تو وہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جب پشاور سے واپس اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا تو پورے راستے ذہن میں ایک ہی خیال بار بار گردش کرتا رہا کہ کیا واقعی صورت حال ایسی ہی ہے جیسی مجھے ان دوستوں نے بتائی۔ اور اگر ایسی ہی ہے تو پھر تبدیلی کا نعرہ لگانے والے روزانہ ٹی وی شوز میں خیبر پختونخوا کے حوالے سے اپنی بہترین کارکردگی کا جو گن گاتے ہیں اور ہمیں سبز باغ دکھاتے ہیں وہ کیا ہے؟
ہم پشاور سے کوسوں دور بیٹھ کر تو صرف میڈیا کے ذریعے ہی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں اب چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ ابھی میں سوچوں میں گم ہی تھا کہ ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی اور جب میں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے، گاڑی سے اترتے ہی میری نظر مارگلہ کی پہاڑیوں پر پڑی اور پھر میرے ذہن میں یکدم خیبر ایجنسی کا وہ علاقہ آگیا جسے میں چند گھنٹے قبل ہی دیکھ کر آیا تھا، بس ایک چیز جو مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی وہ یہ کہ اگر حکومت شمالی و جنوبی وزیرستان میں زمینی آپریشن کرسکتی ہے، خیبر ایجنسی میں فضائی آپریشن کیا جا سکتا ہے اور پشاور میں سرچ آپریشن کیا جاسکتا ہے تو خیبر پختونخوا کے صدر مقام کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی ایسا اقدام کیوں نہیں اُٹھا سکتی جس سے نہ جرائم پیشہ افراد پشاور میں داخل ہوسکیں اور نہ ہی پشاور سے کوئی شخص جرم کرکے اُس علاقہ غیر میں پناہ حاصل کرنے کا سوچ سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر خیبر پختونخوا کے محل وقوع کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ چاروں طرف سے قبائلی علاقوں سے گھرا ہوا ہے۔ جن شمالی و جنوبی وزیرستان، اوکرزئی ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی شامل ہیں اور تمام ہی ایجنسیوں میں مسلسل فوجی آپریشن جاری ہے تاکہ دہشت گردی کے ناسور سے نجات حال کی جائے۔ لیکن اِس میں وقتاً فوقتاً کمی تو آتی رہی ہے مگر بدقسمتی یہ کہ مستقل طور پر ختم نہیں ہوسکی۔
چند روز قبل خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور جانے کا اتفاق ہوا تو دوستوں کے ساتھ پشاور کی واحد شاہراہ کا دورہ کیا جو پورے پشاور کا احاطہ کرتی ہے۔ میں نے اپنے 2 دوستوں کے ساتھ جو وزیرستان سے جڑے ضلع کرک کے رہائشی ہیں اور صرف نوکری کی غرض سے گزشتہ 6 برسوں سے پشاور میں مقیم ہیں، کے ساتھ یونیورسٹی روڈ سے سفر کا آغاز کیا تو میرے دونوں دوست اپنے مخصوص پختون اندازمیں مجھے پشاور کے گزشتہ اور موجودہ حالات سے متعلق معلومات فراہم کرتے رہے۔ جب ہماری گاڑی پشاور کے پوش ترین علاقے حیات آباد میں داخل ہوئی تو میرے دونوں دوستوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ آج ہم بتاتے ہیں کہ پشاور میں امن نہ آنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ پہلے تو میں پریشان ہوا کہ ایک طرف پوری ریاست یہاں امن قائم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کررہی ہیں اور دوسری طرف یہ دونوں مجھے امن نہ آنے کی وجہ بتارہے ہیں۔ اگر یہ باتیں اِن کو معلوم ہیں تو پھر ریاست کو کیونکر نہیں معلوم؟ لیکن میں نے بہتری اِسی میں جانی کہ فی الحال اپنے خیالات کو دبائے رکھوں اور یہ جاننے کی کوشش کروں کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے جس کی وجہ سے امن اب تک قائم نہیں ہوسکا۔
ابھی میں یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں نے مجھے حیات آباد سے جڑے 'علاقہ غیر' کی باڑ دکھانا شروع کی جو ہم سے صرف 10 قدم دور تھی اور اِس باڑ کی اونچائی بمشکل 3 فٹ تھی۔ اِس باڑ کے بارے میں اُن دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی شخص چوری یا قتل کرکے اس باڑ کی دوسری جانب چلا جائے تو پولیس، ایف سی اور رینجرز اپنی جگہ پاک فوج بھی اس شخص کو نہیں پکڑ سکتی، کیونکہ وہاں جرگے کا نظام ہے اور وہاں کے فیصلے وہیں ہوتے ہیں۔
میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ باڑ کے اِس طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درجنوں اہلکار اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں اور باڑ کے اُس طرف بالکل اُن کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر اپنے ہی ملک میں موجود سیکیورٹی اداروں کے لئے ''نوگو ایریا'' میں دوکان پر چرس اور شراب سرِعام فروخت کی جاتی ہے۔ ابھی وہ یہ حالات بتا ہی رہے تھے یکدم مجھ سے سوال پوچھ لیا کہ سعید بھائی آپ ہی بتائیں کہ بھلا ان حالات میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ ابھی میں سوال کا جواب دینے کا سوچ ہی رھا تھا کہ اُنہوں نے مزید بتانا شروع کردیا کہ حیات آباد کے علاقے میں ہی بڑی بڑی نجی جامعات، کالجز، اسکول، ججز کالونی اور دیگر سرکاری دفاتر واقع ہیں، لیکن اِس کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اس شہر کے لوگوں کو 'علاقہ غیر' کے جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا یہ معاملہ صرف یہاں نہیں بلکہ اسی طرح کارخانوں، مارکیٹ کے ساتھ خیبر ایجنسی جب کہ متنی کے ساتھ ایف آر پشاور کا علاقہ لگتا ہے اور ان علاقوں میں بھی یہی صورت حال ہے تو پھر ایک عقل مند شخص باآسانی حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس تبدیلی کے لئے خیبر پختونخوا کی غیور عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیئے ہیں اگر وہ ہمارے اعتماد پر پورا نہ اتری تو پھر ایم ایم اے اور اے این پی کی حکومتوں کا حال ان کے سامنے ہے لہذا حکومت کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت اور کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور عوام کی بہتری کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جائے کیونکہ ہم اُن کا ہر فیصلہ قبول کرسکتے ہیں لیکن اگر کسی نے ہماری روایات پر حملہ کیا تو وہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جب پشاور سے واپس اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا تو پورے راستے ذہن میں ایک ہی خیال بار بار گردش کرتا رہا کہ کیا واقعی صورت حال ایسی ہی ہے جیسی مجھے ان دوستوں نے بتائی۔ اور اگر ایسی ہی ہے تو پھر تبدیلی کا نعرہ لگانے والے روزانہ ٹی وی شوز میں خیبر پختونخوا کے حوالے سے اپنی بہترین کارکردگی کا جو گن گاتے ہیں اور ہمیں سبز باغ دکھاتے ہیں وہ کیا ہے؟
ہم پشاور سے کوسوں دور بیٹھ کر تو صرف میڈیا کے ذریعے ہی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں اب چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ ابھی میں سوچوں میں گم ہی تھا کہ ڈرائیور نے اچانک بریک لگائی اور جب میں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے، گاڑی سے اترتے ہی میری نظر مارگلہ کی پہاڑیوں پر پڑی اور پھر میرے ذہن میں یکدم خیبر ایجنسی کا وہ علاقہ آگیا جسے میں چند گھنٹے قبل ہی دیکھ کر آیا تھا، بس ایک چیز جو مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی وہ یہ کہ اگر حکومت شمالی و جنوبی وزیرستان میں زمینی آپریشن کرسکتی ہے، خیبر ایجنسی میں فضائی آپریشن کیا جا سکتا ہے اور پشاور میں سرچ آپریشن کیا جاسکتا ہے تو خیبر پختونخوا کے صدر مقام کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی ایسا اقدام کیوں نہیں اُٹھا سکتی جس سے نہ جرائم پیشہ افراد پشاور میں داخل ہوسکیں اور نہ ہی پشاور سے کوئی شخص جرم کرکے اُس علاقہ غیر میں پناہ حاصل کرنے کا سوچ سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس