صبر کا دامن
ایک ہفتے کے اندر پولیس تشدد کے تین ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ پورا ملک صورت سوال بنا ہوا ہے۔
ایک ہفتے کے اندر پولیس تشدد کے تین ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ پورا ملک صورت سوال بنا ہوا ہے۔ کراچی میں دو نوجوانوں کو پولیس نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ انھیں موٹر سائیکل روکنے کا حکم دیا گیا لیکن وہ رکے نہیں۔ بس ان مقتولوں کا یہی جرم تھا جس پر انھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ متعلقہ پولیس اہلکاروں نے کہا کہ ''ہم سے غلطی ہو گئی، ہمیں ہوائی فائرنگ کرنی چاہیے تھی۔'' پولیس اہلکاروں پر یہ الزام عام ہے کہ وہ مطلوبہ لوگوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں اور چند دن کے لیے انھیں اپنی تحویل میں رکھ کر جعلی اِین کاؤنٹر میں ماردیتے ہیں۔
اب تک بے شمار شہری ''پولیس مقابلے'' میں مارے جا چکے ہیں۔ جب کسی کو گھر سے اٹھایا جاتا ہے، یعنی گرفتار کیا جاتا ہے تو گھر کی تلاشی اور گرفتاری کے وارنٹ دکھائے جاتے ہیں، بغیر وارنٹ گرفتاری کو مہذب دنیا ایک خلاف قانون اور وحشیانہ فعل گردانتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ کلچر عام ہے کہ پولیس اہلکار رات کے اندھیرے میں دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور مطلوب و غیر مطلوب اشخاص کو گردنوں سے پکڑ کر اور گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہیں اہل خانہ چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں کہ گرفتار کرنے کی وجہ کیا ہے اور انھیں کہاں لے جایا جا رہا ہے لیکن ان معقول اخلاقی اور قانونی سوالوں کا پولیس اہلکاروں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گرد ٹارگٹ کلرز اور دوسرے سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کی گرفتاری ضروری ہے لیکن قانون میں گرفتاری کی وجوہات بتانا ضروری ہے تا کہ گرفتار کیے جانے والے شخص کے اہل خانہ کو علم ہو سکے کہ ان کے بندے کو کس جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے اور کہاں لے جایا جا رہا ہے۔
ان قانونی تقاضوں کا ہماری پولیس ڈکشنری میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم کرنے والے کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوتے اور عموماً پولیس کو دیکھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ عوام پولیس سے اس قدر خوفزدہ رہتے ہیں کہ پولیس کے اشارے پر رکنے کے بجائے فرار کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی خوف ان کی جان جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ اگر کوئی فرد یا افراد پولیس کی وارننگ کے باوجود نہیں رکتے تو ان کی ٹانگوں، ان کی موٹرسائیکل کے ٹائروں پر گولیاں ماری جا سکتی ہیں ہوائی فائرنگ کر کے انھیں خوفزدہ کیا جا سکتا ہے لیکن گولیاں سروں اور سینوں پر ماری جاتی ہیں اور سنگین جرم کا ازالہ ''غلطی ہوگئی'' کہہ کر نہیں کیا جا سکتا۔
پولیس اہلکاروں کی من مانیوں اور غیر قانونی اقدامات کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر پولیس اہلکار سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف کوئی کامیاب کارروائی کرتے ہیں تو اعلیٰ افسران ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بھاری رقومات کے انعامات کا اعلان کرتے ہیں۔
ان انعامات کے حصول کی خواہش میں پولیس اہلکار قانونی حدود سے تجاوز کر کے کارروائیاں کرتے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور یہ استعمال پولیس اہلکاروں کو بے لگام کر دیتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ہماری پولیس اور دوسری سیکیورٹی فورسز کی تربیت نوآبادیاتی دور کی ہے نوآبادیاتی حکمران اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پولیس کو خادم کے بجائے حاکم بنا کر رکھتے تھے۔ آزادی کے بعد اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے حکمران طبقے کے مفادات کا بھی یہی تقاضا تھا کہ وہ پولیس کو عوام کی خادم کے بجائے حاکم بنا کر رکھے سو اس حکمرانی مفادات نے بھی پولیس کو بے لگام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
کراچی میں دوسرا واقعہ سندھ ہائی کورٹ کے باہر پیش آیا۔ ذوالفقار مرزا اپنی پیشی کے سلسلے میں ہائی کورٹ تشریف لائے تو میڈیا ان کی کوریج میں مصروف ہو گیا، جو اس کی پیشہ ورانہ ذمے داری ہے لیکن پولیس اہلکار اس قسم کی کوریج کے ہمیشہ اس لیے خلاف ہوتے ہیں کہ صحافیوں کے کیمروں میں ان کی ''اعلیٰ کارکردگی'' محفوظ ہو جاتی ہے۔
سو سندھ ہائی کورٹ کے باہر جب صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں پوری کر رہے تھے تو ہماری بہادر پولیس ان پر ٹوٹ پڑی اور خوفزدہ صحافیوں کو زمین پر گرا کر گھونسوں، لاتوں اور ڈنڈوں کا جو وحشیانہ استعمال کیا گیا اسے اس ملک کے عوام اور خواص نے دیکھا۔ اس کارخیر میں حصہ لینے والوں میں کمانڈو فورس بھی شامل تھی جو اپنے چہروں پر کالے نقاب ڈالے ہوئے تھی۔ کمانڈو فورس عموماً دہشت گردوں اور خطرناک مجرموں کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں اس فورس کو کیوں طلب کیا گیا؟ کیا اس کو طلب کرنے کا مقصد صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے روکنا تھا؟ عوام یقینا اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ صحافی جیسے مہذب پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں کیا گیا؟
تیسرا وحشیانہ واقعہ پنجاب کے شہر ڈسکہ میں پیش آیا جہاں وکلا پُر امن احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس اور وکلا میں کسی مسئلے پر تلخ کلامی ہو گئی اور یہ بات اتنی بڑھی کہ تھانیدار نے وکلا پر فائر کھول دیا۔ اس اندھا دھند فائرنگ سے دو وکلا جن میں ڈسکہ بار کے صدر بھی شامل ہیں جاں بحق ہو گئے اور کئی وکلا زخمی ہو گئے ۔
یہ سانحہ اس قدر سنگین تھا کہ پنجاب بھر میں وکلا برادری سڑکوں پر نکل آئی۔ لاہور میں بھی وکلا نے دو وکیلوں کے قتل کے خلاف احتجاجی مارچ کیا اور سڑکیں بلاک کر دیں۔ یہ ردعمل فطری تھا، لیکن مشتعل وکلا کے اشتعال میں جب عوامی اشتعال شامل ہوا تو نتیجہ جلاؤ گھیراؤ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ وکلا کا پیشہ ایک مہذب پیشہ ہے اور وکیل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ وکلا جیسی اعتدال پسند مہذب اور قانون کی محافظ کمیونٹی کا اشتعال فطری تھا ان کے دو معزز ساتھیوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات تواتر سے پنجاب میں پیش آ رہے ہیں اور ان کو سختی سے روکنے اور ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانے کے بجائے ان سنگین جرائم کی تحقیق کے لیے کمیٹیاں، کمیشن بنائے جاتے ہیں اور ملزموں کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی پولیس نے وحشیانہ انداز میں ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 14 معصوم افراد شہید ہو گئے۔ دو برس بعد پتہ چلا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے بااثر شخصیات کو بے قصور قرار دے دیا۔ اس رویے کی وجہ سے وکلا برادری کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔
لاہور، ڈسکہ، گوجرانوالہ وغیرہ میں عوام کا جو ردعمل تھا وہ محض دو وکلا کے قتل پر نہیں تھا بلکہ عوام کے دلوں میں برسوں، عشروں سے اشرافیہ کے مظالم کے خلاف اور پولیس کی زیادتیوں کے خلاف جو لاوا پک رہا تھا وہ لاوا باہر آ گیا تھا۔ جب یہ لاوا عوام کی اجتماعی طاقت میں بدل جاتا ہے تو وہی ہوتا ہے جو ہوا ہے اور ہوتا آ رہا ہے اسے قانون اور اخلاق کے ترازو میں تولنا احمقانہ روایت ہے۔ کیونکہ جب عوام صدیوں کے صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں تو قانون اور اخلاق کو نہیں دیکھتے۔