ضمیر کی موت اور پارٹی وفاداری
میرا ووٹ میری پارٹی کی امانت تھی، اس لیے میں یہ ووٹ اسے دے رہا ہوں لیکن میرا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا
TEHRAN:
اٹھارویں ترمیم کے آئینی مراحل سے جمہوری پارلیمانی آسمان پر چمکنے والے رضا ربانی کی ایک تقریر کو اس ملک کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے اِس طرح سراہا جیسے ان کی یہ تقریر ایتھنز کی جیوری کے سامنے سقراط کی تقریر کے ہم پلہ ہو۔ ان کی یہ تقریر فوجی عدالتوں پر لائی جانے والی آئینی ترمیم کے بارے میں تھی، جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ میں آج اپنی پوری سیاسی زندگی میں سب سے زیادہ شرمندہ اور غمزدہ ہوں۔
میرا ووٹ میری پارٹی کی امانت تھی، اس لیے میں یہ ووٹ اسے دے رہا ہوں لیکن میرا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جمہوری، پارلیمانی، سیکولر اور سیاسی پارٹیوں سے آراستہ اس نظام کا کمال یہ ہے کہ یہاں ضمیر ہمیشہ پارٹی، پارٹی لیڈر اور پارٹی مفادات کے سامنے شکست کھا جاتا ہے اور اس شکست کو جمہوری نظام کی فتح اور بالادستی کا نام دیا جاتا ہے اور جو شخص اس ضمیر کی موت کا اعلان کرتا ہے اسے عظیم رہنما اور جمہوریت کی مسند اعلیٰ پر سرفراز تصور کیا جاتا ہے۔
یہ پارٹی سسٹم اس جمہوری نظام کا کیوں جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے۔ پورے جمہوری نظام کو سیاسی پارٹیوں کا یرغمال کیوں بنایا جاتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ امریکا، برطانیہ، یورپ اور یہاں تک کہ بھارت تک اس جمہوری نظام میں سرگرم سیاسی پارٹیوں کے منشور اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو ان میں بہت کم نظریاتی فرق نظر آئے گا۔ جب کہ نظریاتی اساس پر قائم سیاسی پارٹیاں دنیا کے ان جمہوری ملکوں میں ایک کونے میں پڑی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن کا پرچم چند دیوانے اٹھائے پھرتے ہیں۔
تمام بڑی سیاسی پارٹیاں ایک طرح کے گروہ ہیں جو سرمایہ، قبیلہ برادری اور جتھے کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ سب کے منشور ایک جیسے ہوتے ہیں اور سب کے لیڈر بھی ایک طرح کے راگ الاپتے ہیں۔ مغربی ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک تصور بہت مضبوط ہوا ہے کہ کوئی اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں نہیں جا سکتا۔ شکست و فتح، دونوں صورتوں میں وہ سیاسی ورکر یا لیڈر پارٹی کے ساتھ منسلک رہتا ہے اور اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ انگلینڈ میں مشہور سیاسی رہنما چرچل کی ایک مثال ایسی ہے جس نے اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنگِ عظیم دوئم کے ہنگاموں میں اس کی یہ حرکت نمایاں نہیں ہو سکی تھی۔
چھوٹے ملکوں کی جمہوریتوں میں تو پارٹی بدلنا شیروانی بدلنے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ جو کوئی پارٹی بدلتا ہے اس کے ساتھ یہ خبر بھی میڈیا نشر کرتا ہے کہ وہ اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت پارٹی میں شامل ہوا ہے۔ قبیلے، گروہ، جتھے اور برادری ان ملکوں میں مضبوط ہیں اور ان کا ملغوبہ ایک سیاسی پارٹی ہوتی ہے جو جمہوری نظام کو چلاتی ہے۔ دنیا بھر میں عموماً ہر ملک میں دو یا تین سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں جو میدان سیاست پر چھائی ہوتی ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی درجنوں پارٹیاں ہر ملک میں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک خاص طبقے، گروہ یا علاقے سے آگے نہیں بڑھتی۔
غیر سیاسی انتخاب، جمہوری نظام میں گالی کیوں ہے؟ آزاد امیدوار تھالی کا بینگن کیوں ہے؟ جیتنے کے بعد بھی وہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ اسے کوئی صاحبِ اقتدار پارٹی اپنا لے اور اس کا الیکشن میں جیتنا کام آ جائے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں لوگوں کی سیاسی تربیت کرتی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کی زندگی اور سیاست کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ایک سطحی سی شخصیت نظر آئے گا۔ کیا بارک اوباما، جارج بش، ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن، منموہن سنگھ، نریندر مودی، نواز شریف اور زرداری اعلیٰ سطح کے مفکرین تھے جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو سیاسی فکر اور سوچ عطا کی۔ ہر گز نہیں۔ وہ تو اس سیکولر سیاسی جمہوری پارلیمانی نظام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے روبوٹ تھے جن کی تمام تر صلاحیتیں اس حد تک محدود ہوتی ہیں جنھیں موجودہ کمپوٹر سسٹم کی زبان میں پروگرامڈ (Programmed) کہا جا سکتا ہے۔
اس سیکولر، جمہوری، سیاسی، پارلیمانی نظام کے بنائے گئے پروگرام کے باہر جس نے بھی سوچنے کی کوشش کی، موت اس کا مقدر بنا دی گئی۔ مصر کے صدر مرسی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ آپ ایک سیاسی پارٹی بنا کر، سیاسی جمہوری نظام کا حصہ بن کر اس کے حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی کوشش کر کے دیکھیں، آپ کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ اس لیے کہ یہ سیکولر، سیاسی، جمہوری نظام کارپوریٹ سرمائے نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ عوام کے لیے تجربہ گاہ نہیں بنایا۔ یہ نظام تو انھوں نے اپنے مفادات کے لیے تخلیق کیا ہے اور انھیں اس نظام کے چلا نے کے لیے سیاسی بونے چاہیں، جن کے نزدیک، ضمیر، اخلاق، سچ، اور اعلیٰ اقدار پر پارٹی مفادات مقدم اور محترم ہوں اور وہ ایسا کرنے کو جمہوریت کی بقا اور روح سمجھیں۔
دنیا بھر کی جمہوریتیں، سیاسی پارٹیوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس نظام کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے ان کے لیے ایک ایک فرد کو خریدنے کے بجائے پوری پارٹی کو خرید نا انتہائی آسان اور سہل ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں پارٹی فنڈنگ ایک ایسا تصور ہے جس کے تحت دنیا بھر کا سرمایہ دار اپنے کالے، نیلے پیلے اور سفید دھن کے تحفظ کے لیے اپنے سرمائے کا ایک حصہ ان سیاسی پارٹیوں کی نذر کرتا ہے۔
اربوں ڈالر ان پارٹیوں کے اکاؤنٹ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر اگر ان پارٹیوں کے پاس نہ ہوں تو کوئی الیکشن تو دور کی بات جمہوریت کے بارے میں سوچنے کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ہر ملک میں چند ہفتوں کے لیے الیکشن کا ایک خوبصورت میلہ سجتا ہے، اپنے اپنے ماحول کے مطابق جلسوں، ریلیوں، جلوسوں، رقص و سرود اور میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے ووٹ سے یہ حکومت بننے جا رہی ہے اور عوام ہی اصل طاقت ہیں جو سیاست دانوں کو حکمران بناتے ہیں۔
چند ہفتے عوام اس خوبصورت فریب میں مبتلا رہتے ہیں۔ کبھی ایک پارٹی اقتدار کی راہداریوں میں جاتی ہے اور کبھی دوسری۔ لیکن ان سب کے آقا، مربی، فنانسر اور ان کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب کوئی پارٹی مفادات، پارٹی ڈسپلن یا پارٹی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے تواسے غدار، جمہوریت دشمن، لوٹا، مفادات کا غلام قرار دیا جاتا ہے۔
پوری کی پوری پارٹی کو بیچ دیا جائے تو وہ عین جمہوریت، لیکن ایک فرد بکے تو یہ جمہوریت کی توہین ہوتی ہے۔ اس کی سب سے کریہہ مثال یہ ہے کہ امریکا کے سرمایہ داروں نے32 ہزار ارب ڈالر کیمن جزیر ے میں اس لیے رکھے ہیں تا کہ ٹیکس سے بچا جا سکے لیکن امریکی جمہوریت میں دونوں پارٹیوں کا کوئی ایک رکن بھی آواز بلند نہیں کرتا سب کے سب پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں اور یہی اس جمہوری، سیاسی، پارلیمانی نظام کا کمال ہے۔
اخلاق، اقدار، روایات، سچ، ضمیر اور دیانت صرف اور صرف عام آدمی کے لیے۔ بڑا آدمی ضمیر کی آواز پر ایک تقریر کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ وہ نہ سینیٹ کی نشست چھوڑتا ہے اور نہ ہی پارٹی۔ اسے اپنے ضمیر کی آواز کو سلانے کا یہ صلہ ملتا ہے کہ اس ملک کے دانشور اسے عظیم جمہوری رہنما کا لقب دیتے ہیں اور اس ملک کی دونوں پارٹیاں اسے سینیٹ کی چیئرمین شپ سے نواز دیتی ہیں۔ صرف ایک لمحے کو سوچئے اگر وہ ضمیر اور سچ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پارٹی سے اختلاف کرتا، پارٹی چھوڑ دیتا، سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیتا تو آج گمنامی کے اندھے کنویں میں اس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہوتا ۔
اٹھارویں ترمیم کے آئینی مراحل سے جمہوری پارلیمانی آسمان پر چمکنے والے رضا ربانی کی ایک تقریر کو اس ملک کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے اِس طرح سراہا جیسے ان کی یہ تقریر ایتھنز کی جیوری کے سامنے سقراط کی تقریر کے ہم پلہ ہو۔ ان کی یہ تقریر فوجی عدالتوں پر لائی جانے والی آئینی ترمیم کے بارے میں تھی، جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ میں آج اپنی پوری سیاسی زندگی میں سب سے زیادہ شرمندہ اور غمزدہ ہوں۔
میرا ووٹ میری پارٹی کی امانت تھی، اس لیے میں یہ ووٹ اسے دے رہا ہوں لیکن میرا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جمہوری، پارلیمانی، سیکولر اور سیاسی پارٹیوں سے آراستہ اس نظام کا کمال یہ ہے کہ یہاں ضمیر ہمیشہ پارٹی، پارٹی لیڈر اور پارٹی مفادات کے سامنے شکست کھا جاتا ہے اور اس شکست کو جمہوری نظام کی فتح اور بالادستی کا نام دیا جاتا ہے اور جو شخص اس ضمیر کی موت کا اعلان کرتا ہے اسے عظیم رہنما اور جمہوریت کی مسند اعلیٰ پر سرفراز تصور کیا جاتا ہے۔
یہ پارٹی سسٹم اس جمہوری نظام کا کیوں جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے۔ پورے جمہوری نظام کو سیاسی پارٹیوں کا یرغمال کیوں بنایا جاتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ امریکا، برطانیہ، یورپ اور یہاں تک کہ بھارت تک اس جمہوری نظام میں سرگرم سیاسی پارٹیوں کے منشور اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو ان میں بہت کم نظریاتی فرق نظر آئے گا۔ جب کہ نظریاتی اساس پر قائم سیاسی پارٹیاں دنیا کے ان جمہوری ملکوں میں ایک کونے میں پڑی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن کا پرچم چند دیوانے اٹھائے پھرتے ہیں۔
تمام بڑی سیاسی پارٹیاں ایک طرح کے گروہ ہیں جو سرمایہ، قبیلہ برادری اور جتھے کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ سب کے منشور ایک جیسے ہوتے ہیں اور سب کے لیڈر بھی ایک طرح کے راگ الاپتے ہیں۔ مغربی ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک تصور بہت مضبوط ہوا ہے کہ کوئی اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں نہیں جا سکتا۔ شکست و فتح، دونوں صورتوں میں وہ سیاسی ورکر یا لیڈر پارٹی کے ساتھ منسلک رہتا ہے اور اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ انگلینڈ میں مشہور سیاسی رہنما چرچل کی ایک مثال ایسی ہے جس نے اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنگِ عظیم دوئم کے ہنگاموں میں اس کی یہ حرکت نمایاں نہیں ہو سکی تھی۔
چھوٹے ملکوں کی جمہوریتوں میں تو پارٹی بدلنا شیروانی بدلنے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ جو کوئی پارٹی بدلتا ہے اس کے ساتھ یہ خبر بھی میڈیا نشر کرتا ہے کہ وہ اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت پارٹی میں شامل ہوا ہے۔ قبیلے، گروہ، جتھے اور برادری ان ملکوں میں مضبوط ہیں اور ان کا ملغوبہ ایک سیاسی پارٹی ہوتی ہے جو جمہوری نظام کو چلاتی ہے۔ دنیا بھر میں عموماً ہر ملک میں دو یا تین سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں جو میدان سیاست پر چھائی ہوتی ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی درجنوں پارٹیاں ہر ملک میں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک خاص طبقے، گروہ یا علاقے سے آگے نہیں بڑھتی۔
غیر سیاسی انتخاب، جمہوری نظام میں گالی کیوں ہے؟ آزاد امیدوار تھالی کا بینگن کیوں ہے؟ جیتنے کے بعد بھی وہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ اسے کوئی صاحبِ اقتدار پارٹی اپنا لے اور اس کا الیکشن میں جیتنا کام آ جائے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں لوگوں کی سیاسی تربیت کرتی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کی زندگی اور سیاست کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ایک سطحی سی شخصیت نظر آئے گا۔ کیا بارک اوباما، جارج بش، ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن، منموہن سنگھ، نریندر مودی، نواز شریف اور زرداری اعلیٰ سطح کے مفکرین تھے جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو سیاسی فکر اور سوچ عطا کی۔ ہر گز نہیں۔ وہ تو اس سیکولر سیاسی جمہوری پارلیمانی نظام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے روبوٹ تھے جن کی تمام تر صلاحیتیں اس حد تک محدود ہوتی ہیں جنھیں موجودہ کمپوٹر سسٹم کی زبان میں پروگرامڈ (Programmed) کہا جا سکتا ہے۔
اس سیکولر، جمہوری، سیاسی، پارلیمانی نظام کے بنائے گئے پروگرام کے باہر جس نے بھی سوچنے کی کوشش کی، موت اس کا مقدر بنا دی گئی۔ مصر کے صدر مرسی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ آپ ایک سیاسی پارٹی بنا کر، سیاسی جمہوری نظام کا حصہ بن کر اس کے حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی کوشش کر کے دیکھیں، آپ کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ اس لیے کہ یہ سیکولر، سیاسی، جمہوری نظام کارپوریٹ سرمائے نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ عوام کے لیے تجربہ گاہ نہیں بنایا۔ یہ نظام تو انھوں نے اپنے مفادات کے لیے تخلیق کیا ہے اور انھیں اس نظام کے چلا نے کے لیے سیاسی بونے چاہیں، جن کے نزدیک، ضمیر، اخلاق، سچ، اور اعلیٰ اقدار پر پارٹی مفادات مقدم اور محترم ہوں اور وہ ایسا کرنے کو جمہوریت کی بقا اور روح سمجھیں۔
دنیا بھر کی جمہوریتیں، سیاسی پارٹیوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس نظام کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے ان کے لیے ایک ایک فرد کو خریدنے کے بجائے پوری پارٹی کو خرید نا انتہائی آسان اور سہل ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں پارٹی فنڈنگ ایک ایسا تصور ہے جس کے تحت دنیا بھر کا سرمایہ دار اپنے کالے، نیلے پیلے اور سفید دھن کے تحفظ کے لیے اپنے سرمائے کا ایک حصہ ان سیاسی پارٹیوں کی نذر کرتا ہے۔
اربوں ڈالر ان پارٹیوں کے اکاؤنٹ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر اگر ان پارٹیوں کے پاس نہ ہوں تو کوئی الیکشن تو دور کی بات جمہوریت کے بارے میں سوچنے کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ہر ملک میں چند ہفتوں کے لیے الیکشن کا ایک خوبصورت میلہ سجتا ہے، اپنے اپنے ماحول کے مطابق جلسوں، ریلیوں، جلوسوں، رقص و سرود اور میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے ووٹ سے یہ حکومت بننے جا رہی ہے اور عوام ہی اصل طاقت ہیں جو سیاست دانوں کو حکمران بناتے ہیں۔
چند ہفتے عوام اس خوبصورت فریب میں مبتلا رہتے ہیں۔ کبھی ایک پارٹی اقتدار کی راہداریوں میں جاتی ہے اور کبھی دوسری۔ لیکن ان سب کے آقا، مربی، فنانسر اور ان کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب کوئی پارٹی مفادات، پارٹی ڈسپلن یا پارٹی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے تواسے غدار، جمہوریت دشمن، لوٹا، مفادات کا غلام قرار دیا جاتا ہے۔
پوری کی پوری پارٹی کو بیچ دیا جائے تو وہ عین جمہوریت، لیکن ایک فرد بکے تو یہ جمہوریت کی توہین ہوتی ہے۔ اس کی سب سے کریہہ مثال یہ ہے کہ امریکا کے سرمایہ داروں نے32 ہزار ارب ڈالر کیمن جزیر ے میں اس لیے رکھے ہیں تا کہ ٹیکس سے بچا جا سکے لیکن امریکی جمہوریت میں دونوں پارٹیوں کا کوئی ایک رکن بھی آواز بلند نہیں کرتا سب کے سب پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں اور یہی اس جمہوری، سیاسی، پارلیمانی نظام کا کمال ہے۔
اخلاق، اقدار، روایات، سچ، ضمیر اور دیانت صرف اور صرف عام آدمی کے لیے۔ بڑا آدمی ضمیر کی آواز پر ایک تقریر کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ وہ نہ سینیٹ کی نشست چھوڑتا ہے اور نہ ہی پارٹی۔ اسے اپنے ضمیر کی آواز کو سلانے کا یہ صلہ ملتا ہے کہ اس ملک کے دانشور اسے عظیم جمہوری رہنما کا لقب دیتے ہیں اور اس ملک کی دونوں پارٹیاں اسے سینیٹ کی چیئرمین شپ سے نواز دیتی ہیں۔ صرف ایک لمحے کو سوچئے اگر وہ ضمیر اور سچ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پارٹی سے اختلاف کرتا، پارٹی چھوڑ دیتا، سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیتا تو آج گمنامی کے اندھے کنویں میں اس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہوتا ۔