حق بہ حق دار رسید
بدنامیاں مول لے لے کر، ملامت سہہ سہہ کر، رسوائیاں سمیٹ سمیٹ کر جو کچھ جمع کیا ہوتا ہے
ہم انتہائی معذرت خواہ اور شرمندہ ہیں خاص طور پر اپنے معصوم لیڈروں، ایمان دار حکومتوں اور نجیب الطرفین جمہوریتوں سے تو ہم آنکھ نہیں ملا رہے ہیں کہ اتنا عرصہ ہم نے خواہ مخواہ ان پر ''پیڑے پیڑے'' شک کیے' ان کے کالے دامن پر اتنے بڑے سفید داغ دھبے ڈالے۔ حق تو یہ ہے کہ کہیں سے بھی ایک چلو بھر پانی لے کر ہمیں اس میں ڈوب جانا چاہیے تھا لیکن آج کل پانی بھی تو مفت میں دستیاب نہیں ہے یعنی
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
پھر سوچا کہ کیوں نہ اپنے سارے گناہوں بلکہ کرتوتوں اور ان گالیوں کی معافی مانگ کر کفارہ ادا کریں جو ہم نے ان معصوموں، پاک دامنوں اور پاک بختوں کو دی ہیں کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ سچ بولنا، گالی سے ہر گز کم نہیں ہوتا اور ہم تو ایک عرصہ اس ''جرم'' میں مبتلا رہے ہیں ان کو چور ڈاکو، حرام خور، مردار خور بلکہ نہ جانے کیا کیا خور کہتے رہے، اللہ معافی دے اور کفارہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اب کہیں جا کر ہم پر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ یہ لوگ تو ''ملامتی صوفی'' تھے ''فرقہ ملامتیہ'' صوفیاء کا وہ فرقہ ہوتا ہے جو بظاہر ''برے'' دکھائی دیتے ہیں' برے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اندر سے اللہ والے ہوتے ہیں' فقط ریاکاری سے بچنے اور لوگوں کی نظروں سے چھپنے کے لیے ایسے کام کرتے ہیں جو برے، مطلب یہ کہ حقیقت میں برے نہیں ہوتے ہیں مثلاً شراب پیتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کے پیالے میں دودھ ہوتا ہے، میلے کچیلے نظر آتے ہیں لیکن اندر بڑے اُجلے اور شفاف ہوتے ہیں، کفر بکتے ہیں لیکن دل میں ذکر و فکر کر رہے ہوتے ہیں گویا
دور چشم بد تری بزم طرب کی واہ وا
نغمہ بن جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے
مثلاً یہ ہماری کتنی بڑی بھول تھی کہ یہ لوگ چور ڈاکو اور لالچی نظر آتے ہیں قوم و ملک کو اپنے خاندانوں اور کیٹرنگ کی مدد سے لوٹ کر مال جمع کرتے ہیں قوم کا ملک کا عوام کا خون چوستے ہیں اور تجوریاں بینک اور پیٹ بھرتے ہیں' مردار کو ہڈیوں سمیت نگلتے ہیں لیکن اب کھلا کہ ہم غلطی پر تھے ہماری نظر سطحی تھی اور تنقید ''منفی'' تھی 'یہ اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں' وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ قوم نادان ہے' بے وقوف ہے' احمق ہے اگر یہ ''پیسہ'' وہ بچا کر نہ رکھیں تو یہ نادان اسے ایک دو دن میں اللے تللے کر کے پھونک ڈالتے اور پھر بھوکوں مرتے، لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لیڈر، سیاسی پارٹیاں، حکومتیں اور جمہورتیں (کم از کم درجن بھر اقسام کی) ملامتی صوفی بن کر خود کو بدنام کر کے جمع کرتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت ان ''بے وقوفوں'' کے کام آئے اور یہ انکشاف ہم پر کچھ تو عام انتخابات میں ہوا، کچھ ضمنی انتخابات سے آشکار ہوا اور پھر اس بلدیاتی الیکشن نے تو سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے کہ ۔۔۔
کار ساز مابفکر کار ماست اور
تر دامنی پہ ان کی بظاہر نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
بدنامیاں مول لے لے کر، ملامت سہہ سہہ کر، رسوائیاں سمیٹ سمیٹ کر جو کچھ جمع کیا ہوتا ہے نہایت دریا دلی، فراخ دلی بلکہ سنگ دلی سے پانی کی طرح بہانے لگتے ہیں تا کہ حق بحق دار رسید، یہ پوسٹر، یہ بینر، یہ ہورڈنگز اور ھمہ جہت سخاوتیں ۔۔۔ صرف اس لیے کہ کسی نہ کسی طرح مال حرام براہ حلال اپنے اصل حق داروں تک پہنچ جائے
اس گزر گاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے
یوں سمجھ لیجیے کہ یہ لوگ ایک طرح کے ''گولک'' ہوتے ہیں جن میں جمع ہوتا رہتا ہے جمع ہوتا رہتا ہے اور پھر ایک دن گولک توڑ کر اٹھنی چونی کے نئے نئے ہرے ہرے ''وہ'' نکالے جاتے ہیں جسے ووٹ سلمہ کا بڑا بھائی بھی کہا جاتا ہے غالباً ایسے ہی کسی قسم پر کہا گیا ہے کہ
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
اگر آپ بچے ہوتے اور ایسے ''گولک'' آپ کو ملتے تو کیا آپ تالیاں نہ بجاتے ضرور بجاتے کیونکہ تالیاں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہیں، اوپر والا ہاتھ جب نیچے والے ہاتھ سے الیکشن میں ملتا ہے تو تالیاں! ۔۔۔۔۔ اور یہاں تو تالے بھی کھل جاتے ہیں اس لیے تالوں کے ساتھ تالیاں اور تالے ۔۔۔ تال سے تال ملا، آ جا سانوریا ۔۔۔ آ ۔۔۔ آ، شاید ممکنہ تالیوں کی خوشی میں ہم کچھ بہک چلے ہیں حالانکہ اپنی ''تالی'' خالی ہی ہے کیونکہ اس کے لیے تھالی اور بینگن ہونا بھی ضروری ہے جب کہ یہاں صرف کریلے ہی کریلے ہیں وہ بھی نیم چڑھے ۔۔۔ ہم بھی ناں ۔۔۔۔ جب بولتے ہیں تو تولے بغیر بولے چلے جاتے ہیں خیر ذرا اپنی سانس ہموار کر کے وہیں سے سلسلہ جوڑتے ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا، اب کے ہم نے اس الیکشن میں دیکھا بلکہ دیکھا کیے کہ دیگوں کے ساتھ چمچوں کے منہ بھی کھل گئے ہیں سارے جمع جتھے سرکولیٹ ہونے لگے ہیں، ووٹروں، لکھائی والوں، گاڑیوں والوں صرف زندہ باد بولنے والوں اور نہ جانے کس کس کے ''بھاگ'' کھل رہے ہیں، اور وہ جو ''قطرہ قطرہ'' مل کر دریا بلکہ ڈونگے سمندر بن گئے یا فوارے بن کر بہہ رہے ہیں جہاں تہاں یہاں وہاں اور جانے کہاں کہاں بانٹے جا رہے ہیں اور حصہ بقدر جثہ سب کو مل رہا ہے، ہم نے جب یہ حاتم طایانہ مناظر دیکھے تو صرف ایک ہی دانشور نظر آیا جس سے ہم پوچھ سکتے تھے کہ
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
ہمارے دائرہ اختیار میں صرف دو ایسے ''مونہہ'' یا دہان مبارک ہیں جو اقوال زرین ارشاد فرماتے ہیں ان میں ایک علامہ بریانی صرف برڈ فلو تو الیکشن میں مصروف ہیں اور ان کو ''ہارمونیم'' انتخابی نشان پا کر قوم کی راہ نمائی فرما رہے ہیں صرف ایک قہر خداوندی بچا ہے جسے ہم اپنے گاؤں کے واحد مارک ٹیلی، کیرن آرمسٹر رنگ بل کہ نوم چومسکی کہتے ہیں کیوں کہ وہ بیک وقت صحافی، دانش ور، تجزیہ نگار اور نہ جانے کیا کیا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ ایسے اہم مواقع پر وہ کوئی تازہ ترین ''قول زرین'' لانچ نہ کرے مثلاً اس کا تازہ ترین قول زرین یہ ہے کہ اگر کسی نے اس دور میں بھی نہیں کمایا تو وہ نکما تو ہے ہی ساتھ نکٹھو بھی ہے اس سے پہلے زرداری دور میں اس نے کہا تھا کہ اب بھی کوئی زرداری نہ بنا تو وہ بے زرداری ہے۔
بھٹو کے دور میں اس نے یہ قول زرین ارشاد کیا تھا کہ جو اس دور میں پاگل نہیں ہوا وہ پاگل ہے، اب ایسے موقع پر اس کا کوئی تازہ ترین قول زرین سنائی نہیں دے رہا تھا اس لیے ہم نے خود اسے جا کر پکڑا پوچھا بھائی یہ ماجرا کیا ہے یہ اتنے زیادہ منتخب نمایندے آتے زیادہ مواقع اتنے زیادہ وارے نیارے، اور تمہاری یہ چپ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں ایسے مواقع پر وہ ہمارے آج کے بڑے بڑے مستند کالم نگاروں کی طرح پہلے تو وہ اپنی پہنچ اپنے ذرایع اور اپنی ذہانت و فطانت پر بولا اور اپنی اکلوتی آنکھ میچتے ہوئے پھس پھسایا دراصل انکم سپورٹ اسکیموں اور دوسرے سخاوتی پروگراموں میں تقریباً چار پانچ ڈیموں، پچاس ساٹھ کارخانوں، سو دو سو اسپتالوں اور ہزار دو ہزار اسکولوں جتنا سرمایہ پھونکنے کے بعد حکومتوں کو پتہ چلا کہ ایسے چھوٹے اسکیموں سے پاکستان کی بے پناہ دولت کی خاطر خواہ تقسیم نہیں ہو رہی ہے''کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے'' یعنی سب کو ان کی دہلیز پر انصاف ملنا چاہیے سو اس وقت تقریباً تقریباً دو لاکھ لوگ یہ نیک کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے تا کہ سرمایہ سرکولیٹ ہو کر سڑنے سے بچ جائے۔