دنیا ترقی کررہی ہے اور ہم
پاکستان کا ہر نوزائیدہ اپنے ننھے ننھے کاندھوں پر قرض کا بوجھ لے کر دنیا میں آنکھ کھولتا ہے
پاکستان کا ہر نوزائیدہ اپنے ننھے ننھے کاندھوں پر قرض کا بوجھ لے کر دنیا میں آنکھ کھولتا ہے، وہ بچہ جس نے ابھی ملک کی کسی بھی نعمت کا استعمال نہیں کیا ہوتا، مگر قرض اس پر عائد ہوچکا ہوتا ہے۔ ہماری نسل جس نے ملکی اتار چڑھاؤ کے کئی ادوار دیکھ لیے ہیں وہ اتنے قرض، امداد اور تحفے میں ملنے والی رقوم کے باوجود ملکی رفتار میں کسی مثبت تبدیلی کا سایہ تک دیکھنے سے محروم ہیں۔
ہمارے بچپن میں سرکاری اسکول، کالجوں اور جامعات کا معیار اتنا بلند تھا جو اب نجی تعلیمی اداروں کا بھی نہیں، کیوں کہ نجی ادارے تو یوں بھی تجارتی نقطہ نظر سے قائم کیے جاتے ہیں ان کو اپنا معیار بہر حال بہتر رکھنا ہوتا ہے ورنہ گاہک اگلی دکان کا رخ کرسکتا ہے، یہ ادارے معیار تعلیم سے زیادہ ظاہر داری، سجاوٹ و دکھاوے کے علاوہ بہتر سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔
(ایئر کنڈیشن کلاس روم پانچ ستارہ کینٹین کھیلوں کی تمام جدید سہولتیں فن فیئر اور گالا وغیرہ) مگر سرکاری ادارے انھیں تو شاید اب تک باقی ہی اس لیے رکھا گیا ہے کہ تعلیم کے نام پر کسی کو علم و آگاہی فراہم نہ کی جاسکے اور جو رقوم ان کے لیے مختص کی گئی ہے (آٹے میں نمک کے برابر) ان کا بھی صاحب حیثیت اور مروجہ معنی میں معززین آپس میں مل بانٹ کے اپنے مزید معزز ہونے کے امکانات میں اضافہ کرسکیں۔
اس انداز ''خدمت خلق''سے قبل سرکاری اسکولوں، کالجوں اور جامعات نے زندگی کے ہر شعبے میں جو جواہر پیدا کردیے آج ان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ملک کا وہ طبقہ جو بلا کسی امتیازی خصوصیات (سوائے خوشامد وچاپلوسی) اپنے انگریز آقاؤں سے ملک و قوم کے مفادات کے خلاف منافع بخش سودے میں جاگیریں اور ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین حاصل کرکے تقسیم کے بعد ہی تعلیم کے شعبے میں اپنے پنجے گاڑھنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
بظاہر انھوں نے بڑی خدمات تعلیمی میدان میں بھی انجام دیں، ان کے نام پر کئی تعلیمی ادارے بھی قائم ہوئے، کئی پہلے سے قائم اداروں کے نام تبدیل کرکے ان کے ناموں پر رکھے گئے، لیکن کارکردگی کا گراف دیکھا جائے تو وہ قدیم تعلیمی ادارے جو آزادی سے قبل اپنی کارکردگی کا معیار بہت بلند رکھتے تھے وہ بھی آج اپنے معیار سے محروم ہوچکے ہیں کیوں کہ ہمارے ان معززین کا مطمع نظر ہی تعلیم کا فروغ نہیں بلکہ رفتار زمانہ سے مجبور ہوکر اپنی عزت و وقار میں اضافے کے لیے تعلیمی شعبے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کامیاب کوشش تو کہہ سکتے ہیں مگر در پردہ وہ علم و آگاہی سے محروم عوام جو ان کی کسی بھی انداز سے خدمت کرسکتے ہیں۔
(ان کی صنعتوں، کارخانوں یا کھیتوں وغیرہ میں) مگر اپنے حقوق تو کجا اپنے انسان ہونے کے احساس سے بھی محروم ہوں، صرف محنت کرنے میں مصروف ہیں جب کہ ماضی میں تعلیمی ادارے لیڈر، شاعر، ادیب و مفکر، سائنس دان اور معاشی ماہرین پیدا کرتے تھے مگر اب وہ ماحول کہاں؟ صنعت و حرفت، سیاست، معاشرت، قومی خدمت، ادب و صحافت کے علاوہ ذرایع آمد و رفت، غرض کونسا شعبہ ہے جو ان کی دستبرد سے محفوظ ہے۔
کیسے کیسے ادارے تھے جو عوامی خدمت اور ملکی ترقی کے لیے فعال تھے، سیاست کے در پڑھے لکھے، مہذب و شرفا کے لیے کھلے تھے، محب وطن افراد ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور صنعتوں کے ساتھ ہنر و دستکاری کے فروغ کے لیے کوشاں تھے مگر ان سب کی ترقی و خوشحالی اس معزز طبقے کے لیے موت ثابت ہوسکتی تھی، لہٰذا اپنے وسائل کو ان سب کی تباہی و بربادی سے ہمکنار کرنے کے لیے وہ سنہری جال بچھائے گئے جس میں سادہ لوح عوام پھنستے چلے گئے، تعلیم، سیاست، تجارت، رفاہ عامہ کے ادارے سب کو ہر طرح کے تعصب کی نذرکیاگیا، اپنے مفاد کے لیے کون سا تعصب ہے جو پروان نہیں چڑھایا گیا، لسانی، مذہبی، علاقائی، سیاسی حتیٰ کہ ادبی تک ہر قسم اور صورت کے تعصب کو دانستہ فروغ دیاگیا۔
طلبہ سیاست جو ملک کی نئی نسل میں قیادت، بے لوث خدمت کی آبیاری کا باعث تھی اس کو بھی ذاتی یا گروہی سیاست کی نذر کردیاگیا جس کے باعث آج قیادت کا وہ بحران ہے کہ سوائے چند چہروں کے جو اپنے اپنے وقت میں ہر سطح پر بری طرح ناکام ہوچکے تھے، انھیں دوبارہ دھو مانجھ کر بلکہ ان پرانے کھلاڑیوں کو قلعی کرا کے پھر عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے اور وہ اپنے پرانے تجربوں کے باعث مزید گھاک ہوکر دوبارہ عوام کا خون چوسنے کے نت نئے حربے آزمانے کے لیے خادم قوم بن کر قوم سے ان کے رہے سہے حقوق بھی چھین لیتے ہیں۔
ہمارا تجربہ و مشاہدہ تو یہ ہے کہ جہاں دنیا ترقی کی منازل طے کررہی ہے وہاں ہم تنزلی کے مراحل بڑے ذوق و شوق سے طے کررہے ہیں جن ترقی یافتہ ممالک کے ہم مقلد ہیں وہاں تو مطالعہ آج بھی پسندیدہ مشغل اور قابل قدر و احترام عمل سمجھا جاتا ہے، تقلید اچھا عمل ہے مگر جس کی نقل کی جائے کیا اس معاشرے کے عیب اور خامیوں کو ہی اختیار کرنا چاہیے؟ اس معاشرے کے اچھے و مثبت اثرات کیوں قبول نہ کیے جائیں؟ بات ذرا طویل ہوجائے گی بڑا وسیع پس منظر ہے، مختصراً معاشرے میں یہ ساری منفی تبدیلی بھی ان معززین کی عطا ہے جن کو ہر صورت اور ہر قیمت پر ملک پر اپنے اثرات قائم رکھنے ہیں۔
بڑی کاوش اور قربانیوں کے بعد ہم نے انگریز کی غلامی سے جسمانی نجات تو حاصل کرلی مگر ہمارا ذہن اور روح آج بھی ان کی اسیر ہے، جب کہ جسمانی طور پر ہم انگریزوں کے ان کاسہ لیسوں کے غلام ہیں جنھیں وہ اپنا جانشین بناکر گئے ہیں ان سے سالانہ رپورٹ بھی طلب کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے تسلط سے خود کو آزاد سمجھنے والے غارِ مذلت کے کتنے قریب پہنچے؟
تعلیمی ترقی کا احوال کچھ یوں ہے کہ آج کا نوجوان چاہے کسی بھی مضمون اور کسی بھی شعبے کا طالب علم ہو صبح ایک بھاری تھیلا (بیگ) لے کر گھر سے روانہ ہوجاتا ہے اور شام کو واپس آجاتا ہے مگر اس کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں گیا تھا اور کیا حاصل کرکے آیا۔ ان کی معلومات عامہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے علاوہ جدید لباس و فیشن تک محدود ہیں۔ کہاں گئے وہ نوجوان جو بڑی بڑی ادبی محافل، مذاکروں، مباحثوں اور مشاعروں کی نظامت اتنے دلکش انداز میں کرتے تھے کہ نامی گرامی ادیب و مفکر ان کی تعریف و ہمت افزائی کرتے تھے۔
یہ نوجواں جید ادبا و شعرا اور مفکرین کے حلقوں میں ان سے کچھ حاصل کرنے کی خاطر مودبانہ شرکت کرتے تھے جس کتاب کی تعریف سن لی اس کو کسی نہ کسی طرح حاصل کرکے مطالعہ کرتے اور پھر اپنے بزرگوں سے مدلل بحث کرتے۔ یہ سب کچھ کراچی، لاہور یا کسی اور بڑے شہر میں نہیں بلکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی ہوتا تھا اس دور کے کتنے ہی جوان افق علم و ادب پر چمک کر محض اس لیے گہنا گئے کہ نسل نو کو ان کے نام اور کام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔غرض اس علم دشمنی اور ذاتی مفاد کے باعث نہ وہ معاشرہ رہا نہ وہ ماحول اور نہ وہ علمی سہولیات و تسکین جو ماضی میں میسر تھیں رہیں نہ وہ احساسات و جذبات۔ ہر طرف افراتفری، بے حسی، بیگانگی، خود غرضی اور خود فریبی پنپ رہی ہے، پنپ نہیں رہی بلکہ قریہ قریہ، بستی بستی، شہر شہر موجِ خوں بن کر ہر شہ (تہذیب و اخلاق) کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جارہی ہے۔
ہمارے بچپن میں سرکاری اسکول، کالجوں اور جامعات کا معیار اتنا بلند تھا جو اب نجی تعلیمی اداروں کا بھی نہیں، کیوں کہ نجی ادارے تو یوں بھی تجارتی نقطہ نظر سے قائم کیے جاتے ہیں ان کو اپنا معیار بہر حال بہتر رکھنا ہوتا ہے ورنہ گاہک اگلی دکان کا رخ کرسکتا ہے، یہ ادارے معیار تعلیم سے زیادہ ظاہر داری، سجاوٹ و دکھاوے کے علاوہ بہتر سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔
(ایئر کنڈیشن کلاس روم پانچ ستارہ کینٹین کھیلوں کی تمام جدید سہولتیں فن فیئر اور گالا وغیرہ) مگر سرکاری ادارے انھیں تو شاید اب تک باقی ہی اس لیے رکھا گیا ہے کہ تعلیم کے نام پر کسی کو علم و آگاہی فراہم نہ کی جاسکے اور جو رقوم ان کے لیے مختص کی گئی ہے (آٹے میں نمک کے برابر) ان کا بھی صاحب حیثیت اور مروجہ معنی میں معززین آپس میں مل بانٹ کے اپنے مزید معزز ہونے کے امکانات میں اضافہ کرسکیں۔
اس انداز ''خدمت خلق''سے قبل سرکاری اسکولوں، کالجوں اور جامعات نے زندگی کے ہر شعبے میں جو جواہر پیدا کردیے آج ان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ملک کا وہ طبقہ جو بلا کسی امتیازی خصوصیات (سوائے خوشامد وچاپلوسی) اپنے انگریز آقاؤں سے ملک و قوم کے مفادات کے خلاف منافع بخش سودے میں جاگیریں اور ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین حاصل کرکے تقسیم کے بعد ہی تعلیم کے شعبے میں اپنے پنجے گاڑھنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
بظاہر انھوں نے بڑی خدمات تعلیمی میدان میں بھی انجام دیں، ان کے نام پر کئی تعلیمی ادارے بھی قائم ہوئے، کئی پہلے سے قائم اداروں کے نام تبدیل کرکے ان کے ناموں پر رکھے گئے، لیکن کارکردگی کا گراف دیکھا جائے تو وہ قدیم تعلیمی ادارے جو آزادی سے قبل اپنی کارکردگی کا معیار بہت بلند رکھتے تھے وہ بھی آج اپنے معیار سے محروم ہوچکے ہیں کیوں کہ ہمارے ان معززین کا مطمع نظر ہی تعلیم کا فروغ نہیں بلکہ رفتار زمانہ سے مجبور ہوکر اپنی عزت و وقار میں اضافے کے لیے تعلیمی شعبے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کامیاب کوشش تو کہہ سکتے ہیں مگر در پردہ وہ علم و آگاہی سے محروم عوام جو ان کی کسی بھی انداز سے خدمت کرسکتے ہیں۔
(ان کی صنعتوں، کارخانوں یا کھیتوں وغیرہ میں) مگر اپنے حقوق تو کجا اپنے انسان ہونے کے احساس سے بھی محروم ہوں، صرف محنت کرنے میں مصروف ہیں جب کہ ماضی میں تعلیمی ادارے لیڈر، شاعر، ادیب و مفکر، سائنس دان اور معاشی ماہرین پیدا کرتے تھے مگر اب وہ ماحول کہاں؟ صنعت و حرفت، سیاست، معاشرت، قومی خدمت، ادب و صحافت کے علاوہ ذرایع آمد و رفت، غرض کونسا شعبہ ہے جو ان کی دستبرد سے محفوظ ہے۔
کیسے کیسے ادارے تھے جو عوامی خدمت اور ملکی ترقی کے لیے فعال تھے، سیاست کے در پڑھے لکھے، مہذب و شرفا کے لیے کھلے تھے، محب وطن افراد ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور صنعتوں کے ساتھ ہنر و دستکاری کے فروغ کے لیے کوشاں تھے مگر ان سب کی ترقی و خوشحالی اس معزز طبقے کے لیے موت ثابت ہوسکتی تھی، لہٰذا اپنے وسائل کو ان سب کی تباہی و بربادی سے ہمکنار کرنے کے لیے وہ سنہری جال بچھائے گئے جس میں سادہ لوح عوام پھنستے چلے گئے، تعلیم، سیاست، تجارت، رفاہ عامہ کے ادارے سب کو ہر طرح کے تعصب کی نذرکیاگیا، اپنے مفاد کے لیے کون سا تعصب ہے جو پروان نہیں چڑھایا گیا، لسانی، مذہبی، علاقائی، سیاسی حتیٰ کہ ادبی تک ہر قسم اور صورت کے تعصب کو دانستہ فروغ دیاگیا۔
طلبہ سیاست جو ملک کی نئی نسل میں قیادت، بے لوث خدمت کی آبیاری کا باعث تھی اس کو بھی ذاتی یا گروہی سیاست کی نذر کردیاگیا جس کے باعث آج قیادت کا وہ بحران ہے کہ سوائے چند چہروں کے جو اپنے اپنے وقت میں ہر سطح پر بری طرح ناکام ہوچکے تھے، انھیں دوبارہ دھو مانجھ کر بلکہ ان پرانے کھلاڑیوں کو قلعی کرا کے پھر عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے اور وہ اپنے پرانے تجربوں کے باعث مزید گھاک ہوکر دوبارہ عوام کا خون چوسنے کے نت نئے حربے آزمانے کے لیے خادم قوم بن کر قوم سے ان کے رہے سہے حقوق بھی چھین لیتے ہیں۔
ہمارا تجربہ و مشاہدہ تو یہ ہے کہ جہاں دنیا ترقی کی منازل طے کررہی ہے وہاں ہم تنزلی کے مراحل بڑے ذوق و شوق سے طے کررہے ہیں جن ترقی یافتہ ممالک کے ہم مقلد ہیں وہاں تو مطالعہ آج بھی پسندیدہ مشغل اور قابل قدر و احترام عمل سمجھا جاتا ہے، تقلید اچھا عمل ہے مگر جس کی نقل کی جائے کیا اس معاشرے کے عیب اور خامیوں کو ہی اختیار کرنا چاہیے؟ اس معاشرے کے اچھے و مثبت اثرات کیوں قبول نہ کیے جائیں؟ بات ذرا طویل ہوجائے گی بڑا وسیع پس منظر ہے، مختصراً معاشرے میں یہ ساری منفی تبدیلی بھی ان معززین کی عطا ہے جن کو ہر صورت اور ہر قیمت پر ملک پر اپنے اثرات قائم رکھنے ہیں۔
بڑی کاوش اور قربانیوں کے بعد ہم نے انگریز کی غلامی سے جسمانی نجات تو حاصل کرلی مگر ہمارا ذہن اور روح آج بھی ان کی اسیر ہے، جب کہ جسمانی طور پر ہم انگریزوں کے ان کاسہ لیسوں کے غلام ہیں جنھیں وہ اپنا جانشین بناکر گئے ہیں ان سے سالانہ رپورٹ بھی طلب کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے تسلط سے خود کو آزاد سمجھنے والے غارِ مذلت کے کتنے قریب پہنچے؟
تعلیمی ترقی کا احوال کچھ یوں ہے کہ آج کا نوجوان چاہے کسی بھی مضمون اور کسی بھی شعبے کا طالب علم ہو صبح ایک بھاری تھیلا (بیگ) لے کر گھر سے روانہ ہوجاتا ہے اور شام کو واپس آجاتا ہے مگر اس کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں گیا تھا اور کیا حاصل کرکے آیا۔ ان کی معلومات عامہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے علاوہ جدید لباس و فیشن تک محدود ہیں۔ کہاں گئے وہ نوجوان جو بڑی بڑی ادبی محافل، مذاکروں، مباحثوں اور مشاعروں کی نظامت اتنے دلکش انداز میں کرتے تھے کہ نامی گرامی ادیب و مفکر ان کی تعریف و ہمت افزائی کرتے تھے۔
یہ نوجواں جید ادبا و شعرا اور مفکرین کے حلقوں میں ان سے کچھ حاصل کرنے کی خاطر مودبانہ شرکت کرتے تھے جس کتاب کی تعریف سن لی اس کو کسی نہ کسی طرح حاصل کرکے مطالعہ کرتے اور پھر اپنے بزرگوں سے مدلل بحث کرتے۔ یہ سب کچھ کراچی، لاہور یا کسی اور بڑے شہر میں نہیں بلکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی ہوتا تھا اس دور کے کتنے ہی جوان افق علم و ادب پر چمک کر محض اس لیے گہنا گئے کہ نسل نو کو ان کے نام اور کام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔غرض اس علم دشمنی اور ذاتی مفاد کے باعث نہ وہ معاشرہ رہا نہ وہ ماحول اور نہ وہ علمی سہولیات و تسکین جو ماضی میں میسر تھیں رہیں نہ وہ احساسات و جذبات۔ ہر طرف افراتفری، بے حسی، بیگانگی، خود غرضی اور خود فریبی پنپ رہی ہے، پنپ نہیں رہی بلکہ قریہ قریہ، بستی بستی، شہر شہر موجِ خوں بن کر ہر شہ (تہذیب و اخلاق) کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جارہی ہے۔