ایک امریکی جرات مند صحافی کی کہانی
تحقیقاتی صحافت کوئی آسان کھیل نہیں اور نہ ہی اس کا لینا دیناکسی ایسے فنکارانہ پن سے ہے
لاہور:
گیری اسٹیفن ویب کا نام شاید بہت سوں کے علم میں نہ ہو۔ اس امریکی صحافی کی پیشہ ورانہ صحافتی زندگی کے نشیب و فراز اور المناک موت میں وہ سب کچھ موجود ہے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور اس میدان سے جڑے نابغہ روزگاروں کے لیے ایک سبق ثابت ہو سکتا ہے۔
تحقیقاتی صحافت کوئی آسان کھیل نہیں اور نہ ہی اس کا لینا دیناکسی ایسے فنکارانہ پن سے ہے جس میں ٹی وی اینکرز صحافی کے بھیس میں چیخ چیخ کر اپنی نام نہاد تحقیق کردہ اسٹوری کو بیان کررہا ہو ۔تحقیقاتی صحافت عوام سے پوشیدہ مضر سماج اسٹوری یا اسکینڈل کو سامنے لانے کی خاموش سعی اور مسلسل پیش رفت کا نام ہے۔یہ کام کسی خفیہ سراغ رسانی کے امر سے کم نہیں ہے۔تحقیقاتی صحافت ایک اعصاب شکن کام ہے ،اسٹوری پرکام کرتے ہوئے کن کن خطرات کو مول لینا پڑتا ہے یا صرف ایسا کام کرنے والا صحافی ہی بہتر جانتا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا لاتعداد نیوز کارپوریشنزکا مالک ہے۔بعض یورپی اور آسٹریلوی نیوز کمپنیوں کے صدر دفاتر تک یہاں موجود ہیں۔ بیشتر میڈیا ہاؤسز یا کارپوریشنز کے مالکان کسی نہ کسی طرح امریکی سیاسی نظام میں بھی اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں یا انھیں ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔کارپوریٹ رجحان اور اس میں تیزی سے پیدا ہونے والی مسابقت کے باعث ان امریکا خبر رساں اداروں سے جاری معلومات اور خبری مواد میں مکمل طور سے ملکی پالیسی یا قومی سلامتی اور اس سے جڑے مفادات کا تحفظ رکھا جاتا ہے۔
گزشتہ دو عشروں میں جہاں واشنگٹن کو علاقائی سطح پر چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور دنیا کے ممالک میں جہاں کہیں بھی امریکی مرضی کے مطابق عوامی رائے کو ہموار کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے وہاں امریکا نے اپنے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ تنظیم نے بھاری سرمائے سے اپنے میڈیا کے ذریعے سے تیسری دنیا کے ممالک کے خلاف پروپیگنڈے کی تشہیرکا بخوبی کام لیا ہے۔
یہاںتک کہ تربیت یافتہ جاسوسوں کو رپورٹر کے بھیس میں تیسری دنیا کے ممالک کی ٹوہ لینے پر مامور کر دیا گیا ہے۔یہ کام اس حد تک ہوا ہے کہ اب خود امریکا میں موجود باخبر عوامی حلقے بھی اپنے ذرایع ابلاغ کو کنٹرولڈ کہنے لگے ہیں، جس کی ابتداء نائن الیون کے بعد سے ہوئی جس میں اس واقعے کو کوریج کرنے والے صحافیوں اور میڈیا کی خبروں اور تبصروں پر شکوک و شبہات سامنے آئے۔
دراصل واٹر گیٹ اسکینڈل تک امریکی صحافت آزاد وغیرجانبدار کہی جا سکتی ہے تاہم اس کے بعد درپردہ کام کرنے والے خفیہ امریکی اداروں کو ذرایع ابلاغ بالخصوص تحقیقاتی صحافت کی انتہائی اہمیت کا احساس ہوا اور اس کے بعد سے اس میدان پر خاص طور سے نظر رکھی جانے لگی۔جہاں کہیں کسی تحقیقاتی رپورٹر کو کوئی ایسی خبر ملی جو اقوام عالم میں امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی تھی ،اس خبر کو یا تو دبایا جانے لگا یا پھر رپورٹرکو بھٹکا کر کسی دوسری سمت میں تحقیقات کو ڈالنے پر مجبور کر دیا جانے لگا۔اس کے باوجود کچھ ایسے امریکی تحقیقاتی صحافت سے جڑے رپورٹر بھی سامنے آتے رہے جنہوں نے امریکی خفیہ اداروں کے کسی قسم کے دباؤ میں آنے سے نہ صرف انکارکیا بلکہ اپنی اسٹوری کی تحقیقات میں لگے رہے۔
یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو ملازمتوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑے ،تاہم وہ اپنے مقصد میں ڈٹے رہے۔ انھیں میں ایک نام گیری اسٹیفن ویب کا ہے۔ 1980سے اپنی پیشہ ورانہ صحافت جاری رکھنے والے اس نڈر رپورٹر نے کبھی کسی مقام پر ہار نہیں مانی۔ وہ اس وقت بھی ڈٹا رہا جب نیویارک سمیت دیگر بڑے شہروں میں قائم بڑی اخباری کارپوریشنوں اور دیگر اہم صحافیوں نے ضمیر فروشی کی نئی داستان رقم کی اور امریکی خفیہ ادارے کی ایک اہم خبرکو عوام میں نہ جانے دیا جسے سب سے پہلے گیری ویب نے ہی پیش کیا تھا۔
تاہم یہ اہم اسکینڈل گیری ویب نے ایک نسبتاََ چھوٹی اورکم شہرت رکھنے والی نیوز کمپنی' سان جوزے مرکیوری نیوز' کے ذریعے کیا۔ گیری ویب نے اس خبر پر لگاتارکام کیا جس کے مطابق امریکی خفیہ ادارہ 'سی آئی اے' نہ صرف لاطینی امریکا کے ملک نکاراگوا کے حکومت مخالف کونٹرا باغیوں کی سرپرستی کر رہی تھی بلکہ اسے امریکی ریاستوں بالخصوص جہاں کہیں بھی سیاہ فاموں کی اکثریت تھی وہاں منشیات پھیلانے اور اس سے حاصل ہونے والی اربوں ڈالرز کی رقم سے امریکی اسلحہ خریدنے کا موقع دیتی رہی تھی۔
گیری ویب کی اسٹوری قسط وار شایع ہوئی تاہم ایک مرحلے پر 'سان جوزے مرکیوری' کے سربراہ نے حکومتی دباؤ میں آکر گیری کو مزید تحقیقاتی رپورٹ پر کام کرنے سے نہ صرف روک دیا بلکہ پہلے سے شایع شدہ رپورٹوں کو بھی ایک بیان جاری کر کے متنازع بنا دیا۔ دوسری جانب گیری ویب کو سی آئی اے کے اہلکاروں نے دھمکانا شروع کر دیا۔
اسے اس کے خاندان، بیوی بچوں سمیت قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں تاہم گیری ویب نے ملازمت سے استعفیٰ دیتے ہوئے اسٹور ی پر فری لانس صحافی کی حیثیت سے کام جاری رکھا اور ایک کتاب جس کا نام ' ڈارک الائنس' تھا اس میں اپنی مکمل تحقیقات کو ازسر نو طریقے سے پیش کیا۔اس تہلکہ خیز اسٹوری نے نہ صرف امریکی ایوانوں کو ہلا دیا بلکہ صحافت کے بڑے اداروں کو بھی اپنے ضمیر کا جائزہ لینے کا چیلنج دیا۔وہ ادارے جن کی ڈوریں سی آئی اے کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔
گیری اسٹیفن ویب اس کے بعد کبھی بھی ایک پیشہ ورصحافی کی حیثیت سے ملازمت نہ کر سکا۔ سان جوزے مرکیوری نیوز سے مستعفی ہونے کے سات سال بعد 2004 میں ویب کی لاش اس کے اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی۔اس کے سر میں دوگولیاں داغی ملیں۔ تحقیقات کے حتمی نتائج کے بعد ویب کی موت کو خود کشی قرار دے دیا گیا تاہم یہ کسی طرح بھی خود کشی نہیں تھی۔
گیری ویب کی تہلکہ خیز مرحلہ وار رپورٹنگ کے باعث امریکی خفیہ ادارے کے خلاف عوامی نفرت اور سخت غم اپنی حدوں کو پہنچ گیا تھا جسے سی آئی اے کی تاریخ میں پہلی بار اس وقت کے ڈائریکٹر،جان ڈوئچ نے عوام کی کھلی عدالت میں پیش ہوکر ختم کرنے کی کوشش کی۔جنوبی وسطی لاس اینجلس شہرکے ٹاؤن ہال میںمنعقدہ اس میڈیا ٹرائل میں سی آئی اے ڈائریکٹر، جان ڈوئچ عوام کے سوالات کے سامنے بے بس دکھائی دیے اور ان کا کوئی جواب بھی عوام کی تسلی نہ کر سکا۔ہال میں موجود شہریوں نے گیری ویب کو نہ صرف خراج تحسین پیش کیا بلکہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ گیری ویب کو اس بات کا پورا اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی اسٹوری کے فالو اپ پر مزید کام کرے اور اس میں ملوث آرمی کے کرنلز اور دیگر افسران کو انٹرویو دینے پر مجبور کیا جائے۔اس میڈیا ٹرائل کے ٹھیک ایک ماہ بعد جان ڈوئچ کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
بعد ازاں 1998میں سی آئی اے کی جانب سے ایک چار سو صفحات پر مبنی رپورٹ پیش ہوئی جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ خفیہ ایجنسی نکار اگوا کے باغی کونٹرا اراکین سے تعلقات میں ملوث رہی ہے تاہم کونٹرا کو امریکا بھر میں منشیات پھیلانے کے معاملے میں مکمل طور پر سپورٹ کی بات کو گول کر دیا گیا۔نکاراگوا کے غدار باغیوں کی فوج کو امریکی سپورٹ کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف یہ باغی فوج سیاہ فام باشندوں کے قابل ذکر شہروں سمیت پورے لاس اینجلس میں منشیات بیچیں اور بعد ازاں حاصل ہونے والی آمدنی سے امریکی اسلحہ خریدکر حکومت مخالف سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے۔
سی آئی اے کے اس مذموم ترین مشن کے ذریعے نسلی تعصب کا نشانہ سفید فاموں کے بجائے سیاہ فاموں کو بنایا گیا،اس کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے ایک ملک کا امن وہاں موجود باغیوں کے ذریعے متاثرکیے رکھا جب کہ دوسری طرف اپنے اسلحے کی فروخت اور اس کی آزمائش جیسے اہداف بھی پورے کیے ۔1996میں اس رپورٹ کے بارے میں امریکا کے کسی ٹی وی چینلز اور اخبارات نے کوئی خاص کوریج، تبصرے اور خبرشایع نہیں کیں بلکہ سی آئی اے کی ایماء پر ان کی توجہ مکمل طور پر صدر بل کلنٹن اور مانیکا لونسکی اسکینڈل پر ہی لگی رہی۔
آج کے موجودہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے یہ الفاظ ریکارڈ کا حصہ ہیں جو گیری اسٹیفن ویب کی زندگی پر بننے والی فلم میں پیش کیے گئے ہیں جس میں وہ اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ'' مجھے اپنے ذہن میں موجود ضمیر کی اس خلش کا ادراک ہے،اور اس حوالے سے کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں کہ میرے اپنے ملک میں منشیات اور اسلحے کی بے تحاشا اسمگلنگ جاری ہے جب کہ کارپوریٹ کرائمز منظم ہیں۔
ہم اب تک عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔اندرون امریکا میں موجود ہمارے اپنے پائلٹس، ہمارے اپنے جہاز اور ہماری اپنی ایئر لاینزایک ہی وقت میں اسلحے اور منشیات منتقل کرنے کا باعث ہیں، جسے لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور لاس اینجلس سمیت امریکا کا ہر شہر ہم سے اس بارے میں صفائی چاہتا ہے۔''