عذیربلوچ دبئی سے ایران پہنچ گیالیاری میں کارندوں سے رابطہ

گرفتاری منصوبہ بندی کاحصہ تھی،ایکسپریس اخبار 30دسمبر 2014کوخبرشائع کرچکاتھا


Staff Reporter May 29, 2015
عذیر بلوچ سندھ پولیس کوقتل ، اقدام قتل بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سمیت درجنوں سنگین مقدمات میں مطلوب ہے ۔ فوٹو: فائل

لیاری گینگ وارکاسرغنہ عذیر بلوچ دبئی سے ایران پہنچ گیا، عذیربلوچ کی جانب سے دبئی میں ایرانی قونصلیٹ کو ایران جانے کیلیے دی جانے والی درخواست قبول کرلی گئی تھی،عذیربلوچ نے ایران پہنچنے کے بعدپاکستان میں موجوداپنے اہم کارندوں کوفون پرمبارکبادی پیغام بھیجا جس کے بعد سردارآصف مٹھل سمیت10سے زائداہم کارندے ایران چلے گئے۔

یہ بات عذیربلوچ کے دبئی میں موجودایک رشتے دارنے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے بتائی۔انھوں نے بتایاکہ پاکستانی حکام کی درخواست پرعذیر بلوچ کومسقط سے دبئی آتے ہوئے بارڈرپرعطا کے مقام سے انٹر پول نے حراست میں لے کردبئی حکام کے حوالے کیا تھا تاہم 90 روزسے زائددن گزرنے کے باوجودپاکستانی حکام عذیربلوچ کے جرائم کے حوالے مکمل دستاویزات پیس نہیں کرسکے جس کے باعث اسے پاکستان حکومت کے حوالے نہیں کیاگیا،بعد ازاں عذیر بلوچ کودبئی حکام نے چھوڑدیا۔انھوں نے بتایاکہ عذیربلوچ نے کچھ روزتک دبئی میں اپنے بہنوئی اکرم بلوچ کی رہائش گاہ پرقیام کیا۔

جس کے بعد اس نے ایرانی قونصلیٹ میں ایک درخواست دی تھی جس میں مؤقف اختیارکیاکہ وہ ایران کے شہر سربازمیں اپنے کاروبار کے سلسلے میں جاناچاہتاہے جس پر ایرانی حکومت نے اسے ایران جانے کی اجازت دیدی،ایران میں داخلے کی اجازت دلوانے میں ایک ایرانی انٹیلی جنس افسرنے اہم کردار اداکیا،اجازت ملنے کے بعد عذیربلوچ اپنے3ساتھیوں کے ہمراہ ایران کے شہر سربازچلا گیا جہاں اس کے متعددرشتے داررہائش پذیر ہیں جبکہ عذیر بلوچ کی اہلیہ اوربچے بھی پاکستان سے ایران پہنچ گئے ہیں۔

اس کی والدہ پہلے سے ایران میں تھیں،عذیر بلوچ کے ایران پہنچنے کے بعدوہاں جشن منایا گیا۔واضح رہے ایکسپریس اخبارنے30دسمبر 2014کوخبرشائع کی تھی کہ عذیر بلوچ نے گرفتاری ایک منصوبہ بندی کے تحت دی تھی،پاکستانی حکام عذیر بلوچ کی حوالگی میں مکمل دستاویزات نہیں دیںگے جس کے بعدعذیر بلوچ کودبئی حکام چھوڑ دیں گے اور وہ ایران چلا جائے گا۔واضح رہے عذیر بلوچ سندھ پولیس کوقتل ، اقدام قتل بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سمیت درجنوں سنگین مقدمات میں مطلوب ہے ۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں