اک حکومت تھی

کہاں ہے حکومت؟ ہمیں بھی بتائیے، ہم تو ٹکٹ خرید کر بھی اسے دیکھنے کے لیے جانے کو تیار ہیں۔

ہمیں تو بس اتنا یاد ہے کہ 11 مئی کو الیکشن ہوئے تھے، تاجِ حکمرانی کس نے اپنے سر پر سجایا، کچھ علم نہیں۔ فوٹو:فائل

گزشتہ ایک ویب سائٹ پر جب ''پول'' میں یہ سوال دیکھا کہ ''کیا آپ دہشت گردی کیلئے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں؟'' تو یقین جائیے کہ مجھ پر حیرانی کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔دنیائے صحافت میں ایک معتبر نام ،اتنا بڑا میڈیا گروپ اور یہ سوال۔۔۔ ہیچ!

خیر ہم نے اپنا جواب دیا اور پول کا رزلٹ چیک کیا۔ اس وقت تک ساڑھے چوبیس ہزار سے زائد افراد پول میں حصہ لے چکے تھے اور کم و بیش 66 فیصد افراد کا جواب نفی میں تھا۔ 34 فیصد کا جواب مثبت بھی آیا تھا جن کی ذہنی حالت پر مجھے حیرت و افسوس دونوں ہوئے۔

ارے بھئی! ہم تو پچھلے دو سالوں سے ''حکومت'' ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں تو ابھی تک نظر نہیں آئی اور بھلا آئے بھی کیسے، کوئی حکومت ہو تو نظر آئے نا!

آپ نے کبھی کوئی حکومت دیکھی ہے، یہاں ملک میں پچھلے دو سالوں سے کوئی حکومت دیکھی ہے؟ کہاں دیکھی ہے، ہمیں بھی بتائیے، ہم ٹکٹ خرچ کرکے اسے دیکھنے جانے کو تیار ہیں۔

ہمیں تو بس اتنا یاد ہے کہ 11 مئی کو الیکشن ہوئے تھے، تاجِ حکمرانی کس نے اپنے سر پر سجایا، کچھ علم نہیں۔ ہمیں تو اسی دن سے کوئی حکومت نظر نہیں آئی۔ اب اہم اپنے موقف کی تائید کیلئے گنتی الٹی شروع کریں یا سیدھی، آپ کو حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔گنتی الٹی شروع کرتے ہیں۔

سانحہ صفورا کے بعد جب سب ابھی یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ کراچی جانا چاہئے یا نہیں، اس وقت جس کی کراچی کو سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ شخصیت اپنی مصروفیات ترک کرکے کراچی پہنچ گئی تھی۔ اسے بھی چھوڑئیے، آپ خود بتائیے کہ جب ایس ایس پی ملیر کی تعینانی کا فیصلہ بھی کہیں اور سے آئے تو حکومت نام کی چیز کہاں نظر آئے گی؟

ذرا اور پیچھے جائیں، جب امریکی صدر نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کا نیا باب کس نے شروع کیا تھا اور وہ کون سی شخصیت تھی جس نے عین اس وقت چین کا دورہ کیا تھا۔ حالانکہ یہ دورہ تو وزیر خارجہ کو کرنا چاہئے تھا۔۔۔

لیکن ٹھہریں یہاں ۔۔۔ ایک لمحے کو رکیں! ذرا یہ بتایئے کہ

اس وقت پاکستان کا وزیر خارجہ کون ہے؟

سوچئے، عقل پر زور دیں اور پھر بتائیں کہ کیا حکومتیں اس طرح چلا کرتی ہیں، کیا اسے حکومت کہا جاتا ہے؟

جوڈیشل کمیشن کا قیام کیسے تشکیل پایا، حکومت اس کے لئے کیونکر راضی ہوئی، یہ سب کچھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، آپ کو اس سارے معاملے میں حکومت نام کی چیز نظر آتی ہے؟
تھوڑا اور پیچھے جائیں، سانحہ پشاور کے بعد اے پی سی اور پھر نیشنل ایکشن پلان، پھر دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ، کیا یہ سب حکومت نے کیا تھا؟ کس نے حکومت بالخصوص وزیراعظم کو اے پی سی میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے یہ مشورہ دیا تھا کہ سزائے موت پر عائد غیر اعلانیہ پابندی کو ختم کر دیا جائے اور پھر 48 گھنٹوں کے اندر اندر سب معاملات بھی طے پا گئے تھے۔ ملٹری کورٹس کا فیصلہ حکومت کا تھا، ترمیمی بل، اس کی اسمبلی سے منظوری، کیا یہ حکومت کے کام تھے؟ اس میں حکومت کا کیا کردار تھا۔ یہ حکومت تو ایک دھرنا نہیں ختم کرواسکی تھی۔

چلیں اسے بھی چھوڑیں، کراچی آپریشن کا فیصلہ، ایک سیاسی تنظیم کے مرکز پر چھاپے کا فیصلہ کیا یہ سب فیصلے حکومتی ایوانوں میں ہوئے تھے؟ کیا حکومت میں اس قدر اخلاقی جرأت ہے کہ وہ یہ فیصلے کرسکتی، اس طرح سامنے کھڑی ہوسکتی؟ یہ حکومت تو صرف ایک ربڑ اسٹمپ کی حیثیت رکھتی ہے یا شاید وہ بھی نہیں کیونکہ اسٹمپ کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی، فیصلہ تو ہونے کے بعد میز پر آتا ہے، اور ''حکومت '' اس پر من و عن عمل کرتی ہے، کاغذ سامنے ہوتے ہیں اور با اختیار اور طاقتور وزیراعظم صاحب اس پر دستخط کر دیتے ہیں۔ ارے بھئی! جو حکومت اپنے وزیر داخلہ کو منانے کی اہلیت نہ رکھتی ہو، وہ کیسے عوام پر راج کر سکتی ہے؟

اس حکومت نے تو اپنے قیام کے بعد ہی ''مذاکرات، مذاکرات'' کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا تھا اسی وقت ''اگلوں'' نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر ان کے سر پر بیٹھے رہے تو ہوچکی حکومت، اور ہو چکی سرحدوں کی حفاظت۔


آپریشن ضرب عضب سے پہلے وزیر اعظم سے ایک رسمی تقریر پڑھوائی گئی تھی جس کا مسودہ کہاں سے آیا تھا، سبھی جانتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت حکومت نے طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے وزیراعظم کے خصوصی مشیر ''عرفان صدیقی'' صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ وہ مشیر صاحب آج کل کس عہدے پر ہیں، ان کی کیا مصروفیات ہیں، کہاں پائے جاتے ہیں کسی کو علم نہیں۔

یہ حکومت (جو کاغذوں میں وجود رکھتی ہے) تو صرف جلد بازی کے فیصلے کرنا جانتی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا اور مذاکرات کے دوران ہی ''احرار الہند'' نامی گروہ سامنے آیا، جس نے اسلام آباد کچہری پر حملہ کیا تھا۔ (ویسے آج کل تو طالبان کے تمام ہی گروپ پھر سے یکجان ہو چکے ہیں)۔''فیصلہ ساز قوتیں'' جانتی تھیں کہ یہ مذاکرات محض ایک ڈھکوسلا ہیں اور طالبان محض مذاکرات کا نام استعمال کر رہے ہیں انہیں امن و امان سے کوئی غرض نہیں، وہ جس ایجنڈے کیلئے یہاں تعینات کیے گئے ہیں وہ اس کی تکمیل جاری رکھیں گے اور انہیں ان کے مذموم مقاصد میں روکنے کیلئے ان کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کرنا ہو گا۔ اسی لئے اُن فیصلہ ساز قوتوں نے ضربِ عضب کے نام سے دمِ آخر تک لڑنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت اس قابل اور اس قدر دور اندیش ہوتی تو وہ جان چکی ہوتی کہ مذاکرات کی آڑ میں پسِ پردہ کیا گیم کھیلی جا رہی ہے۔ اسی لئے اس سے صرف فیصلے کا اعلان کروایا گیا بالکل اسی طرح جس طرح اب تک ہوتا آیا ہے۔

اب ذرا واپس سوال کی طرف آئیں۔ سوال تھا کہ ''کیا آپ دہشت گردی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں؟''

تو مجھے بتائیے کہ عوام کن اقدامات سے مطمئن ہیں؟

  • عوام نیشنل ایکشن پلان پر بہت خوش ہیں۔

  • عوام آپریشن ضربِ عضب سے بہت خوش ہیں

  • عوام کراچی آپریشن سے مطمئن ہیں

  • عوام امن کیلئے بلا تخصیص ہونے والے آپریشن جس میں سیاسی چھتری استعمال کرنے والوں کو بھی دھڑا دھڑ پکڑا جا رہا ہے، اس سے مطمئن ہیں۔

  • عوام غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں اور بیرونی مداخلت کے خلاف ہونے والے اقدامات سے مطمئن ہین۔

  • دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے مطمئن ہیں

  • اور آئندہ چند دنوں میں عوام ''این جی اوز'' کے لباس میں چھپے ملک دشمن عناصر کے خلاف ہونے والی کارروائی سے مطمئن نظر آئیں گے


مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اقدامات حکومت نے کیے ہیں یا فیصلے کہیں اور سے ہو کر آئے ہیں؟ حکومت (اگر کوئی ہے تو) نے اب تک دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں؟

سانحہ پشاور کے بعد اے پی سی میں وزیر اعظم بیٹھ کر مذاق کرتے رہے، سانحہ شکار پور کے بعد وزیر اعظم کراچی گئے جہاں پر کراچی بار میں انہوں نے وکلاء کو لطیفے سنائے اور پھر ان سے کھانا اچھا نہ ہونے پر گلہ بھی کیا اور اب سانحہ صفورا کے بعد بھی وہی روش دیکھنے کو ملی ہے۔ کیا یہ حکومت ہے جسے عوام کے دکھ درد کی کوئی پروا ہی نہیں؟ کوئی بھی ذی شعور اور صاحبِ فہم اسے حکومت نہیں کہہ سکتا۔

اب بھی اگر کوئی مصر ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے وجود رکھتی ہے تو ارے بھئی ہم تو پہلے ہی کہہ چکے کہ ہمیں تو اگر کہیں کوئی حکومت ہے تو ہمیں بھی بتائیے، ہم ٹکٹ خرچ کر کے اسے دیکھنے جانے کو تیار ہیں۔

[poll id="454"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story