پاکستان ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے چنگل میں
یہ ایسٹ انڈیا کمپنیاں ہماری حالت رنگون میں پڑے عالم پناہ جیسی کرچکے ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔
کہتے ہیں انگریز دو سو سال میں برصغیر سے 7 ٹرلین پاونڈ لوٹ کر لے گئے تھے تو مغربی دنیا پاکستان سے اس سے پہلے 50 برسوں میں 13 ٹرلین پاونڈ لوٹ کر لے گئی ہے۔ شکلیں بدلتی رہتی ہیں، بس اشارے علامتیں فقط۔ بالکل اسی طرح جس طرح سترہ سو ستاون، اٹھارہ سو ستاون ۔۔۔ اور ان علامات سے بے خبر رنگون میں پڑا عالم پناہ کونے میں رکھے پانی کے اس گھڑے کو حسرت سے دیکھتا ہے جس کا پانی وہ پی نہیں سکتا کیونکہ اس میں کیڑے کلبلا رہے ہیں۔
لال قلعہ دہلی، فتح پور ۔۔ کتنا کچھ ہے جس کی بازیافت کے سراب کے سہارے وہ زندگی کے باقی دن گزار سکتا ہے۔ گزار سکتا ہے اگر کسی طرح یہ پیاس بجھ جائے۔ لیکن کیسے بجھے۔ پانی میں کیڑے ہیں اور یہ کیڑے کمپنی نے ڈالے ہیں۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی، ایمپائر، سلطنت کا نیا نام ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جو دنیا کی پہلی ٹرانس نیشنل کارپوریشن اور پہلی بڑی جوائنٹ سٹاک کمپنی ہے۔ کمپنی جس نے دنیا کی اقتصادی تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ کمپنی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ It found India rich and left it poor۔ کمپنی جو اپنے عروج پر دنیا کے ہر پانچویں انسان پر حاکم تھی جس کی ذاتی فوج اڑھائی لاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھی اور جو پورے برطانیہ سے زیادہ ریونیو جنریٹ کرتی تھی۔
سن 1947 سے سن 2015۔ وقت بدلتا ہے۔ مگر وقت بھی کہاں بدلتا ہے۔ صرف نام بدلتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی پرانا نام تھا اب کمپنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ نام بدل گیا کام وہی ہیں۔ ہاں طریقہ کار ضرور بدل گیا۔ یہ ایمپائر اور اس کی ساتھی سلطنتیں غریب ممالک کو سالانہ اربوں ڈالر کے قرضے دیتی ہیں، سود خوروں کی طرح کہ جن کا قرضہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جاتا ہے اور حالت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ یہ غریب ملک پہلے لئے ہوئے قرضے کی قسط کی ادائیگی کے لئے ان ایمپائرز، ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں سے مزید قرض لیتی ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ان ایمپائرز کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کا بجٹ ان ایمپائرز سے قرضہ لئے بغیر نہیں بنتا، ہر حکومت قرض لیتی ہے، پچھلی حکومت کی جانب سے لئے ہوئے قرض اتارنے کے لئے۔ کوئی حکومت یہ نہیں کرتی کہ جس طرح حکومت سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کرتی ہے اسی طرح ان ایمپائرز کے قرضے کلیئر کر دے، ایسا نہ حکومتیں چاہتی ہیں نا یہ ایمپائرز۔ ابھی ہم نے IMFسے مزید قرضہ لیا ہے تاکہ ایک تو سابقہ قرضے کی قسط اتاری جا سکے دوسرے بجٹ کے اہداف کو پوراکیا جا سکے۔ یہ تو خیر حکومت کی دانشورانہ باتیں ہیں جو ہمارے جسے ناقص العقل لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ لیکن اتنی بات ہمیں ضرور سمجھ آتی ہے کہ قرضہ دے کر یہ ایسٹ انڈیا کمپنیاں ہماری حالت رنگون میں پڑے عالم پناہ جیسی کرچکے ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارے پانی کے گھڑے میں کیڑے کلبلا رہے ہیں اور یہ کیڑے ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے ڈالے ہیں۔
حکومت نے اپنی انرجی پالیسی کے تحت قرض دہندگان کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ نو منتخب حکومت کو اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اس بات کا احساس تھا کہ اسے توانائی کے بحران سے نمٹنا پڑیگا اور اب حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد اسے اس راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کے لئے بعض سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ حکومت نہایت احتیاط کے ساتھ توانائی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حرکت میں ہے اور اس مقصد کے لئے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا جا رہا ہے جبکہ نئی توانائی پالیسی کے تحت بروئے کار آنے والے منصوبوں کے لئے عالمی بنک مالی امداد فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ لیکن ان اداروں کی امداد کا انحصاار اس بات پر ہے کہ ہم اپنی توانائی پالیسی کس انداز میں تشکیل دیتے ہیں حکومت کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے خلاف کمپنیوں کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔
ہم پانی کے اس گھڑے کو حسرت سے دیکھتے ہیں جس کا پانی ہم آزادی سے پی نہیں سکتے کیونکہ اس میں کیڑے کلبلا رہے ہیں۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اپنے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے اپنے اداروں کو اپنے قبضے میں ر کھ سکیں ہمیں ان کی نجکاری کرنا ہو گی چاہے ہمارے ماحول کے مطابق یہ نجکاری سود مند ہو یا نا ہو، ہمیں بجلی کی قیمت بڑھانا ہوگی چاہے اس ملک کے غریب عوام اس کی ادائیگی کے قابل ہوں یا نہ ہوں۔ ہمیں اپنے روپے کی قیمت کم کرنی ہوگی تاکہ قرضہ دینے والے ان ایمپائرز کو قرضے کی واپسی دوگنے سے زائد ہوسکے۔ ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے اندازِ حکمرانی بدل گئے ہیں پہلے ملکوں پر قبضہ کیا جاتا تھا اب ہماری بندوق ہمیں نشانہ۔
تجزیہ کاروں نے غلط نہیں کہا کہ پاکستان کے پہلے 50 سالوں میں یہ مغربی دنیا، یہ ایسٹ انڈیا کمپنیاں 13 ٹرلین ڈالر لے جا چکی ہیں اور اس کے بعد کے تیرہ سالوں میں کتنا لے جا چکی ہوں گی اس کا اندازہ آپ خود کر لیجئے۔ کاش حکومت ہمیں اس عذاب سے چھٹکارہ دلادے، ہماری عزتِ نفس ہمیں لوٹا دے، پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر کھڑا کر دے۔ اگر ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں کو اسی طرح دیس سے نکال دیا جائے جس طرح قائداعظم کی سربراہی میں نکالا گیا تھا اور یہ مملکتِ خداداد حاصل ہوئی، تو ہم اپنے حکمرانوں کے احسان مند ہونگے۔
[poll id="453"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لال قلعہ دہلی، فتح پور ۔۔ کتنا کچھ ہے جس کی بازیافت کے سراب کے سہارے وہ زندگی کے باقی دن گزار سکتا ہے۔ گزار سکتا ہے اگر کسی طرح یہ پیاس بجھ جائے۔ لیکن کیسے بجھے۔ پانی میں کیڑے ہیں اور یہ کیڑے کمپنی نے ڈالے ہیں۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی، ایمپائر، سلطنت کا نیا نام ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جو دنیا کی پہلی ٹرانس نیشنل کارپوریشن اور پہلی بڑی جوائنٹ سٹاک کمپنی ہے۔ کمپنی جس نے دنیا کی اقتصادی تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ کمپنی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ It found India rich and left it poor۔ کمپنی جو اپنے عروج پر دنیا کے ہر پانچویں انسان پر حاکم تھی جس کی ذاتی فوج اڑھائی لاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھی اور جو پورے برطانیہ سے زیادہ ریونیو جنریٹ کرتی تھی۔
سن 1947 سے سن 2015۔ وقت بدلتا ہے۔ مگر وقت بھی کہاں بدلتا ہے۔ صرف نام بدلتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی پرانا نام تھا اب کمپنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ نام بدل گیا کام وہی ہیں۔ ہاں طریقہ کار ضرور بدل گیا۔ یہ ایمپائر اور اس کی ساتھی سلطنتیں غریب ممالک کو سالانہ اربوں ڈالر کے قرضے دیتی ہیں، سود خوروں کی طرح کہ جن کا قرضہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جاتا ہے اور حالت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ یہ غریب ملک پہلے لئے ہوئے قرضے کی قسط کی ادائیگی کے لئے ان ایمپائرز، ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں سے مزید قرض لیتی ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ان ایمپائرز کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کا بجٹ ان ایمپائرز سے قرضہ لئے بغیر نہیں بنتا، ہر حکومت قرض لیتی ہے، پچھلی حکومت کی جانب سے لئے ہوئے قرض اتارنے کے لئے۔ کوئی حکومت یہ نہیں کرتی کہ جس طرح حکومت سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کرتی ہے اسی طرح ان ایمپائرز کے قرضے کلیئر کر دے، ایسا نہ حکومتیں چاہتی ہیں نا یہ ایمپائرز۔ ابھی ہم نے IMFسے مزید قرضہ لیا ہے تاکہ ایک تو سابقہ قرضے کی قسط اتاری جا سکے دوسرے بجٹ کے اہداف کو پوراکیا جا سکے۔ یہ تو خیر حکومت کی دانشورانہ باتیں ہیں جو ہمارے جسے ناقص العقل لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ لیکن اتنی بات ہمیں ضرور سمجھ آتی ہے کہ قرضہ دے کر یہ ایسٹ انڈیا کمپنیاں ہماری حالت رنگون میں پڑے عالم پناہ جیسی کرچکے ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارے پانی کے گھڑے میں کیڑے کلبلا رہے ہیں اور یہ کیڑے ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے ڈالے ہیں۔
حکومت نے اپنی انرجی پالیسی کے تحت قرض دہندگان کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ نو منتخب حکومت کو اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اس بات کا احساس تھا کہ اسے توانائی کے بحران سے نمٹنا پڑیگا اور اب حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد اسے اس راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کے لئے بعض سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ حکومت نہایت احتیاط کے ساتھ توانائی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حرکت میں ہے اور اس مقصد کے لئے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا جا رہا ہے جبکہ نئی توانائی پالیسی کے تحت بروئے کار آنے والے منصوبوں کے لئے عالمی بنک مالی امداد فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ لیکن ان اداروں کی امداد کا انحصاار اس بات پر ہے کہ ہم اپنی توانائی پالیسی کس انداز میں تشکیل دیتے ہیں حکومت کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے خلاف کمپنیوں کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
کرتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ہم پانی کے اس گھڑے کو حسرت سے دیکھتے ہیں جس کا پانی ہم آزادی سے پی نہیں سکتے کیونکہ اس میں کیڑے کلبلا رہے ہیں۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اپنے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے اپنے اداروں کو اپنے قبضے میں ر کھ سکیں ہمیں ان کی نجکاری کرنا ہو گی چاہے ہمارے ماحول کے مطابق یہ نجکاری سود مند ہو یا نا ہو، ہمیں بجلی کی قیمت بڑھانا ہوگی چاہے اس ملک کے غریب عوام اس کی ادائیگی کے قابل ہوں یا نہ ہوں۔ ہمیں اپنے روپے کی قیمت کم کرنی ہوگی تاکہ قرضہ دینے والے ان ایمپائرز کو قرضے کی واپسی دوگنے سے زائد ہوسکے۔ ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے اندازِ حکمرانی بدل گئے ہیں پہلے ملکوں پر قبضہ کیا جاتا تھا اب ہماری بندوق ہمیں نشانہ۔
تجزیہ کاروں نے غلط نہیں کہا کہ پاکستان کے پہلے 50 سالوں میں یہ مغربی دنیا، یہ ایسٹ انڈیا کمپنیاں 13 ٹرلین ڈالر لے جا چکی ہیں اور اس کے بعد کے تیرہ سالوں میں کتنا لے جا چکی ہوں گی اس کا اندازہ آپ خود کر لیجئے۔ کاش حکومت ہمیں اس عذاب سے چھٹکارہ دلادے، ہماری عزتِ نفس ہمیں لوٹا دے، پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر کھڑا کر دے۔ اگر ان ایسٹ انڈیا کمپنیوں کو اسی طرح دیس سے نکال دیا جائے جس طرح قائداعظم کی سربراہی میں نکالا گیا تھا اور یہ مملکتِ خداداد حاصل ہوئی، تو ہم اپنے حکمرانوں کے احسان مند ہونگے۔
[poll id="453"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس