اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق… بڑی کامیابی
اقتصادی راہداری منصوبے کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمایندگی ہوگی
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے جمعرات کو بلائی گئی دوسری آل پارٹیز کانفرنس میں تمام پارلیمانی جماعتوں نے چین،پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی متفقہ طور پر منظوری دے دی جب کہ گوادر کو چینی شہر کاشغر کے ساتھ ملانے کے لیے مغربی روٹ کو ترجیحی طور پر تعمیر کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ قومی معاملات پر اتفاق رائے اور افہام و تفہیم کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں،پاک چین دوستی سیاست سے بالاتر اور تمام جماعتوں کے لیے یکساں ہے،حکومت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو شفاف بنانا چاہتی ہے،اقتصادی راہداری منصوبے کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمایندگی ہو گی۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کچھ سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آئے اور انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اس منصوبے کے روٹ میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے۔ ان سیاستدانوں کی جانب سے احتجاج سامنے آنے کے بعد یہ خدشات جنم لینے لگے کہ کہیں یہ منصوبہ باہمی سیاسی انتشار کا شکار نہ ہو جائے اس لیے حکومت نے بارہا یہ اعلان کیا کہ اس منصوبے کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی مگر یوں لگتا تھا جیسے حکومتی وضاحت کے باوجود احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہو رہیں۔ لہٰذا حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے مستقبل میں سامنے آنے والی سیاسی انتشار اور افتراق کا بروقت ادراک کرتے ہوئے تمام سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے بلائی گئی دوسری آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر پیدا ہونے والے تحفظات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور تمام پارلیمانی جماعتیں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں متفق ہو گئیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں خورشید شاہ،اسفند یار ولی،فاروق ستار،مولانا فضل الرحمن،سراج الحق،شاہ محمود قریشی،مشاہد حسین،محمود اچکزئی،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ قومی منصوبے پر جنم لینے والے اختلافات کو تمام پارلیمانی جماعتوں نے افہام و تفہیم سے حل کر لیا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے حکومت سمیت تمام سیاستدانوں نے سبق سیکھا ہے اور سڑکوں پر آ کر ایک دوسرے کا راستہ روکنے کے بجائے افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائی جو خوش آیند ہے، ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے قومی سیاست کا مرکزی نقطہ اور نصب العین ایسا ہی رویہ ہونا چاہیے۔ اقتصادی کوریڈور پر تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے سے نہ صرف چینی حکومت بلکہ پوری دنیا کو بھی مثبت پیغام پہنچا ہے،اگر اس منصوبے پر پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق نہ ہوتا تو خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ اختلافات کی نذر نہ ہو جائے اگر ایسا ہوتا تو یہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر نقصان دہ ثابت ہوتا اور غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنے سے احتراز برتتیں۔
دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ خلیل اللہ قاضی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں واضح طور پر کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے بھارتی منصوبے سے بخوبی آگاہ ہیں،بھارتی میڈیا اس منصوبے کے خلاف مہم شروع کیے ہوئے ہے جو مثبت بات نہیں،یہ کوریڈور پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے پاکستان اور چین نے اس پر عملدرآمد کا تہیہ کر رکھا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان سے کافی عرصے سے ظاہر کیے جانے والے ان خدشات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں گوادر کو کاشغر کے ساتھ ملانے کے لیے مغربی روٹ کو سب سے پہلے تعمیر کرنے پر اتفاق کیا گیا،وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بتایا کہ مغربی روٹ حسن ابدال،میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب سے ہوتا ہوا گوادر جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق راہداری منصوبے کے تحت سڑکیں،ریل نیٹ ورکس،ایئرپورٹس اور سی پورٹس تعمیر کی جائیں گی،راہداری کے ساتھ اقتصادی زونز اور پاور ہاؤسز بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چین پاکستان میں 86 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں 34 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لیے ہیں۔
اختلافات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن قومی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کو اختلافات کی بھینٹ چڑھانا کسی قوم کی سب سے بڑی بدقستمی ہے۔ اب اقتصادی راہداری منصوبے پر تمام پارلیمانی جماعتوں کا متفق ہونا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ سیاستدانوں کی سوچ میں واضح تبدیلی آ گئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام پارلیمانی جماعتوں کو اکٹھا کر کے بڑی اہم کامیابی حاصل کی ہے،کیا ہی اچھا ہو کہ اب وہ کالا باغ ڈیم سمیت دیگر قومی مسائل کو بھی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور اس میں اسی طرح کامیابی حاصل کریں جس طرح اقتصادی راہداری منصوبے پر حاصل کی گئی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کچھ سیاسی جماعتوں کے تحفظات سامنے آئے اور انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اس منصوبے کے روٹ میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے۔ ان سیاستدانوں کی جانب سے احتجاج سامنے آنے کے بعد یہ خدشات جنم لینے لگے کہ کہیں یہ منصوبہ باہمی سیاسی انتشار کا شکار نہ ہو جائے اس لیے حکومت نے بارہا یہ اعلان کیا کہ اس منصوبے کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی مگر یوں لگتا تھا جیسے حکومتی وضاحت کے باوجود احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں ہو رہیں۔ لہٰذا حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے مستقبل میں سامنے آنے والی سیاسی انتشار اور افتراق کا بروقت ادراک کرتے ہوئے تمام سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے بلائی گئی دوسری آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر پیدا ہونے والے تحفظات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور تمام پارلیمانی جماعتیں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں متفق ہو گئیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں خورشید شاہ،اسفند یار ولی،فاروق ستار،مولانا فضل الرحمن،سراج الحق،شاہ محمود قریشی،مشاہد حسین،محمود اچکزئی،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ قومی منصوبے پر جنم لینے والے اختلافات کو تمام پارلیمانی جماعتوں نے افہام و تفہیم سے حل کر لیا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے حکومت سمیت تمام سیاستدانوں نے سبق سیکھا ہے اور سڑکوں پر آ کر ایک دوسرے کا راستہ روکنے کے بجائے افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائی جو خوش آیند ہے، ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے قومی سیاست کا مرکزی نقطہ اور نصب العین ایسا ہی رویہ ہونا چاہیے۔ اقتصادی کوریڈور پر تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے سے نہ صرف چینی حکومت بلکہ پوری دنیا کو بھی مثبت پیغام پہنچا ہے،اگر اس منصوبے پر پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق نہ ہوتا تو خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ اختلافات کی نذر نہ ہو جائے اگر ایسا ہوتا تو یہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر نقصان دہ ثابت ہوتا اور غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنے سے احتراز برتتیں۔
دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ خلیل اللہ قاضی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں واضح طور پر کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے بھارتی منصوبے سے بخوبی آگاہ ہیں،بھارتی میڈیا اس منصوبے کے خلاف مہم شروع کیے ہوئے ہے جو مثبت بات نہیں،یہ کوریڈور پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے پاکستان اور چین نے اس پر عملدرآمد کا تہیہ کر رکھا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان سے کافی عرصے سے ظاہر کیے جانے والے ان خدشات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں گوادر کو کاشغر کے ساتھ ملانے کے لیے مغربی روٹ کو سب سے پہلے تعمیر کرنے پر اتفاق کیا گیا،وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بتایا کہ مغربی روٹ حسن ابدال،میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب سے ہوتا ہوا گوادر جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق راہداری منصوبے کے تحت سڑکیں،ریل نیٹ ورکس،ایئرپورٹس اور سی پورٹس تعمیر کی جائیں گی،راہداری کے ساتھ اقتصادی زونز اور پاور ہاؤسز بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چین پاکستان میں 86 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں 34 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لیے ہیں۔
اختلافات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن قومی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں کو اختلافات کی بھینٹ چڑھانا کسی قوم کی سب سے بڑی بدقستمی ہے۔ اب اقتصادی راہداری منصوبے پر تمام پارلیمانی جماعتوں کا متفق ہونا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ سیاستدانوں کی سوچ میں واضح تبدیلی آ گئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام پارلیمانی جماعتوں کو اکٹھا کر کے بڑی اہم کامیابی حاصل کی ہے،کیا ہی اچھا ہو کہ اب وہ کالا باغ ڈیم سمیت دیگر قومی مسائل کو بھی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور اس میں اسی طرح کامیابی حاصل کریں جس طرح اقتصادی راہداری منصوبے پر حاصل کی گئی ہے۔