اعزاز احمد آذر

دوسرے لفظوں میں اس کا مشاہدہ لاجواب تھا اور یہ بڑی خوبی ہوتی ہے۔

Amjadislam@gmail.com

FAISALABAD:
اعزاز احمد آذر کے انتقال کی خبر مجھے ملتان میں ملی جب کہ اگلے دو دن مجھے بہاولپور میں ہونا تھا سو میں نہ تو اس کی نماز جنازہ میں شامل ہو پایا اور نہ ہی قل خوانی میں حاضری دے سکا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے اور افسوس رہے گا۔

فون پر اس کے برادر خورد عزیزی افتخار مجاز سے تعزیت کرتے ہوئے کم و بیش 45 برس کی رفاقت اور ملاقاتیں آنکھوں میں پھیلتی چلی گئیں ،اس کا خوش رو، خوش لباس اور خوش آواز وجود زندگی سے کس قدر بھر پور تھا۔ اسے وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کو اعزاز احمد آذر کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے۔ دل کے عارضے میں مبتلا ہونے سے پہلے وہ جس قدر متحرک تھا اسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی لیکن اس سے زیادہ خوشگوار حیرت گزشتہ چند برسوں میں ہوئی۔

جب وہ آپریشن کے مراحل سے گزرنے اور اس سے ملحقہ مسائل کے باوجود ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات، رسائل اور ادبی تقریبات میں ایسی باقاعدگی اور مستعدی کے ساتھ نظر آتا رہا جو کسی بھی جوان اور صحت مند آدمی کے لیے باعث رشک ہوسکتی تھی۔ البتہ حالیہ چند ملاقاتوں میں اس کے چہرے اور چال ڈھال سے ایک اضمحلال کی کیفیت محسوس ہوئی لیکن اس کی گفتگو کی وہ شگفتگی ہمیشہ قائم رہی جو اس کی شخصیت کا سرنامہ تھی۔

اعزاز احمد آذر نیشنل سینٹرز کی ملازمت کے دوران خاصا عرصہ لاہور سے باہر رہا لیکن جہاں جہاں بھی رہا وہاں کے لوگ اب تک اسے یاد کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا محفل باز، مجلسی اور شگفتہ مزاج ، مگر ذمے دار شخص تھا جس کی صحبت میں گزارہ ہوا وقت کوالٹی ٹائم بن جاتا تھا کہ وہ اپنی ہم عصر ادبی و سماجی زندگی کی ایک چلتی پھرتی ڈکشنری تھا۔ جس سے اس کا ہر ملنے والا فیض یاب ہوا۔ آپ اس سے کسی موضوع یا شخصیت پر بات کریں وہ ہمیشہ اس کے ضمن میں کچھ بالکل نئی اور دلچسپ معلومات فراہم کرتا تھا اور حیران کر دیتا تھا۔

گزشتہ چند برسوں سے اس کی بیشتر نثری تحریریں انھی یادداشتوں پر مبنی تھیں جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے کیسی بھرپور، مکمل اور متحرک زندگی گزاری ہے اور اس کی آنکھ کیسے کسی شخصیت کے ان پہلوئوں کو بآسانی دیکھ پاتی تھی جن میں سے بیشتر اس کے دیگر جاننے والوں کی نگاہوں سے یا تو اوجھل رہے یا پھر وہ ان کو اس طرح سے سمجھ اور بیان نہیں کرپائے جو اس کا حق بنتا تھا اور جسے اعزاز احمد آذر نے بخوبی ادا کیا۔

دوسرے لفظوں میں اس کا مشاہدہ لاجواب تھا اور یہ بڑی خوبی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے بڑے اور کامیاب گیت نگار تنویر نقوی کے بارے میں اس نے جس تفصیل اور خوب صورتی سے لکھا اس کا دسواں حصہ بھی کہیں اور نظر نہیں آتا۔

ٹی وی اینکر اور میزبان کی حیثیت سے بھی اس نے بے شمار عمدہ اور یاد رہ جانے والے پروگرام کیے جن میں سے بعض میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا بالخصوص عید کے موقعوں پر اس نے ادبی بیٹھک کی طرز پر جو بے تکلف اور پر مزاح گفتگو پر مبنی چند پروگرام پیش کیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ ان میں ہماری تاریخ اور تہذیب کے وہ عکس محفوظ ہوگئے ہیں جن کو دیکھنے والی آنکھیں اب آہستہ آہستہ خود آذر کی آنکھوں کی طرح بند ہوتی جا رہی ہیں۔


نیشنل بک فائونڈیشن کے غزل کیلنڈر کے مطابق اس کا یوم ولادت 25 دسمبر 1942ء ہے اس حساب سے اس دارِ فانی میں اس کا قیام 72 برس اور کچھ مہینے رہا۔ اگرچہ بطور شاعر اس کا شمار ہمیشہ اپنے دور کے مقبول شعرأ میں رہا لیکن زیادہ شہرت اس کی نظم ''فرض کرو'' اور اس غزل کو ملی جسے اس کیلنڈر میں بھی اس کی نمایندہ غزل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں بھی یہ انتخاب بالکل درست ہے۔ دونوں کی تائید کے لیے میں یہ غزل درج کرتا ہوں۔

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا
اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا
دیار الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اُجال رکھنا
بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا
یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا
کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذر
تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا

اگرچہ عام طور پر شاعروں کی وفات کے بعد ان کی شاعری سے ایسے اشعار نکالے جاتے ہیں جن میں موت کی پرچھائیاں رقص کرتی ہوں لیکن کیا اس غزل کے مقطعے میں واقعی آذر نے اسی ''احتیاط'' سے کام نہیں لیا؟ اعزاز احمد آذر کے ساتھ ہمارے درمیان سے ایک اچھا شاعر، انسان اور اینکر پرسن ہی نہیں اٹھا بلکہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا ایک خزانچی اور ایک زندہ استعارہ بھی رزق خاک ہوگیا سو آئیے اس کو اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے رب کریم سے ان اعلیٰ انسانی اور معاشرتی اقدار کی بھی خیر مانگتے ہیں جن کے فروغ اور تسلسل کے لیے وہ ساری عمر کوشاں رہا۔
Load Next Story