یوم تکبیر برائے دشمن
ہماری فوج بھارت کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ لڑ رہی ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جا رہا ہے
اس کا دوسرا عنوان ہو سکتا ہے پاکستان کا یوم تکبیر یعنی اس دن کی یاد جب پاکستان کے جدی پشتی دشمن کی زبان بھی بند کر دی گئی اس کے ہاتھ پاؤں بھی کاٹ دیے گئے اور وہ لولا لنگڑا اور گم سم ہو کر رہ گیا جس کی زبان اس کے سامنے پڑی تھی اور جس کے ہاتھ پاؤں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اس کے سامنے تڑپ رہے تھے۔
پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اس کے منصوبے اپنے دست و بازو سے محروم کر دیے گئے تھے اور وہ بے بس اور لاچار ہو کر اپنے وسیع و عریض ملک بہت بڑی آبادی اور بڑی فوجی طاقت کو دیکھ دیکھ کر آنسو بہا رہا تھا۔ یہ سب اور اس سے بھی بہت زیادہ یوم تکبیر کا کارنامہ تھا جو اس اللہ اکبر کے نعرے کا دوسرا نام تھا جس کی گونج گرج سے بلوچستان کی ایک پہاڑی کا رنگ بدلنے کی خوبصورت شکل ہمارے سامنے رونما ہوئی۔ ہماری بصارت کو نئی چمک دمک دے گئی اور ہمارے دشمن کو اندھا کر گئی۔ ہم ایسے ہی ان دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔
ہمارے قائد نے برطانیہ سے واپس وطن آتے ہوئے قاہرہ میں ایک لیکچر کے دوران عرب بھائیوں کو بتایا کہ اگر برصغیر میں مسلمانوں کا ملک نہ بن سکا تو وہاں کے ہندو مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔ آج ہندوستان میں نئی حکومت اسی پالیسی پر چل رہی ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ ہندوستان کا ملک صرف ہندوؤں کا ملک ہے یہاں کسی غیر ہندو کو رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی یا تو وہ مذہب بدل کر ہندو ہو جائے یا پھر ملک چھوڑ جائے۔
ابھی ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ بمبئی میں ایک مسلمان خاتون کو اس کے فلیٹ سے بے دخل کر دیا گیا۔ آج کے بھارت میں ہندو لیڈروں کے وہ تمام ڈرامے ختم ہو چکے ہیں جو کسی سیکولر اور جمہوری نظام کے نام پر رچائے گئے تھے۔ بھارت کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی بڑائی کی وجہ اس کی جمہوریت اور سیکولرازم تھی لیکن اب جب بھارت کی حکومت ان اصولوں کو ترک کر رہی ہے تو دنیا میں اس کی ساکھ سخت مجروح ہو رہی ہے اور ہمیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
بھارت کی یہ ساری پریشانی اور پرانے بنیادی اصولوں سے واپسی درحقیقت پاکستان کے یوم تکبیر کا ردعمل ہے کیونکہ پاکستان کا ایٹم بم بھارت کی امیدوں کو خاک میں ملا گیا ہے اور وہ اب اپنے ان منصوبوں کو لپیٹ کر کسی تجوری میں رکھ چکا ہے جو پاکستان پر فوجی حملے کی صورت میں زیر عمل آنے تھے۔ اب اس کے پاس صرف دہشت گردی اور 'را' جیسی خفیہ جاسوس ایجنسیوں کی کارروائیاں باقی رہ گئی ہیں۔ بھارت کی بدقسمتی کہ پاکستان کو ایک ایسا سپہ سالار مل گیا ہے جو نہ صرف بھارت کو خوب سمجھتا ہے بلکہ اس کی دہشت گردیوں کو ختم بھی کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔
ہماری فوج بھارت کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ لڑ رہی ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور بحمد اللہ کہ یہ جنگ ایک کامیاب جنگ ہے۔ بھارت کے پاکستانی حلیف اب کسی نہ کسی بہانے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید کے دوسرے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ ان دنوں چین کے تعاون سے ترقی و خوشحالی کی ایک شاہراہ کا ذکر ہو رہا ہے اس کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں مل سکتی تو اس کے راستے کو اپنے الفاظ میں ٹیڑھا کیا جا رہا ہے اور اگر یہ راستہ ان کے سپرد کر کے کہا جائے کہ اب آپ اپنی مرضی کے مطابق کر دیں تو وہ تب بھی کوئی نہ کوئی نقص نکال لائیں گے۔
جناب اسفند یار ولی جو پاکستان کی روایتی مخالف جماعت کے لیڈر ہیں اعلان کر رہے ہیں کہ وہ کالا باغ ڈیم کی طرح اسے بھی نہیں بننے دیں گے۔ ان کے بزرگوں نے تو پاکستان کو بھی بننے سے بہت روکا تھا لیکن وہ پھر بھی بن گیا اس پر وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کو خیر باد کہہ گئے اور افغانستان کے جلال آباد منتقل ہو گئے۔ پہلے پاکستان نا منظور پھر کالا باغ نا منظور اور اب یہ راستہ نا منظور۔ ہر پاکستانی بات نا منظور پاکستان کی بہت کمزور اور ٹوٹی پھوٹی حکومتیں ہر نا منظور کے سامنے خاموش رہیں اور یہ نا منظور بڑھتا چلا گیا۔
خیبرپختونخوا کے ایک سینئر سیاستدان وزیر نے کہا تھا کہ ہمیں تو پاکستان تب بھی نا منظور تھا اور اب بھی نا منظور ہے میں نے ان کی بات ٹی وی پر سنی اور تعجب ہوا کہ وہ کم از کم کچھ رکھ رکھاؤ سے ہی کام لے لیتے تو بہتر تھا۔ مرحوم خان عبدالولی خان ہمارے مہربان تھے اور ان کے سیاسی خیالات بھی سب پر واضح تھے لیکن وہ حالات پر بھی دھیان رکھتے تھے اور اس کے مطابق سیاست کرتے تھے۔ ون یونٹ کی جب ہر کسی نے مخالفت کی تو خان صاحب نے اس کی حمایت کی میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے پالیسی بدل لی ہے تو انھوں نے کہا کہ نہیں لیکن کیا کروں کہ پٹھان کا ٹرک طورخم سے چلتا ہے اور پورے پاکستان سے گزر کر کراچی پہنچتا ہے۔
یہ سب ون یونٹ ہے تو میں کیا پٹھان کے اس ٹرک کا راستہ بند کر دوں۔ ولی خان ایک شائستہ اور شستہ سیاستدان تھے۔ حمایت اور مخالفت دونوں عقل کے ساتھ کرتے تھے یہ نہیں کہ ہر بات نا منظور۔ لطیفہ ہے کہ ہمارے رقاص وزیر اعلیٰ نے سب سے بڑھ کر آگ لگا دینے کی دھمکی دی ہے جس طرح مشہور ہے کہ بعض پکے گانوں سے دیے جل اٹھتے ہیں اس طرح عین ممکن ہے رقص کی بعض دھنوں سے آگ بھی بھڑک اٹھتی ہو۔ جناب عمران خان کو اپنی نئی ازدواجی زندگی سے اطمینان کے بعد اب سیاسی رشتوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
تو بات یوم تکبیر کی ہو رہی تھی اور یوم تکبیر کے ان شعلوں کی جو بھارت کی دنیا کو جلا رہے ہیں پاکستان اگر پرامن ملک نہ ہوتا تو اپنے ایٹمی تجربے کے بعد بھارت کو اس کی اطلاع ضرور دیتا۔ ایک اطلاع تو جنرل صدر ضیاء الحق نے وزیراعظم راجیو کو دی تھی کہ بچے نہ بنو ہمارے پاس زیادہ اور موثر سامان موجود ہے چنانچہ یہ بچہ فوراً جوان ہو گیا اور پاکستان کی سرحدوں سے چمٹی ہوئی بھارتی فوج الٹے قدموں سے واپس ہو گئی لیکن پاکستانیوں کی ایک خواہش ضرور ہے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کو آزاد کرائیں جن کا مسئلہ دنیا کی ہر سطح پر موجود ہے اور زندہ ہے۔ بھارت کی چالاک ڈپلومیسی نے اس مسئلے کو دبا رکھا ہے اور ہم پاکستانی نہ جانے کیوں بس وقت گزار رہے ہیں۔ بہر کیف ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے یہ یوم تکبیر ہمیں ایسے کئی فرائض یاد دلاتا ہے۔