تشدد کا رجحان
پنجاب بھر کے وکلاء نے ڈسکہ کے وکلاء کی پیروی کی، جس کی وجہ سے عدالتوں میں دو دن تک تمام کام معطل رہا۔
ڈسکہ میں ایس ایچ او کی فائرنگ سے وکلاء کی مقامی بار ایسو سی ایشن کے صدر اور ایک وکیل کے قتل کے بعد لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی ہوئی جس سے معاشرے کے بحران کا معاملہ پھر آشکار ہوا۔ ڈسکہ میں وکلاء ڈی سی او کے رویے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
مشتعل وکلاء کے رویے سے ڈی سی او اور ان کے عملے کو خطرہ محسوس ہوا، تو پولیس طلب کر لی گئی اور ایس ایچ او نے بار ایسوسی ایشن کے صدر کو براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے ان پر سرکاری پستول سے فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں دو وکلاء جاں بحق جب کہ مزید ایک وکیل اور ایک راہگیر زخمی ہوئے۔ ڈسکہ میں وکلاء اور نامعلوم افراد پر مشتمل ہجوم نے سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا۔
پنجاب بھر کے وکلاء نے ڈسکہ کے وکلاء کی پیروی کی، جس کی وجہ سے عدالتوں میں دو دن تک تمام کام معطل رہا۔ اس واقعے میں پولیس اور وکلاء نے تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کی۔ پنجاب میں پولیس تشدد ایک ضرب المثل کی حیثیت بن چکا ہے۔ پنجاب پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے مخالف افراد، گروہ اور غریب لوگوں پر تشدد اس کا شعار ہے۔ عمومی طور پر حکمرانوں کے احکامات کی اطاعت میں تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا پولیس کی قدیم روایت ہے۔
برطانوی دورِ حکومت سے پنجاب میں پولیس نے حکومت کے اقتدار کو مضبوط کیا۔ پہلے صرف سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، پھر عام آدمی کو بھی نشانہ بنا کر پولیس کی دھاک بٹھا دی گئی۔ انگریزوں کے دور میں امرتسر میں جلیانوانہ باغ میں ہزاروں افراد پر بہیمانہ فائرنگ اور سیکڑوں افراد کی ہلاکت متحدہ پنجاب پولیس کا بدترین کارنامہ تھا۔ اس وقت ضلع افسر جنرل ڈائر کے حکم پر ہندو ستانی باغیوں کا قتلِ عام ہوا تھا تا کہ لوگ انگریز حکومت کو چیلنج کرنا چھوڑ دیں۔
آزادی کے بعد حکمرانوں نے پولیس کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال جاری رکھا، جس کی وجہ سے پولیس کو تشدد کا لائسنس مل گیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں پولیس نے احتجاج کرنے والوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پولیس کو مخالفین کو کمزورکرنے کے لیے استعمال کیا مگر 1988ء اور 1999ء تک پولیس کے سیاسی استعمال کے مواقع کم ملے۔ گزشتہ برس ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمے داریاں بھی پولیس پر عائد کی گئی ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک سال بعد پھر سے ڈسکہ میں پولیس افسروں نے تشدد کا راستہ اختیار کر کے دو وکیلوں کو شہید کیا۔ پولیس کے تشدد کی روایت تو قدیم ہے مگر وکلاء نے بھی جس طرح پورے پنجاب میں تشدد کا سہارا لیا وہ بھی ایک بنیادی سوال ہے۔ سینئر وکلاء کہتے ہیں کہ وکلاء میں اجتماعی طور پر تشدد کے رجحانات نہیں تھے، وکلاء نے فوجی آمروں کے خلاف تحریک میں ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ 60 برسوں کے دوران آمروں نے وکلاء کے جلسہ جلوس روکنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا مگر وکلاء نے جواب میں کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔
2007ء میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں وکلاء کا تشدد آمیز کردار ابھر کر سامنے آیا۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں چیف جسٹس افتخار چوہدری پاکستان کے ہر بڑے شہر میں گئے۔ ان کی تقریر سننے کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے، اسی طرح افتخار چوہدری کے جلوس میں شریک وکلاء کی بھاری تعداد نے پرامن احتجاج کی نئی روایت قائم کی تھی۔ جب الیکشن کمیشن کے سامنے وکلاء پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جمع کیے گئے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری پر احتجاج کر رہے تھے تو اسلام آباد پولیس کے وکلاء پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔
مگر وکلاء نے جواب میں تشدد آمیز رویہ اختیار نہیں کیا تھا مگر وکلاء کی عظیم تحریک کے خاتمے کے بعد وکیلوں میں تشدد کا عنصر تقویت پا گیا۔ پہلے وکلاء نے لاہور کچہری میں آنے والے پولیس افسران کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا، وکلاء نے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پنجاب بھر کے وکلاء کے علاوہ دیگر صوبوں کے وکلاء نے بھی تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، یوں پولیس کا تشدد پسِ پشت چلا گیا۔
وکلاء نے پولیس والوں کے علاوہ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پنجاب بار کونسل نے ڈسکہ کے وکلاء کے قتل کا مقدمہ ایک ماہ میں نمٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پنجاب میں اس سے پہلے قتل ہونے والے وکلاء کے مقدمات پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوا ہے۔ اس دفعہ وکلاء نے گھیراؤ جلاؤ کر کے ایک اور بری مثال قائم کی۔ نوجوان وکلاء کا اپنے سینئر رہنماؤں کی بات پر دھیان نہ دینا بھی اہم معاملہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مخصوص مفادات حاصل کرنے کے لیے وکلاء میں موجود ایک گروہ نے احتجاج کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔
مگر پنجاب کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وکلاء کے تشدد آمیز رویہ پر بات نہ کر کے سیاسی شعور کا ثبوت دیا۔ وکلاء رہنماؤں کو احتجاج کے دوران عدالتوں کے بائیکاٹ کے طریقہ کار کا متبادل تلاش کرنا ہو گا۔ ڈسکہ میں حکام کی جانب سے پولیس کے ایس ایچ او کی گرفتاری کے بعد بھی وکلاء کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ انھوں نے پورے صوبے میں پرتشدد مظاہرے کیے اور سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا گیا۔
وکلاء نے اہم شاہراہوں پر دھرنے دیے اور یہ بات محسوس نہیں کی کہ فٹ پاتھ اور سڑکوں پر تشدد کا بے دریغ استعمال کیا۔ پولیس اور قانون کے محافظوں کی جانب سے قانون پر عملدرآمد سے روزی کمانے والوں میں تشدد کے رجحانات معاشرے کی سلامتی کے لیے خطرناک رجحان ہے۔ یہ محض کسی ایک پولیس افسر کے رویے کا نہیں اور نہ ہی چند سو وکیلوں کے تشدد کا معاملہ ہے بلکہ یہ پورے معاشرے میں تشدد کے پھیلاؤ کے اثرات کا اظہار ہے۔ ان واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ تشدد کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے کا ذہن کتنا خطرناک ہے۔ وکلاء رہنماؤں، پولیس افسروں، منتخب نمایندوں، اساتذہ، ماہرینِ نفسیات اور ابلاغیات کے ماہرین کو اس اہم مسئلے کی وجوہات اور خاتمے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔