بلوچستان میں دہشت گردی
بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ بھی مختلف گروہوں کو مدد فراہم کرتی ہیں
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً ستر کلو میٹر دور جنوب مشرق میں واقع ضلع مستونگ میں منگوچر اور کھڈکوچہ کے درمیانی علاقے میں جمعہ کی رات مسلح افراد کے ایک بڑے جتھے نے کراچی جانے والی دو مسافر کوچز کو زبردستی روک کر ان پر سوار پینتیس مسافروں کو اغواء کر لیا اور انھیں قریبی پہاڑیوں پر لے گئے جہاں ان پر فائرنگ کر کے اکیس افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
سیکیورٹی فورسز نے اطلاع ملنے پر حملہ آوروں کا تعاقب کیا اور اغوا کرنے والوں کے چنگل سے پانچ مغویوں کو چھڑا لیا جب کہ دیگر کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے بتایا کہ حملہ آوروں نے سیکیورٹی فورسز کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔اخباری اطلاع کے مطابق دو کوچوں میں سوار مسافر پشین سے کراچی جارہے تھے، جب یہ کوچیں مستونگ کے علاقے منگوچر اور کھڈ کوچہ کے درمیانی مقام پر پہنچیں تو مسلح افراد نے انھیں روکااور مسافروں کو نیچے اتار کرقریبی پہاڑیوں میں لے گئے جہاں انھیں قتل کیا گیا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ قتل ہونے والے افراد کا تعلق پشین ، قلعہ عبداللہ اور چمن سے بتایا گیا ہے جن میں زیادہ تر مزدور اور چھوٹے کاروباری لوگ شامل تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حملہ آوروں نے مسافروں کو اغوا کرنے سے پہلے ان کے شناختی کارڈ چیک کیے تھے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مغوی مسافروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس افسوسناک واقعہ کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
دریں اثنا ایک اور واقعہ میں لورالائی سے پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان جانے والی مسافر کوچ پر مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک سیکیورٹی اہلکار جاں بحق جب کہ ڈرائیور سمیت چار مسافر زخمی ہو گئے۔ بلوچستان میں گزشتہ کافی عرصے سے بعض مخصوص برادریوں کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے تدارک کے لیے حکمرانوں کی طرف سے بلند بانگ دعوے تو بیشک کیے جاتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ ایک افسوسناک واقعہ کے کچھ عرصے بعد ایک اور پہلے سے بھی بڑا وقوعہ رونما ہو جاتا ہے جس میں پچھلا واقعہ دب جاتا ہے اور فراموش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ارباب اختیار کو کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جس کے موثر نتائج برامد ہو سکیں اور آئے دن کے اس قتل و غارت سے نجات حاصل ہو سکے۔
بلوچستان امن و امان کے حوالے سے خاصا پیچیدہ صوبہ ہے، موجودہ صوبائی حکومت اگرچہ خاصی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور سیکیورٹی ادارے بھی قدرے بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے بلوچستان میں کئی گروپ بروئے کار ہیں۔ یہاں فرقہ پرست کالعدم تنظیمیں بھی زیر زمین کام کر رہی ہیں اور فرقہ ورانہ قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ ادھر قوم پرستی کے نام پر بھی بعض گروہ غریب و بے گناہ مزدوروں، ہنرمندوں اور اساتذہ کو قتل کر رہے ہیں۔ طالبان کا عنصر بھی موجود ہے اور ایسے گروہ بھی سرگرم عمل ہیں جو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ یوں بلوچستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور قانون شکنی کی کئی جہتیں ہیں۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ''خاد'' بھی مختلف گروہوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان اس حوالے سے متعدد بار اظہار خیال بھی کر چکی ہے۔ بلوچستان میں ملک دشمن گروپوں کے خاتمے کے لیے جدید اور سائنسی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے نیز سیکیورٹی اداروں کو اور زیادہ مضبوط بنایا جانا بھی ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان پولیس کی کارکردگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان حکومت کو جتنے مالی وسائل درکار ہوں وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیے جانے چاہئیں تا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی عذر نہ رہے۔ ادھر بلوچستان کی سیاسی قوتوں کو بھی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے خلاف دلیرانہ مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔
اگر مگر کی پالیسی سے مزید کنفیوژن پھیلتا ہے۔ بے گناہ اور پرامن افراد کو قتل کرنا ،کسی حوالے سے بھی جائز نہیں ہے۔ بے گناہوں کے قتل میں ملوث گروہ یا افرا کسی رعائت کے مستحق نہیں ہیں۔ بلوچستان میں مزدوروں اور کاروباری افراد کو بسیں روک کر شناخت کرکے قتل کرنے کی بے رحمانہ واردتیں کثرت سے ہورہی ہیں۔ بلوچستان کے دانشوروں اور اہل قلم کو بھی اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے اورسیاستدانوں کو کھل کر قاتلوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ سیاست میں دو ٹوک مؤقف اختیار کر کے ہی ملک دشمن اور بلوچستان دشمن گروپوں کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے جس کی موجودہ وقت میں بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ چین کے تعاون سے شروع ہونے والے اقتصادی راہداری کے اربوں ڈالر کے منصوبے میں کسی رخنہ اندازی کا خدشہ نہ رہے۔
اس سانحے کے بعد ہزاروں افراد نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ خود مظاہرین سے ملے۔ اپوزیشن جماعتیں جن میں جے یو آئی اور اے این پی بھی شامل تھیں ان کے ساتھ تھیں۔یہ ایک اچھا پیغام ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے اور کچھ عناصر اس صوبے میں موجود بھائی چارے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔غیرملکی قوتوں کے پروردہ عناصر اقتصادی راہداری منصوبے پر ہونے والے اتفاق رائے کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں اور ہم متحد ہو کر دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کا خاتمہ کریں گے۔
سیکیورٹی فورسز نے اطلاع ملنے پر حملہ آوروں کا تعاقب کیا اور اغوا کرنے والوں کے چنگل سے پانچ مغویوں کو چھڑا لیا جب کہ دیگر کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے بتایا کہ حملہ آوروں نے سیکیورٹی فورسز کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔اخباری اطلاع کے مطابق دو کوچوں میں سوار مسافر پشین سے کراچی جارہے تھے، جب یہ کوچیں مستونگ کے علاقے منگوچر اور کھڈ کوچہ کے درمیانی مقام پر پہنچیں تو مسلح افراد نے انھیں روکااور مسافروں کو نیچے اتار کرقریبی پہاڑیوں میں لے گئے جہاں انھیں قتل کیا گیا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ قتل ہونے والے افراد کا تعلق پشین ، قلعہ عبداللہ اور چمن سے بتایا گیا ہے جن میں زیادہ تر مزدور اور چھوٹے کاروباری لوگ شامل تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حملہ آوروں نے مسافروں کو اغوا کرنے سے پہلے ان کے شناختی کارڈ چیک کیے تھے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مغوی مسافروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس افسوسناک واقعہ کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
دریں اثنا ایک اور واقعہ میں لورالائی سے پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان جانے والی مسافر کوچ پر مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک سیکیورٹی اہلکار جاں بحق جب کہ ڈرائیور سمیت چار مسافر زخمی ہو گئے۔ بلوچستان میں گزشتہ کافی عرصے سے بعض مخصوص برادریوں کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے تدارک کے لیے حکمرانوں کی طرف سے بلند بانگ دعوے تو بیشک کیے جاتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ ایک افسوسناک واقعہ کے کچھ عرصے بعد ایک اور پہلے سے بھی بڑا وقوعہ رونما ہو جاتا ہے جس میں پچھلا واقعہ دب جاتا ہے اور فراموش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ارباب اختیار کو کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جس کے موثر نتائج برامد ہو سکیں اور آئے دن کے اس قتل و غارت سے نجات حاصل ہو سکے۔
بلوچستان امن و امان کے حوالے سے خاصا پیچیدہ صوبہ ہے، موجودہ صوبائی حکومت اگرچہ خاصی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور سیکیورٹی ادارے بھی قدرے بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے بلوچستان میں کئی گروپ بروئے کار ہیں۔ یہاں فرقہ پرست کالعدم تنظیمیں بھی زیر زمین کام کر رہی ہیں اور فرقہ ورانہ قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ ادھر قوم پرستی کے نام پر بھی بعض گروہ غریب و بے گناہ مزدوروں، ہنرمندوں اور اساتذہ کو قتل کر رہے ہیں۔ طالبان کا عنصر بھی موجود ہے اور ایسے گروہ بھی سرگرم عمل ہیں جو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ یوں بلوچستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور قانون شکنی کی کئی جہتیں ہیں۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ''خاد'' بھی مختلف گروہوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان اس حوالے سے متعدد بار اظہار خیال بھی کر چکی ہے۔ بلوچستان میں ملک دشمن گروپوں کے خاتمے کے لیے جدید اور سائنسی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے نیز سیکیورٹی اداروں کو اور زیادہ مضبوط بنایا جانا بھی ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان پولیس کی کارکردگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان حکومت کو جتنے مالی وسائل درکار ہوں وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیے جانے چاہئیں تا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی عذر نہ رہے۔ ادھر بلوچستان کی سیاسی قوتوں کو بھی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے خلاف دلیرانہ مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔
اگر مگر کی پالیسی سے مزید کنفیوژن پھیلتا ہے۔ بے گناہ اور پرامن افراد کو قتل کرنا ،کسی حوالے سے بھی جائز نہیں ہے۔ بے گناہوں کے قتل میں ملوث گروہ یا افرا کسی رعائت کے مستحق نہیں ہیں۔ بلوچستان میں مزدوروں اور کاروباری افراد کو بسیں روک کر شناخت کرکے قتل کرنے کی بے رحمانہ واردتیں کثرت سے ہورہی ہیں۔ بلوچستان کے دانشوروں اور اہل قلم کو بھی اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے اورسیاستدانوں کو کھل کر قاتلوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ سیاست میں دو ٹوک مؤقف اختیار کر کے ہی ملک دشمن اور بلوچستان دشمن گروپوں کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے جس کی موجودہ وقت میں بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ چین کے تعاون سے شروع ہونے والے اقتصادی راہداری کے اربوں ڈالر کے منصوبے میں کسی رخنہ اندازی کا خدشہ نہ رہے۔
اس سانحے کے بعد ہزاروں افراد نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ خود مظاہرین سے ملے۔ اپوزیشن جماعتیں جن میں جے یو آئی اور اے این پی بھی شامل تھیں ان کے ساتھ تھیں۔یہ ایک اچھا پیغام ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے اور کچھ عناصر اس صوبے میں موجود بھائی چارے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔غیرملکی قوتوں کے پروردہ عناصر اقتصادی راہداری منصوبے پر ہونے والے اتفاق رائے کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں اور ہم متحد ہو کر دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کا خاتمہ کریں گے۔