سعودی عرب میں ایک اور خود کش حملہ
سعودی مسجد میں ہونے والے اولین دھماکے کی طرح دوسرے دھماکے کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کر لی ہے
سعودی عرب میں ایک ہفتے کے دوران دوسرا خود کش حملہ ہوا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران مسجد میں خودکُش حملہ ہوا تھا جس میں اکیس افراد جاں بحق اور ایک سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اب اس جمعہ کو دمام شہر کی ایک مسجد کے باہر ایک برقعہ پوش حملہ آور نے مسجد کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہ ہونے پر مسجد کے باہر ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ سعودی مسجد میں ہونے والے اولین دھماکے کی طرح دوسرے دھماکے کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کر لی ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق حملہ آور مسجد العنود کے اندر داخل ہو کر نمازیوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا۔
وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار مسجد کے قریب کھڑی ایک مشکوک گاڑی کے قریب گئے تو اس میں زوردار دھماکا ہوا جس سے چار افراد جاں بحق ہو گئے اور قریب کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ جاں بحق ہونیوالوں میں مبینہ حملہ آور بھی شامل ہے۔ دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر مبینہ خودکش حملہ آور اور جائے وقوعہ کی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں مسجد کے باہر کار پارکنگ کی جگہ سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ دھماکے کے وقت مسجد کے اندر کے مناظر کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی۔ حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر چھان بین کا آغاز کر دیا ہے۔
صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے دمام کی مسجد کے باہر دھماکے کی مذمت کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کی لہر ایک طویل عرصے سے جاری ہے تاہم سعودی عرب واحد ملک تھا جو ابھی تک اس مصیبت سے محفوظ تھا لیکن اب اس کو بھی غیر محفوظ کر دیا گیا ہے حالانکہ ان کا سکیوٹی کا نظام غیر معمولی طور پر سخت ہے لیکن فی الوقت تمام تر احتیاطی تدابیر ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
بظاہر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں پڑوسی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جو مسلح کارروائی کی جا رہی ہے ممکن ہے یہ حملے اس کا رد عمل ہوں۔ ایسی صورت میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے اس علاقائی بحران کو حل کرائیں تا کہ دشمن عربوں کے اس داخلی خلفشار سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کر سکے۔
اگر دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی بیخ کنی نہ کی گئی تو یہ خلیج کے دیگر پرامن اور خوشحال ممالک کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب کے بعد خلیج کے دوسرے خوشحال ممالک میں بھی خودش حملے شروع ہو گئے تو پورا مشرق وسطیٰ بدامنی اور انارکی کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ان کی معیشت زمین بوس ہو سکتی ہے لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عرب ممالک ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا دہشت گردوں کے خلاف متحد و متفق ہو کر کارروائی کرے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے تعصب کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ اگر مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو دہشت گرد گروہ پرامن اور خوشحال مسلم ممالک کو بدحالی میں تبدیل کر دیں گے۔
اب اس جمعہ کو دمام شہر کی ایک مسجد کے باہر ایک برقعہ پوش حملہ آور نے مسجد کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہ ہونے پر مسجد کے باہر ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ سعودی مسجد میں ہونے والے اولین دھماکے کی طرح دوسرے دھماکے کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کر لی ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق حملہ آور مسجد العنود کے اندر داخل ہو کر نمازیوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا۔
وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار مسجد کے قریب کھڑی ایک مشکوک گاڑی کے قریب گئے تو اس میں زوردار دھماکا ہوا جس سے چار افراد جاں بحق ہو گئے اور قریب کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ جاں بحق ہونیوالوں میں مبینہ حملہ آور بھی شامل ہے۔ دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر مبینہ خودکش حملہ آور اور جائے وقوعہ کی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں مسجد کے باہر کار پارکنگ کی جگہ سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ دھماکے کے وقت مسجد کے اندر کے مناظر کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی۔ حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر چھان بین کا آغاز کر دیا ہے۔
صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے دمام کی مسجد کے باہر دھماکے کی مذمت کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کی لہر ایک طویل عرصے سے جاری ہے تاہم سعودی عرب واحد ملک تھا جو ابھی تک اس مصیبت سے محفوظ تھا لیکن اب اس کو بھی غیر محفوظ کر دیا گیا ہے حالانکہ ان کا سکیوٹی کا نظام غیر معمولی طور پر سخت ہے لیکن فی الوقت تمام تر احتیاطی تدابیر ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
بظاہر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں پڑوسی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جو مسلح کارروائی کی جا رہی ہے ممکن ہے یہ حملے اس کا رد عمل ہوں۔ ایسی صورت میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے اس علاقائی بحران کو حل کرائیں تا کہ دشمن عربوں کے اس داخلی خلفشار سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کر سکے۔
اگر دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی بیخ کنی نہ کی گئی تو یہ خلیج کے دیگر پرامن اور خوشحال ممالک کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب کے بعد خلیج کے دوسرے خوشحال ممالک میں بھی خودش حملے شروع ہو گئے تو پورا مشرق وسطیٰ بدامنی اور انارکی کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ان کی معیشت زمین بوس ہو سکتی ہے لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عرب ممالک ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا دہشت گردوں کے خلاف متحد و متفق ہو کر کارروائی کرے اور اس سلسلے میں کسی قسم کے تعصب کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ اگر مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو دہشت گرد گروہ پرامن اور خوشحال مسلم ممالک کو بدحالی میں تبدیل کر دیں گے۔