جاگنے والو جاگو‘ مگر خاموش رہو
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ جو گئے اور واپس بھی آ گئے، ان پر اتنا واویلا کیوں ہے؟
معاف کیجیے گا۔ کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جو سینئر صحافی اور اینکر خواتین و حضرات ''بول'' کے سانس روک دینے والے، ٹانگیں کپکپانے والے اور ہوش اڑا دینے والے پیکیج سن کر خود کو جینئس سمجھ بیٹھے تھے کہ جیسے پہلی بار ان کے ٹیلنٹ کو کسی نے سمجھا ہے اور وہ سرفرازی کا تاج سر پہ رکھے واپس آ کر ساتھیوں کو اپنی کامیابی کی خبر دیتے تھے۔
تو انھیں کیسا لگتا ہو گا؟ اور جو کامیاب نہ ہو پائے یا کوچۂ محبوب میں کسی بھی طرح قدم نہ رکھ پائے، تو ان کی کیفیت یقینا ''انڈین آئیڈل'' جیسے پروگرام کے شرکا جیسی ہو گی، جو ججوں کے سامنے اپنی پرفارمنس دکھا کر سینے پہ کامیابی کا ٹیگ لگائے اسٹوڈیو سے چھلانگیں مارتا ہوا باہر آتا ہے اور فخریہ بتاتا ہے کہ وہ ممبئی جا رہا ہے اور جو ناکام ہوتے تھے وہ افسردہ منہ لٹکائے حسرت سے انھیں دیکھتے تھے جنھیں ججز نے ممبئی کا ٹکٹ دے دیا تھا۔
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ جو گئے اور واپس بھی آ گئے، ان پر اتنا واویلا کیوں ہے؟ ان پر جو یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ جب انھیں ایسے پرکشش اور جان لیوا پیکیجز دیے گئے تو انھوں نے مالکان سے یہ سوال کیوں نہیں کیا، کہ مجھ میں کیا سرخاب کے پر لگے ہیں جو اوقات سے ہزار گنا بڑھ کر مراعات اور تنخواہ دی جا رہی ہے؟ یہ کیسا احمقانہ جواز ہے۔
بھلا کبھی کسی ملازمت کے خواہش مند نے اپنے مالک سے یہ پوچھنے کی جسارت کی ہے کہ اس کے مالک کا کاروبار جو ایک سڑک پہ ٹھیلا لگانے یا دکانوں پہ مال سپلائی کرتے کرتے اچانک سربراہان مملکت کی آنکھ کا تارا اور ناک کا بال کیونکر بن گئے؟ اگر غلطی سے کسی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کی تو مالک اسے دور کہیں پھنکوا دے گا کہ اس کی یہ مجال کہ مالک سے اس کا ذریعہ آمدنی پوچھے؟ پیسہ آتا کس کو اچھا نہیں لگتا، وہ نسل ختم ہو گئی جو رشوت کو گناہ سمجھتے تھے، وہ صحافی وہ اساتذہ وہ قلم کار سب ختم ہو گئے جو اخلاقیات کی مٹی سے بنے تھے۔
آج کا دور جھوٹ اور مکر و فریب کا دور ہے۔ ایگزیکٹ کا اسکینڈل بدقسمتی سے سامنے آ گیا، ورنہ تو جو لوگ اس کے تخلیق کار ہیں اب تک معاملہ باآسانی دبا دیتے۔ صحافی بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں۔ اس اسکینڈل کے سامنے آنے سے ان صحافیوں کی عزت سادات پہ جس طرح سوالیہ نشان لگے ہیں، وہ باعث شرم بھی ہیں اور باعث عبرت بھی۔ وہ لوگ جو کل تک کسی کا فون اٹینڈ نہیں کرتے تھے، جو خود ساختہ عدالتیں سجاتے تھے، جو حکمرانوں اور خفیہ ایجنسیوں کینزدیک سمجھے جاتے تھے، جسے چاہتے تھے رسوا کردیتے تھے اور جسے چاہتے تھے اسے ''ابن معصوم'' بنا دیتے تھے۔ آج جرائم کی دلدل کے حصے دار کہلائے جا رہے ہیں۔ لیکن کون تھا جو ''بول'' کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ سب ڈھائی تین سال سے جانتے تھے کہ معاملات مشکوک ہیں۔ لیکن وہ صحافی یہ بھی جانتے تھے کہ انھیں اپنے آجر کی آمدنی اور ذرائع سے کیا لینا دینا؟ انھیں تو کام کرنے کی تنخواہ دی جا رہی ہے۔
البتہ جو طبقہ صحافیوں سے یہ سوال کر رہا ہے کہ انھوں نے ''بول'' اور ''ایگزیکٹ'' کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں جواب کیوں نہیں ڈھونڈے۔ تو ذرا پاکستان کے سیاسی، سماجی، صنعتی، زراعتی، تعلیمی، شوبز اور دیگر اداروں میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانی پہ بھلا کس نے سوال اٹھائے۔ آج جو ہم ان صحافیوں سے سچائی کی مانگ کر رہے ہیں، تو کوئی ہمیں یہ بتائے کہ کیا اس سے پہلے کبھی کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا؟ اور کیا اس اسکینڈل کو بے نقاب کرنے والے کیا اپنی طبعی عمر جی پائے؟ سچ کی آگ میں جلنے والے پاگل ہوتے ہیں۔ وہ کرپشن کی غلاظت کو سامنے لانے کی پاداش میں اپنی ہی آگ میں جل کر مر جاتے ہیں۔
کیا سلیم شہزاد کا حشر کسی کو یاد نہیں۔ کیا لوگ اتنی جلدی اس صحافی کو بھی بھول گئے جس نے بڑی محنت سے شاہراہ فیصل پہ واقع ایک عمارت کا اندرونی حال اور اس سے منسلک شخصیات کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا۔ رپورٹ پہلے ایک انگریزی ہفت روزے میں شایع ہوئی ، بعد میں اس کا اردو ترجمہ ایک معاصر روزنامے میں چھپا۔ اور پھر اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد زندگی اس پر حرام کر دی گئی، روزانہ کی بنیادوں پر اسے دھمکیاں ملنے لگیں۔ آخر کو اسے ملک سے جانا پڑا۔
اس ملک میں کس کی ہمت ہے کہ وہ جھوٹ کو، مکر و فریب کو اور کرپشن کو سامنے لانے کی ہمت کرے۔ جو لوگ ''بول'' میں جانے والے صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں کیا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ماڈل آیان علی کا تعلق جن بڑی شخصیات سے ہے اور وہ جن کے لیے نہ صرف کام کرتی تھی۔ ان کا نام لینے کی کسی میں ہمت ہے؟ جب کہ جانتے سب ہیں۔ محمد علی کی پہلی فلم ''خاموش رہو'' کے ایک گیت کے بول تھے۔ جاگنے والو جاگو مگر خاموش رہو۔ بس یہی منظرنامہ ہے آج کے پاکستان کا۔ کہ دیکھو مگر بولو نہیں۔ دور کیوں جائیے۔
پاکستان کے ادبی اداروں کا جو حال ہے وہ سب پہ عیاں ہے۔ سفارش، میرٹ سے روگردانی، قصیدہ خوانی اور بھی ''بہت کچھ''۔ لیکن سب چپ ہیں کہ بولنے اور تنقید کا کوئی فائدہ نہیں۔ کسی کے بھی پیر چھوؤ، سر دباؤ، گھٹنے پکڑو اور کوئی بھی عہدہ پا لو، کوئی بھی ایوارڈ اپنے نام کر والو۔ جنھوں نے ان اداروں میں ہونے والے کرپشن، بدعنوانی اور ادبی اداروں کو کتابوں کے قبرستان بننے کی طرف اشارہ کیا، وہ ان کی محفل سے نکال دیا گیا۔ اور جنھوں نے قصیدہ خوانی میں کالم کے کالم سیاہ کیے، ان کے مرتبے بلند ہوتے رہے۔ ان علمی و ادبی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پہ براجمان ہستیوں کی قابلیت کا اندازہ ان سے براہ راست گفتگو سے بخوبی لگانے کے بعد صرف اپنا ماتھا پیٹا جا سکتا ہے۔
اور پھر ذرا یہ تو بتائیے کہ وہ لوگ جو لینڈ مافیا ہیں؟ کیا ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ کیا وہ لوگ یہ بھی بتائیں گے کہ اس ملک میں کبھی کوئی شخص اپنی محنت اور ایمانداری سے دولت مند بن سکتا ہے۔
اور یہ بھی کہ ہمیشہ کرپٹ، بدعنوان اور بے ضمیر لوگوں کے ہاتھ ہی اتنے لمبے کیوں ہوتے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں خرید لیں۔ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جتنا بڑا بے ایمان، بے ضمیر اور چور ہو گا۔ وہ اتنا ہی ''میرے اللہ کا کرم ہے''۔ کی تکرار اپنی گفتگو میں کرے گا۔ لوگ اکثر یہ بھی سوچتے ہیں کہ اللہ کا کرم ہمیشہ ایسے ہی لوگوں پہ کیوں ہوتا ہے؟ لیکن جواب نہیں ملتا اور جو ملتا ہے وہ ہم لکھ نہیں سکتے۔