صحافت اور قلم کی حرمت
مئی کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ملک اور ملکی صحافت کے لیے یہ کیسے تہلکہ خیز دن تھے۔
مئی کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ملک اور ملکی صحافت کے لیے یہ کیسے تہلکہ خیز دن تھے۔ اگر کچھ لوگوں کا اعتبار صحافیوں اور صحافت سے اٹھا تو اس بارے میں زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ہر طرف جب ریت اڑ رہی ہو تو آنکھوں میں اس کے ذرے چبھنے لگتے ہیں اور منظر دھندلا جاتے ہیں لیکن گرد کا طوفان آخر کار بیٹھ جاتا ہے اور سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت صحافت کی ساکھ اگر مجروح ہوئی ہے تو اس حوالے سے حتمی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ نظر میں رکھنا چاہیے کہ پاکستانی صحافیوں کا گزشتہ 68 برسوں میں مجموعی طور پر کیا کردار رہا ہے۔ یقینا بہت سے وہ تھے جو صحافتی اخلاق کے معیار پر پورے نہ اتر سکے لیکن اکثریت ان ہی کی تھی جو اس پیشے سے اس لیے وابستہ ہوئے کہ انھیں یہ شعبہ لبھاتا تھا۔ انھوں نے تحریک آزادی کے زمانے میں بے پناہ قربانیاں دینے والے صحافیوں کے قصے پڑھے تھے، ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی اور ظفر علی خان ان کے آئیڈیل رہے۔
صحافت سے منسلک خطرات اور آزادیٔ اظہار کا راستہ انھیں اپنی طرف بلاتا تھا۔بڑے شہروں اور دور دراز بستیوں میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ اپنے علاقے کے بااثر اور مقتدر افراد کے بارے میں سچ لکھ کر، ان کی بدعنوانیوں اور ان کے متعدد غیر انسانی رویوں کو سامنے لاکر خود کو اور اپنے اہل خانہ کو خطرات میں ڈالتے تھے۔ ہمیں ان لوگوں کی تکریم میں کسی طور کی کمی نہیں کرنی چاہیے۔ صحافت سے وابستہ متعدد جی داروں کی ایک فہرست ہے جن کا آزادی اظہار پر ایمان تھا، جس کی وجہ سے وہ جان سے گزر گئے۔
ایک دو نہیں متعدد ایسے نام ہیں، رضیہ بھٹی کو سچ لکھنے اور حق بات چھاپنے کا عارضہ تھا۔ اس کا علاج سیسے کی گولی سے نہیں ہوا۔ ضیا سرکار نے اس پر اتنا دبائو ڈالا کہ اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی اور وہ جان سے گزر گئی۔ اسی طرح ولی بابر تھا۔ کسی نے اس کی بھینس نہیں چرائی تھی، نال کی نوک پر اس سے روپے اور موبائل نہیں چھینا تھا لیکن اسے ایک دھن تھی کہ وہ شہر کے قاتلوں تک پہنچنے گا۔ اسے قبر میں اتار دیا گیا۔
سلیم شہزاد کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ عزت، شہرت، ایک خوش حال زندگی ، سب ہی کچھ تو تھا اس کے پاس، لیکن تحقیق و تفتیش کا، چھان پھٹک کر سچ کو جاننے اور لوگوں کے سامنے اسے پیش کرنے کا سلیم شہزاد کو بھی بے پناہ شوق تھا اور اسی میں وہ جان سے گیا۔ ہم امریکی صحافی ڈینیل پرل کو کیسے بھول جائیں جو بعض خفیہ خبروں کو تلاش کرتے ہوئے ہمارے شہر کراچی سے اغواء کیا گیا اور پھر اسی شہر کے مضافات میں قربانی کے جانور کی طرح ذبح کردیا گیا۔ اس کے ذبیحے کی وڈیو لاکھوں لوگوں نے دیکھی اور یہی سوچتے رہے کہ آخر اسے سچ جاننے کا ایسا جان لیوا شوق کیوں تھا۔یہ تمام لوگ اور ان کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ آج تک بہت سے لوگوں کے لیے صحافت ایک مقدس پیشہ ہے ۔
مئی کا مہینہ صحافیوں کے لیے یوں بہ طور خاص اہم ہے کہ 3 مئی کو ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے ہم آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ 2015ء کی 3 مئی کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے خصوصی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا میں اچھی نظم حکمرانی اور انسانی حقوق کا تحفظ اسی وقت ہوسکتا ہے جب دنیا کے صحافی بلا خوف و خطر اپنے اپنے علاقوں کے مسائل و معاملات کے بارے میں آزادانہ لکھیں۔ بدعنوانیوں کا پردہ چاک کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکووا اور یو این ہائی کشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے اس روز اپنے پیغامات میں دنیا کی توجہ اس طرف دلائی کہ ناانصافی، بدعنوانی اور طاقتور افراد کی طرف سے کمزور طبقات کی حق تلفی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ صحافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر وہ فرد جو اپنے مسائل کو اجاگر کرنا چاہتا ہے، بہ طور خاص عورتیں جو دنیا کی آبادی کا نصف ہیں لیکن جن کی آواز گھونٹ دی جاتی ہے۔
انھیں آزادیٔ اظہار کا حق صحافیوں کے وسیلے سے ملتا ہے۔ صحافت کے اس عالمی دن کے موقعہ پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دنیا کے متعدد علاقے اس وقت جن خوفناک مسلح تصادم، خانہ جنگی اور نسلی فسادات کا شکار ہیں، ان جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خبریں حاصل کرتے اور ان لڑائیوں کا تجزیہ دنیا کو پہنچاتے ہیں۔ یہ اتنا ہی خطرناک کام ہے جیسے کوئی فوجی محاذ جنگ پر گولیوں کی بوچھاڑ اور گولہ باری کی زد میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی صحافی کسی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اس مرتبہ شامی صحافی ماذن درویش کے نام کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی۔ ماذن نے وکالت پڑھی تھی لیکن پھر اپنے اردگرد اس نے جو ناانصافیاں اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں دیکھیں، اس نے ماذن کو صحافت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ماذن نے صحافت بشار الاسد کا قصیدہ لکھنے کے لیے نہیں اختیار کی تھی۔
ماذن اور اس کے دو ساتھیوں ہانی زیتانی اور حسین غریر کو فروری 2012 میں شامی ریژیم نے گرفتار کیا۔ ان تینوں پر الزام تھا کہ وہ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ ماذن نے 2006 ء میں شام کے بارے میں مصدقہ خبریں دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک نیوز سائٹ قائم کی تھی جس پر شامی حکومت نے پابندی لگادی تھی اور اسی کے بعد سے ماذن ان کی نظروں میں ایک ناپسندیدہ فرد بن گیا۔ اسے اور اس کے خاندان کو ہراساں کیا جاتا رہا، سرکاری غنڈوں نے اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا، بیرون ملک اس کے سفر پر پابندی عائد کی گئی اور اب 3 برس سے وہ قید میں ہے جہاں اس پر بارہا ذہنی اور جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔
اقوام متحدہ اور یونیسکو نے موجودہ برس اسے آزادیٔ صحافت کے اعزاز سے نوازا۔ اس کی غیر موجودگی میں یہ اعزاز اس کی بیوی اور ایک ساتھی یارا بدر کو دیا گیا۔ یہ انعام کولمبیا کے مقتول صحافی گوئیلرموکانو کے نام سے منسوب ہے۔ کانو کا تعلق کولمبیا سے تھا جہاں حقیقی حکمرانی ڈرگ مافیا کی تھی۔ کانو ایک باضمیر صحافی تھا۔
وہ جانتا تھا کہ منشیات کی تجارت سے کروڑوں ڈالر کمانے والے کولمبیا کے نوجوانوں کی نسوں میں زہر بھر رہے ہیں اور انھیں ناکارہ بنارہے ہیں۔ تمام خطرات سے واقف ہونے کے باوجود کانو جی جان سے اس ڈرگ مافیا کے چہرے کا نقاب نوچنے کی مہم پر لگ گیا، اس کا نتیجہ وہ نکلا جس سے اس کے گھر والے اور اس کے دوست، اسے خبردار کرتے رہتے تھے۔17 دسمبر 1986ء کی شام کانو جب اپنے اخبار کے دفتر سے باہر نکلا تو کولمبیا کی ڈرگ مافیا کے اجرتی قاتلوں نے 8 گولیاں اس کے بدن میں اتار دیں۔
1997ء میں کانو کے نام سے یونیسکو نے آزادیٔ صحافت ایوارڈ کا آغاز کیا، اس سال 3 مئی کو لیٹویا کے صدر مقام ریگا میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی جس میں لیٹویا کے صدر اور دیگر اکابرین موجود تھے۔ اس موقع پر شامی صحافی ماذن درویش کو 2015ء کا یونیسکو / گوئیلر موکانو ایوارڈ ماذن کی بیوی کو دیاگیا۔ اس روز مقتول صحافی کانو کی شریک حیات اناماریا کانو نے اس ایوارڈ کو پانے والے صحافیوں کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی زندگیاں ہمیں اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ صحافت کی اقدار کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ وہ دھندلا بھی نہیں سکتیں۔صحافی آزادیٔ تحریر پر اور اپنے قلم کے ذمے دارانہ استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔
کسی ملک کی طاقتور اور سفاک ڈرگ مافیا ہو یا اسلحے کیے اسمگلر ہوں، مقتدر طبقات کی بدعنوانیاں اور اپنے لوگوں سے ان کی غداریاں ہوں، صحافی ان تمام عناصر کے خلاف لکھنے کو اپنے ضمیر کا معاملہ سمجھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو مسلح تصادم، نسلی تنازعات اور جنگ زدہ علاقوں کی خبریں دنیا کو پہنچانا اور ان کی زد میں آنے والے عام شہریوں کے حق کے لیے آواز بلند کرنا اپنا ایمان جانتے ہیں ، اسی کشمکش میں بہت سے ہلاک ہوجاتے ہیں، بہت سے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں برسوں گزار دیتے ہیں۔
دنیا میں جب تک ضمیر کی آواز پر اذیتیں سہنے والے، جان دے دینے والے صحافی موجود ہیں، اس وقت تک صحافیوں اور صحافت پر، قلم کی حرمت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ صحافت کی اقدار کو متعین کرتے ہوئے نوم چومسکی نے کیا زبردست بات کہی ہے کہ ''جن لوگوں کو ہم ناپسند کرتے ہیں، اگر ان کے آزادیٔ اظہار کے حق کے لیے ہم نہیں لڑسکتے تو یہ جان لیجیے کہ ہم آزادیٔ اظہار پر ایمان نہیں رکھتے۔''
پاکستان میں اس وقت صحافت کی ساکھ اگر مجروح ہوئی ہے تو اس حوالے سے حتمی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ نظر میں رکھنا چاہیے کہ پاکستانی صحافیوں کا گزشتہ 68 برسوں میں مجموعی طور پر کیا کردار رہا ہے۔ یقینا بہت سے وہ تھے جو صحافتی اخلاق کے معیار پر پورے نہ اتر سکے لیکن اکثریت ان ہی کی تھی جو اس پیشے سے اس لیے وابستہ ہوئے کہ انھیں یہ شعبہ لبھاتا تھا۔ انھوں نے تحریک آزادی کے زمانے میں بے پناہ قربانیاں دینے والے صحافیوں کے قصے پڑھے تھے، ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی اور ظفر علی خان ان کے آئیڈیل رہے۔
صحافت سے منسلک خطرات اور آزادیٔ اظہار کا راستہ انھیں اپنی طرف بلاتا تھا۔بڑے شہروں اور دور دراز بستیوں میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ اپنے علاقے کے بااثر اور مقتدر افراد کے بارے میں سچ لکھ کر، ان کی بدعنوانیوں اور ان کے متعدد غیر انسانی رویوں کو سامنے لاکر خود کو اور اپنے اہل خانہ کو خطرات میں ڈالتے تھے۔ ہمیں ان لوگوں کی تکریم میں کسی طور کی کمی نہیں کرنی چاہیے۔ صحافت سے وابستہ متعدد جی داروں کی ایک فہرست ہے جن کا آزادی اظہار پر ایمان تھا، جس کی وجہ سے وہ جان سے گزر گئے۔
ایک دو نہیں متعدد ایسے نام ہیں، رضیہ بھٹی کو سچ لکھنے اور حق بات چھاپنے کا عارضہ تھا۔ اس کا علاج سیسے کی گولی سے نہیں ہوا۔ ضیا سرکار نے اس پر اتنا دبائو ڈالا کہ اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی اور وہ جان سے گزر گئی۔ اسی طرح ولی بابر تھا۔ کسی نے اس کی بھینس نہیں چرائی تھی، نال کی نوک پر اس سے روپے اور موبائل نہیں چھینا تھا لیکن اسے ایک دھن تھی کہ وہ شہر کے قاتلوں تک پہنچنے گا۔ اسے قبر میں اتار دیا گیا۔
سلیم شہزاد کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ عزت، شہرت، ایک خوش حال زندگی ، سب ہی کچھ تو تھا اس کے پاس، لیکن تحقیق و تفتیش کا، چھان پھٹک کر سچ کو جاننے اور لوگوں کے سامنے اسے پیش کرنے کا سلیم شہزاد کو بھی بے پناہ شوق تھا اور اسی میں وہ جان سے گیا۔ ہم امریکی صحافی ڈینیل پرل کو کیسے بھول جائیں جو بعض خفیہ خبروں کو تلاش کرتے ہوئے ہمارے شہر کراچی سے اغواء کیا گیا اور پھر اسی شہر کے مضافات میں قربانی کے جانور کی طرح ذبح کردیا گیا۔ اس کے ذبیحے کی وڈیو لاکھوں لوگوں نے دیکھی اور یہی سوچتے رہے کہ آخر اسے سچ جاننے کا ایسا جان لیوا شوق کیوں تھا۔یہ تمام لوگ اور ان کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ آج تک بہت سے لوگوں کے لیے صحافت ایک مقدس پیشہ ہے ۔
مئی کا مہینہ صحافیوں کے لیے یوں بہ طور خاص اہم ہے کہ 3 مئی کو ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے ہم آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ 2015ء کی 3 مئی کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے خصوصی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا میں اچھی نظم حکمرانی اور انسانی حقوق کا تحفظ اسی وقت ہوسکتا ہے جب دنیا کے صحافی بلا خوف و خطر اپنے اپنے علاقوں کے مسائل و معاملات کے بارے میں آزادانہ لکھیں۔ بدعنوانیوں کا پردہ چاک کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکووا اور یو این ہائی کشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے اس روز اپنے پیغامات میں دنیا کی توجہ اس طرف دلائی کہ ناانصافی، بدعنوانی اور طاقتور افراد کی طرف سے کمزور طبقات کی حق تلفی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ صحافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر وہ فرد جو اپنے مسائل کو اجاگر کرنا چاہتا ہے، بہ طور خاص عورتیں جو دنیا کی آبادی کا نصف ہیں لیکن جن کی آواز گھونٹ دی جاتی ہے۔
انھیں آزادیٔ اظہار کا حق صحافیوں کے وسیلے سے ملتا ہے۔ صحافت کے اس عالمی دن کے موقعہ پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دنیا کے متعدد علاقے اس وقت جن خوفناک مسلح تصادم، خانہ جنگی اور نسلی فسادات کا شکار ہیں، ان جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خبریں حاصل کرتے اور ان لڑائیوں کا تجزیہ دنیا کو پہنچاتے ہیں۔ یہ اتنا ہی خطرناک کام ہے جیسے کوئی فوجی محاذ جنگ پر گولیوں کی بوچھاڑ اور گولہ باری کی زد میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی صحافی کسی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اس مرتبہ شامی صحافی ماذن درویش کے نام کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی۔ ماذن نے وکالت پڑھی تھی لیکن پھر اپنے اردگرد اس نے جو ناانصافیاں اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں دیکھیں، اس نے ماذن کو صحافت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ماذن نے صحافت بشار الاسد کا قصیدہ لکھنے کے لیے نہیں اختیار کی تھی۔
ماذن اور اس کے دو ساتھیوں ہانی زیتانی اور حسین غریر کو فروری 2012 میں شامی ریژیم نے گرفتار کیا۔ ان تینوں پر الزام تھا کہ وہ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ ماذن نے 2006 ء میں شام کے بارے میں مصدقہ خبریں دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک نیوز سائٹ قائم کی تھی جس پر شامی حکومت نے پابندی لگادی تھی اور اسی کے بعد سے ماذن ان کی نظروں میں ایک ناپسندیدہ فرد بن گیا۔ اسے اور اس کے خاندان کو ہراساں کیا جاتا رہا، سرکاری غنڈوں نے اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا، بیرون ملک اس کے سفر پر پابندی عائد کی گئی اور اب 3 برس سے وہ قید میں ہے جہاں اس پر بارہا ذہنی اور جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔
اقوام متحدہ اور یونیسکو نے موجودہ برس اسے آزادیٔ صحافت کے اعزاز سے نوازا۔ اس کی غیر موجودگی میں یہ اعزاز اس کی بیوی اور ایک ساتھی یارا بدر کو دیا گیا۔ یہ انعام کولمبیا کے مقتول صحافی گوئیلرموکانو کے نام سے منسوب ہے۔ کانو کا تعلق کولمبیا سے تھا جہاں حقیقی حکمرانی ڈرگ مافیا کی تھی۔ کانو ایک باضمیر صحافی تھا۔
وہ جانتا تھا کہ منشیات کی تجارت سے کروڑوں ڈالر کمانے والے کولمبیا کے نوجوانوں کی نسوں میں زہر بھر رہے ہیں اور انھیں ناکارہ بنارہے ہیں۔ تمام خطرات سے واقف ہونے کے باوجود کانو جی جان سے اس ڈرگ مافیا کے چہرے کا نقاب نوچنے کی مہم پر لگ گیا، اس کا نتیجہ وہ نکلا جس سے اس کے گھر والے اور اس کے دوست، اسے خبردار کرتے رہتے تھے۔17 دسمبر 1986ء کی شام کانو جب اپنے اخبار کے دفتر سے باہر نکلا تو کولمبیا کی ڈرگ مافیا کے اجرتی قاتلوں نے 8 گولیاں اس کے بدن میں اتار دیں۔
1997ء میں کانو کے نام سے یونیسکو نے آزادیٔ صحافت ایوارڈ کا آغاز کیا، اس سال 3 مئی کو لیٹویا کے صدر مقام ریگا میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی جس میں لیٹویا کے صدر اور دیگر اکابرین موجود تھے۔ اس موقع پر شامی صحافی ماذن درویش کو 2015ء کا یونیسکو / گوئیلر موکانو ایوارڈ ماذن کی بیوی کو دیاگیا۔ اس روز مقتول صحافی کانو کی شریک حیات اناماریا کانو نے اس ایوارڈ کو پانے والے صحافیوں کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی زندگیاں ہمیں اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ صحافت کی اقدار کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ وہ دھندلا بھی نہیں سکتیں۔صحافی آزادیٔ تحریر پر اور اپنے قلم کے ذمے دارانہ استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔
کسی ملک کی طاقتور اور سفاک ڈرگ مافیا ہو یا اسلحے کیے اسمگلر ہوں، مقتدر طبقات کی بدعنوانیاں اور اپنے لوگوں سے ان کی غداریاں ہوں، صحافی ان تمام عناصر کے خلاف لکھنے کو اپنے ضمیر کا معاملہ سمجھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو مسلح تصادم، نسلی تنازعات اور جنگ زدہ علاقوں کی خبریں دنیا کو پہنچانا اور ان کی زد میں آنے والے عام شہریوں کے حق کے لیے آواز بلند کرنا اپنا ایمان جانتے ہیں ، اسی کشمکش میں بہت سے ہلاک ہوجاتے ہیں، بہت سے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں برسوں گزار دیتے ہیں۔
دنیا میں جب تک ضمیر کی آواز پر اذیتیں سہنے والے، جان دے دینے والے صحافی موجود ہیں، اس وقت تک صحافیوں اور صحافت پر، قلم کی حرمت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ صحافت کی اقدار کو متعین کرتے ہوئے نوم چومسکی نے کیا زبردست بات کہی ہے کہ ''جن لوگوں کو ہم ناپسند کرتے ہیں، اگر ان کے آزادیٔ اظہار کے حق کے لیے ہم نہیں لڑسکتے تو یہ جان لیجیے کہ ہم آزادیٔ اظہار پر ایمان نہیں رکھتے۔''