میاں صاحب مبارکاں
یوم تکبیر کی برکت سے ایک قومی منصوبہ اگر اسی دن قومی سطح پر قابل قبول بنایا گیا ہے
قومی ترقی کے بلاشبہ شاندار منصوبے کو حسب عادت ناکام بنانے میں ہمارے بعض لیڈروں نے پھر سے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگا دی لیکن نہ جانے کیسے میاں صاحب نے انھیں چپ کرا کے ایک پاکستانی مقصد پر متفق کر دیا اور ہمارے پیدائشی دوست کی مہربانی پر بھارت کی سخت ناخوشی کے باوجود یہ لیڈر خوش ہو گئے اور یوں ترقی کی شاہراہ کھل گئی۔
کالم کا صحیح اور رائج الوقت عنوان تو تھا 'میاں صاحب بہت بہت مبارکاں' لیکن یہ مخصوص انداز اور الفاظ ہمارے پنجاب کے ایک خاص طبقے سے متعلق اور اس کا ورثہ ہیں اگرچہ ہم صحافی بھی ایک گونہ اس طبقے کی ایک شاخ ہیں اور خود میں نے تو ان کا دودھ بھی پیا ہوا ہے اور ماں گُلاں کو میں ان کے آخری وقت تک ماں ہی کہتا رہا ہوں اور بچپن میں ان کی کثیر آل اولاد کے ساتھ کھیلا کودا ہوں جن میں میرا رضاعی بھائی بھی تھا۔ مطلب یہ ہے کہ میں اس لہجے اور انداز گفتگو سے خوب واقف ہوں جو ہمارے پنجاب کے اشرافیہ کے ساتھ گفتگو میں اختیار کیا جاتا ہے اور انھیں بے وقوف بنایا جاتا ہے یوں میرا یہ تعلق تین پرتوں پر مشتمل ہے۔
ایک میرا بچپن دوسرا میرا نام نہاد اشرافیہ کا پس منظر اور تیسرا میری صحافت جو کسی آمر اور مارشل لاء کے دور میں ان ہی تین پرتوں پر پھیل جاتی ہے چنانچہ ضرورت پڑنے پر میں میراثی بھی بن جاتا ہوں اور اشرافیہ بھی۔ ہمارے جو حکمران ہوتے ہیں وہ عموماً اس روایتی پس منظر سے فارغ ہوتے ہیں کوئی کہیں کا ہوتا کوئی کہیں کا بلکہ ایک تو شاید سچ مچ کا (؟) بھی تھا جسے ہم سر کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور تحریر میں محترم لکھتے تھے۔ بطور صحافی زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری تھا اور ہم نے اس کے لیے کئی بہانے تراش رکھے تھے جن میں جدید دور کے آداب اور جدید ثقافتی ضرورت بھی شامل تھی۔ بات پتہ نہیں کہاں سے شروع کی تھی میں دراصل ایک ناممکن کے ممکن ہونے پر وزیر اعظم کو داد دینا چاہتا تھا۔ وزیر اعظم نے آسانی کے ساتھ متنازع بننے یا بن جانے والے ایک مسئلے کو متفقہ بنا لیا جب کہ احتیاطاً اور حق نمک ادا کرنے سے پہلے ہی نعرہ لگا دیا گیا کہ کالا باغ ڈیم کی طرح اس تجارتی شاہراہ کو بھی نہیں بننے دیں گے۔
میں نے اس نعرے کو حق سمجھ لیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ ہمارے گلے میں دوسرا کالا باغ ڈالا جانے والا ہے کیونکہ یہ نعرہ لگانے والے میرے ہم سب کے اچھی طرح سے دیکھے بھالے تھے جو کبھی پاکستان کو نامنظور کہتے رہے لیکن وہ بن گیا مگر وہ اب تک اس کے خلاف ہیں۔ کالا باغ ڈیم ان کی کوششوں اور ہمارے کمزور حکمرانوں کی وجہ سے اب صرف اخباری بیانوں ہی میں ملتا ہے۔ یہ ترقیاتی تجارتی راستہ بھی اخباری بیانوں کا ایک اور موضوع بننے والا تھا مگر ہمارے وزیر اعظم نے یہ معجزہ دکھا دیا کہ اس قومی منصوبے کو کالا باغیوں سے بچا لیا اور اسے ایک متفقہ زندگی دے دی۔
میں نے رات کو یہ خبر ٹی وی پر سنی لیکن اس پر یقین نہ کرتے ہوئے سو گیا کہ اس لطیفے کو کل اخباروں میں پڑھ لیں گے لیکن صبح کے اخباروں نے متفقہ طور پر چیخ چلا کر اس اقتصادی راہداری کو پوری قوم کا متفقہ قرار دیا یعنی قوم کے سبھی سیاسی رہنما اس منصوبے پر متفق ہو گئے۔ اور یہ اتفاق باہوش و حواس تھا۔ محترم اسفند یار ولی بھی متفق ہو گئے۔ یہ کیسے متفق ہوئے میں اس بارے میں لاعلم ہوں لیکن حیران و پریشان ضرور ہوں۔ میرے لیے یہ آفتاب پختونخوا میں غروب نہیں طلوع ہوا ہے۔ پاکستان بنے مدتیں گزر گئیں لیکن بعض لوگوں کا غم و غصہ ختم نہیں ہوا بلکہ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے۔ پاکستان ان لوگوں پر ٹھونسا نہیں گیا تھا مگر لگتا ہے کہ صورت حال جو بھی تھی بعض لوگوں نے اسے یہی سمجھا کہ ان پر ٹھونس دیا گیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ بعد از وفات یہ غصہ بھی بزرگوں کی طرح کسی افغانستان کی سرزمین پر نکال لیا جاتا۔
اب کوئی قابل اعتماد ذریعہ ملے گا تو پوچھیں گے کہ میاں صاحب نے یہ گیدڑ سنگھی کہاں سے لی تھی یا پھر کوئی ایسا با اثر اور ناقابل انکار کوئی ذریعہ کہاں سے دریافت کیا تھا کہ سبھی لیڈر اس چینی پاکستانی منصوبے کے سامنے سربسجود ہو گئے۔ بلاشبہ میاں صاحب کے ایک نوجوان وزیر نے باکمال انداز میں اس منصوبے کا تعارف کرایا تھا۔ جی چاہتا ہے ایک مبارک ان کی خدمت میں بھی پیش کر دی جائے۔ میاں صاحب کے قرب و جوار میں اگرچہ اکثریت بس گزارہ ٹائپ لوگوں کی ہے جو ان کی رفتار کو پابند رکھتے ہیں لیکن اگر وہ کسی کو کام کا موقع دے دیں تو وہ کچھ نہ کچھ کر ہی دیتا ہے۔
بہرکیف یہ تو میاں صاحب کا دردِ سر ہے یا ان کے خاندان کا اور ان کی حکومت کے مستقبل کا کھیل لیکن انھوں نے اس اقتصادی راستے پر جو کمال دکھایا ہے اور جس طرح پاکستان کے قومی منصوبے کو سبوتاژ کرنے والوں کو خاموش بلکہ راضی کیا ہے یہ ان کا کمال ہے۔ انھوں نے یہ کمال کہاں چھپا رکھا تھا اس کا پتہ بھی چلے گا جب وہ کالا باغ ڈیم کو زندہ کریں گے کیونکہ اس قومی منصوبے سے محرومی نے ہمیں بہت دکھ دیے ہیں اور ہمارے ترقی کے راستے میں روڑے نہیں پہاڑ رکھ دیے ہیں۔
میاں صاحب نے قومی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جو کمال دکھایا ہے ہم پاکستانی ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ اسی ہلے میں کالا باغ پر بھی توجہ دیں۔ یہ ہر حکمران پر قوم کا قرض ہے۔ حکومتیں قوم کی ترقی کے لیے ہوتی ہیں اور جب کوئی حکمران قومی ترقی کے راستے ہموار کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنا فرض ادا کرتا ہے بلکہ قوم کی تاریخ میں اپنا نام بھی درج کراتا ہے جو نسلیں یاد رکھتی ہیں۔ میاں صاحب نے اس تجارتی راستے پر حیرت انگیز طریقے سے اتفاق حاصل کر کے ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کے اسی کارنامے سے کالا باغ یاد آیا ہے کہ یہ منصوبہ بھی قومی اتفاق رائے سے محرومی کا شکار ہے ورنہ اس منصوبے کے خلاف کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے حق میں ان کے ماہرین کی دلیلیں موجود ہیں جو بلاشبہ ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔
اب تک ان میں سے کسی بھی دلیل کا کوئی جواب نہیں بن سکا۔ یوم تکبیر کی برکت سے ایک قومی منصوبہ اگر اسی دن قومی سطح پر قابل قبول بنایا گیا ہے تو کچھ محنت کے بعد اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے کالا باغ بھی زندہ کیا جا سکتا ہے اور یہ محض ایک خواہش نہیں قومی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کو خوب معلوم ہے۔
کالم کا صحیح اور رائج الوقت عنوان تو تھا 'میاں صاحب بہت بہت مبارکاں' لیکن یہ مخصوص انداز اور الفاظ ہمارے پنجاب کے ایک خاص طبقے سے متعلق اور اس کا ورثہ ہیں اگرچہ ہم صحافی بھی ایک گونہ اس طبقے کی ایک شاخ ہیں اور خود میں نے تو ان کا دودھ بھی پیا ہوا ہے اور ماں گُلاں کو میں ان کے آخری وقت تک ماں ہی کہتا رہا ہوں اور بچپن میں ان کی کثیر آل اولاد کے ساتھ کھیلا کودا ہوں جن میں میرا رضاعی بھائی بھی تھا۔ مطلب یہ ہے کہ میں اس لہجے اور انداز گفتگو سے خوب واقف ہوں جو ہمارے پنجاب کے اشرافیہ کے ساتھ گفتگو میں اختیار کیا جاتا ہے اور انھیں بے وقوف بنایا جاتا ہے یوں میرا یہ تعلق تین پرتوں پر مشتمل ہے۔
ایک میرا بچپن دوسرا میرا نام نہاد اشرافیہ کا پس منظر اور تیسرا میری صحافت جو کسی آمر اور مارشل لاء کے دور میں ان ہی تین پرتوں پر پھیل جاتی ہے چنانچہ ضرورت پڑنے پر میں میراثی بھی بن جاتا ہوں اور اشرافیہ بھی۔ ہمارے جو حکمران ہوتے ہیں وہ عموماً اس روایتی پس منظر سے فارغ ہوتے ہیں کوئی کہیں کا ہوتا کوئی کہیں کا بلکہ ایک تو شاید سچ مچ کا (؟) بھی تھا جسے ہم سر کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور تحریر میں محترم لکھتے تھے۔ بطور صحافی زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری تھا اور ہم نے اس کے لیے کئی بہانے تراش رکھے تھے جن میں جدید دور کے آداب اور جدید ثقافتی ضرورت بھی شامل تھی۔ بات پتہ نہیں کہاں سے شروع کی تھی میں دراصل ایک ناممکن کے ممکن ہونے پر وزیر اعظم کو داد دینا چاہتا تھا۔ وزیر اعظم نے آسانی کے ساتھ متنازع بننے یا بن جانے والے ایک مسئلے کو متفقہ بنا لیا جب کہ احتیاطاً اور حق نمک ادا کرنے سے پہلے ہی نعرہ لگا دیا گیا کہ کالا باغ ڈیم کی طرح اس تجارتی شاہراہ کو بھی نہیں بننے دیں گے۔
میں نے اس نعرے کو حق سمجھ لیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ ہمارے گلے میں دوسرا کالا باغ ڈالا جانے والا ہے کیونکہ یہ نعرہ لگانے والے میرے ہم سب کے اچھی طرح سے دیکھے بھالے تھے جو کبھی پاکستان کو نامنظور کہتے رہے لیکن وہ بن گیا مگر وہ اب تک اس کے خلاف ہیں۔ کالا باغ ڈیم ان کی کوششوں اور ہمارے کمزور حکمرانوں کی وجہ سے اب صرف اخباری بیانوں ہی میں ملتا ہے۔ یہ ترقیاتی تجارتی راستہ بھی اخباری بیانوں کا ایک اور موضوع بننے والا تھا مگر ہمارے وزیر اعظم نے یہ معجزہ دکھا دیا کہ اس قومی منصوبے کو کالا باغیوں سے بچا لیا اور اسے ایک متفقہ زندگی دے دی۔
میں نے رات کو یہ خبر ٹی وی پر سنی لیکن اس پر یقین نہ کرتے ہوئے سو گیا کہ اس لطیفے کو کل اخباروں میں پڑھ لیں گے لیکن صبح کے اخباروں نے متفقہ طور پر چیخ چلا کر اس اقتصادی راہداری کو پوری قوم کا متفقہ قرار دیا یعنی قوم کے سبھی سیاسی رہنما اس منصوبے پر متفق ہو گئے۔ اور یہ اتفاق باہوش و حواس تھا۔ محترم اسفند یار ولی بھی متفق ہو گئے۔ یہ کیسے متفق ہوئے میں اس بارے میں لاعلم ہوں لیکن حیران و پریشان ضرور ہوں۔ میرے لیے یہ آفتاب پختونخوا میں غروب نہیں طلوع ہوا ہے۔ پاکستان بنے مدتیں گزر گئیں لیکن بعض لوگوں کا غم و غصہ ختم نہیں ہوا بلکہ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے۔ پاکستان ان لوگوں پر ٹھونسا نہیں گیا تھا مگر لگتا ہے کہ صورت حال جو بھی تھی بعض لوگوں نے اسے یہی سمجھا کہ ان پر ٹھونس دیا گیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ بعد از وفات یہ غصہ بھی بزرگوں کی طرح کسی افغانستان کی سرزمین پر نکال لیا جاتا۔
اب کوئی قابل اعتماد ذریعہ ملے گا تو پوچھیں گے کہ میاں صاحب نے یہ گیدڑ سنگھی کہاں سے لی تھی یا پھر کوئی ایسا با اثر اور ناقابل انکار کوئی ذریعہ کہاں سے دریافت کیا تھا کہ سبھی لیڈر اس چینی پاکستانی منصوبے کے سامنے سربسجود ہو گئے۔ بلاشبہ میاں صاحب کے ایک نوجوان وزیر نے باکمال انداز میں اس منصوبے کا تعارف کرایا تھا۔ جی چاہتا ہے ایک مبارک ان کی خدمت میں بھی پیش کر دی جائے۔ میاں صاحب کے قرب و جوار میں اگرچہ اکثریت بس گزارہ ٹائپ لوگوں کی ہے جو ان کی رفتار کو پابند رکھتے ہیں لیکن اگر وہ کسی کو کام کا موقع دے دیں تو وہ کچھ نہ کچھ کر ہی دیتا ہے۔
بہرکیف یہ تو میاں صاحب کا دردِ سر ہے یا ان کے خاندان کا اور ان کی حکومت کے مستقبل کا کھیل لیکن انھوں نے اس اقتصادی راستے پر جو کمال دکھایا ہے اور جس طرح پاکستان کے قومی منصوبے کو سبوتاژ کرنے والوں کو خاموش بلکہ راضی کیا ہے یہ ان کا کمال ہے۔ انھوں نے یہ کمال کہاں چھپا رکھا تھا اس کا پتہ بھی چلے گا جب وہ کالا باغ ڈیم کو زندہ کریں گے کیونکہ اس قومی منصوبے سے محرومی نے ہمیں بہت دکھ دیے ہیں اور ہمارے ترقی کے راستے میں روڑے نہیں پہاڑ رکھ دیے ہیں۔
میاں صاحب نے قومی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جو کمال دکھایا ہے ہم پاکستانی ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ اسی ہلے میں کالا باغ پر بھی توجہ دیں۔ یہ ہر حکمران پر قوم کا قرض ہے۔ حکومتیں قوم کی ترقی کے لیے ہوتی ہیں اور جب کوئی حکمران قومی ترقی کے راستے ہموار کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنا فرض ادا کرتا ہے بلکہ قوم کی تاریخ میں اپنا نام بھی درج کراتا ہے جو نسلیں یاد رکھتی ہیں۔ میاں صاحب نے اس تجارتی راستے پر حیرت انگیز طریقے سے اتفاق حاصل کر کے ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کے اسی کارنامے سے کالا باغ یاد آیا ہے کہ یہ منصوبہ بھی قومی اتفاق رائے سے محرومی کا شکار ہے ورنہ اس منصوبے کے خلاف کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے حق میں ان کے ماہرین کی دلیلیں موجود ہیں جو بلاشبہ ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔
اب تک ان میں سے کسی بھی دلیل کا کوئی جواب نہیں بن سکا۔ یوم تکبیر کی برکت سے ایک قومی منصوبہ اگر اسی دن قومی سطح پر قابل قبول بنایا گیا ہے تو کچھ محنت کے بعد اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے کالا باغ بھی زندہ کیا جا سکتا ہے اور یہ محض ایک خواہش نہیں قومی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کو خوب معلوم ہے۔