آنسو کوہلی
ایک دلیر لڑکی جس نے معذوری کے باوجود اپنے دور افتادہ گاؤں میں جہالت کا اندھیرا مٹانے کی خاطر تعلیم کی شمع جلا دی
آپ جب کسی باڑے میں داخل ہوں، تو یہی توقع ہوتی ہے کہ وہاں گائے، بھینسیں نظر آئیں گی۔ ایک جانور جگالی میں مصروف، تو دوسرا مزے سے سوتا ہوگا۔ لیکن یہ عجیب باڑا ہے جس میں حیوان نہیں بچے نظر آتے... پانچ چھ نہیں دوسو سے زائد بچے!
یہ ننھے منے معصوم بچے اسی لیے باڑے آتے کہ وہاں ایک سکول قائم ہے، تعلیم و تربیت کا گہوارہ جہاں وہ بڑا آدمی بننے کے سنہرے سپنے دیکھتے ۔ ناخواندہ بچوں کے میلے کچلے ہاتھوں میں اُمید کے نصابی چراغ تھمانے والا یہ ''باڑا سکول'' ایک نوجوان لڑکی کی ہمت، جوش اور جذبہ خدمت انسانیت کی جیتی جاگتی نشانی ثابت ہوا۔ وہ اس مثل کا منہ بولتا ثبوت بن گیا: ''اصل انسانی طاقت یہ ہے کہ دوسروں کا بھلا کیا جائے۔''
یہ 25 سال پہلے کی بات ہے جب صحرائے تھر میں واقع مناجی دھنی نامی گاؤں میں آنسو کوہلی نے جنم لیا۔ اس کے والدین غریب کسان اور کوہلی ہندو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ماں باپ، دونوں مقامی زمین دار کے کھیتوں میں کام کرکے رقم کماتے۔ یہ معمولی کمائی بس اتنی ہی تھی کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ آنسو کا باپ ،کمبھو مل جہاں دیدہ اور تجربے کار آدمی تھا۔
زندگی کے تلخ تجربات نے اسے یہ سنہرا سبق سکھایا کہ ایک انسان پڑھ لکھ جائے، تو وہ اپنی قسمت بدل سکتا ہے۔ وہ تو تعلیم نہ پاسکا، مگر اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ابھی آنسو چند برس کی تھی کہ ایک بیماری کے باعث اس کی ٹانگیں ناکارہ ہوگئیں اور وہ عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہ رہی۔ اس واقعے سے قدرتاً والدین کو سخت صدمہ پہنچا۔ لیکن باپ نے اس نئی آفت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنا یہ عزم جوان رکھا کہ وہ آنسو کو ضرور تعلیم دلوائے گا۔
اس نے اپنی امید افزا باتوں سے بیٹی کے دل میں بھی علم پانے کی جوت جگادی۔ جب آنسو چھ برس کی ہوئی تو باپ نے اسے قریبی گاؤں کے سکول میں داخل کرادیا۔ آنسو بیساکھیوں پر چلتی سکول پہنچ جاتی۔ وہ بچپن سے باپ کی زبانی علم و تعلیم کی باتیں سنتی آرہی تھی، لہٰذا اس میں بھی پڑھنے، کچھ سیکھنے کے شوق نے جنم لے لیا۔ یہی شوق اسے ہنسی خوشی سکول لے جانے لگا۔ اور علم کی چاہ ہی نے اسے سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے قابل بنا دیا۔ لیکن گاؤں کے ناخواندہ لوگوں نے باپ بیٹی کو دیوانہ ہی سمجھا۔
وہ کہتے ''ارے آنسو نے تعلیم حاصل بھی کرلی، تو وہ کون سا تیر مار لے گی؟'' ان کے طنزیہ جملے معصوم آنسو کا دل چیر دیتے، لیکن وہ انہیں چپ چاپ سہہ لیتی۔ علم پرور باپ کی مدد سے بہادر آنسو نے اپنا علمی سفر جاری رکھا اور آخر میٹرک میں پہنچ گئی۔ اس کا کالج، 17 کلو میٹر دور واقع قصبے، کنری میں تھا۔ وہ کبھی کیکڑے (ٹرک) سے کالج پہنچتی اور کبھی بس سے! کوئی سواری نہ ملتی تو بیل گاڑی ہی میں سوار ہوجاتی۔ یوں آنسو نے تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔
آنسو کے گاؤں میں 400 گھرانے آباد ہیں۔ ان سے تعلق رکھنے والا کوئی لڑکا یا لڑکی میٹرک تک نہ پہنچا تھا۔ یہ اعزاز ہمت کی شناور، آنسو کوہلی ہی کو ملا۔ گاؤں میں تعلیم یافتہ لوگوں کا قحط دیکھ کر ہی آنسو کے باپ کو احساس ہوا ''میری بیٹی کو استاد بننا چاہیے۔'' ایک سیانے کا قول ہے ''استاد ہمیں ماضی دکھاتا، حال کو سامنے رکھتا اور مستقبل تخلیق کرتا ہے۔'' اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں استاد کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔
جب آنسو کو بھی استاد کے بلند مقام و مرتبے کا اندازہ ہوا، تو اس نے بھی ٹیچر بننے کا فیصلہ کرلیا۔ جن دنوں آنسو میٹرک کے پرچے دے رہی تھی، کمبھومل بیمار ہوا اور آناً فاناً چل بسا۔ بستر مرگ پر اس نے بیٹی سے وعدہ لیا کہ وہ استاد بن کر اس کا دیرینہ خواب پورا کرے گی۔ باپ کے بچھڑنے سے آنسو کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ اسے لگا کہ وہ اچانک گھنے درخت کی چھاؤں سے نکل کر تپتی دھوپ میں آپہنچی ہے۔ مگر باپ سے کیے گئے وعدے نے اسے ہمت دی اور وہ بدستور تعلیم حاصل کرتی رہی۔
اس کی ماں، رانی نے بھی بیٹی کا بھر پور ساتھ دیا۔ چناں چہ میٹرک میں پاس ہوکر آنسو نے کنری ڈگری کالج میں داخلہ لے لیا۔ کنری ڈگری کالج سے آنسو نے ایف اے پاس کیا اور پھر بی اے کرنے لگی۔ 2014ء میں اس نے کوشش کی کہ اسے کسی مقامی سرکاری سکول میں داخلہ مل جائے، لیکن وہ ناکام رہی۔ اس کے پاس سفارش تھی اور نہ کوئی بااثر سرپرست میسر تھا۔
نظام تعلیم میں خرابیاں پا کر وہ بددل ہوئی،مگر حوصلہ نہ ہارا۔ چناں چہ اس نے اپنے گاؤں میں اپنا اسکول کھول لیا۔ شروع میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ کہتے ''ارے انہیں پڑھانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ان کو آخر کھیتوں میں مزدوری ہی کرنا ہے۔'' آنسو نے والدین کو یہ سمجھانے کے لیے بہت پاپڑ بیلے کہ تعلیم پاکر ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر بن سکتے ہیں۔ آنسو کی مستقل مزاجی اور نیک نیتی رنگ لائی اور ماں باپ اپنے بچوں کو اس کے سکول بھیجنے لگے، جہاں آنسو انھیں مفت تعلیم دیتی تھی۔اس کے نزدیک پڑھانا منفعت بخش ذریعہ نہیں بلکہ خدمت انسانیت کا ایک بہترین روپ ہے۔
آج آنسو سارا دن اپنے سکول میں بچوں کو پڑھاتی ہے۔ ایک سو سے زائد صبح کی شفٹ میں اور اتنے ہی سہ پہر کو اس سے علم پاتے اور اپنا مستقبل سنوارنے کی سعی کرتے ہیں۔ نومبر 2014ء میں آنسو نے گریجویشن کرلی۔ وہ اپنے علاقے میں گریجویٹ ہونے کااعزاز رکھنے والی پہلی لڑکی ہے۔ افسوسناک بات یہ کہ آنسو کوہلی کے علاقے میں واقع دیہات میں لڑکے لڑکیوں کے سرکاری پرائمری سکول موجود ہیں۔
لیکن وہاں کوئی استاد پڑھانے نہیں آتا...سب گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے تھے۔ دوسری طرف اس معذور لڑکی کا زبردست جذبہ اور عزم دیکھیے کہ اس نے نہ صرف خود تعلیم پائی بلکہ جہالت کی دلدل میں پھنسے بچوں کو بھی یہ زیور پہنانے لگی۔ جب قومی و عالمی میڈیا میں آنسو کی خدمات و شخصیت کا چرچا ہوا، تو حکومت سندھ کو ہوش آیا۔ اب صوبائی حکومت کے تعاون سے گاؤں میں اس کا سکول زیر تعمیر ہے۔ نیز بطور استاد اسے 5 ہزار تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔
آنسو کوہلی کی بے مثال داستان میں خصوصاً ہزارہا سرکاری اساتذہ کے واسطے دو سبق موجود ہیں۔ اول یہ کہ وہ صدق دل سے طلباء و طالبات کو تعلیم دیں اور صرف پیسے کی خاطر نہ پڑھائیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے اسکول سے غیر حاضر نہ رہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھا کر تنخواہ کو حلال بنائیں۔
یہ ننھے منے معصوم بچے اسی لیے باڑے آتے کہ وہاں ایک سکول قائم ہے، تعلیم و تربیت کا گہوارہ جہاں وہ بڑا آدمی بننے کے سنہرے سپنے دیکھتے ۔ ناخواندہ بچوں کے میلے کچلے ہاتھوں میں اُمید کے نصابی چراغ تھمانے والا یہ ''باڑا سکول'' ایک نوجوان لڑکی کی ہمت، جوش اور جذبہ خدمت انسانیت کی جیتی جاگتی نشانی ثابت ہوا۔ وہ اس مثل کا منہ بولتا ثبوت بن گیا: ''اصل انسانی طاقت یہ ہے کہ دوسروں کا بھلا کیا جائے۔''
یہ 25 سال پہلے کی بات ہے جب صحرائے تھر میں واقع مناجی دھنی نامی گاؤں میں آنسو کوہلی نے جنم لیا۔ اس کے والدین غریب کسان اور کوہلی ہندو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ماں باپ، دونوں مقامی زمین دار کے کھیتوں میں کام کرکے رقم کماتے۔ یہ معمولی کمائی بس اتنی ہی تھی کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ آنسو کا باپ ،کمبھو مل جہاں دیدہ اور تجربے کار آدمی تھا۔
زندگی کے تلخ تجربات نے اسے یہ سنہرا سبق سکھایا کہ ایک انسان پڑھ لکھ جائے، تو وہ اپنی قسمت بدل سکتا ہے۔ وہ تو تعلیم نہ پاسکا، مگر اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ابھی آنسو چند برس کی تھی کہ ایک بیماری کے باعث اس کی ٹانگیں ناکارہ ہوگئیں اور وہ عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہ رہی۔ اس واقعے سے قدرتاً والدین کو سخت صدمہ پہنچا۔ لیکن باپ نے اس نئی آفت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنا یہ عزم جوان رکھا کہ وہ آنسو کو ضرور تعلیم دلوائے گا۔
اس نے اپنی امید افزا باتوں سے بیٹی کے دل میں بھی علم پانے کی جوت جگادی۔ جب آنسو چھ برس کی ہوئی تو باپ نے اسے قریبی گاؤں کے سکول میں داخل کرادیا۔ آنسو بیساکھیوں پر چلتی سکول پہنچ جاتی۔ وہ بچپن سے باپ کی زبانی علم و تعلیم کی باتیں سنتی آرہی تھی، لہٰذا اس میں بھی پڑھنے، کچھ سیکھنے کے شوق نے جنم لے لیا۔ یہی شوق اسے ہنسی خوشی سکول لے جانے لگا۔ اور علم کی چاہ ہی نے اسے سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے قابل بنا دیا۔ لیکن گاؤں کے ناخواندہ لوگوں نے باپ بیٹی کو دیوانہ ہی سمجھا۔
وہ کہتے ''ارے آنسو نے تعلیم حاصل بھی کرلی، تو وہ کون سا تیر مار لے گی؟'' ان کے طنزیہ جملے معصوم آنسو کا دل چیر دیتے، لیکن وہ انہیں چپ چاپ سہہ لیتی۔ علم پرور باپ کی مدد سے بہادر آنسو نے اپنا علمی سفر جاری رکھا اور آخر میٹرک میں پہنچ گئی۔ اس کا کالج، 17 کلو میٹر دور واقع قصبے، کنری میں تھا۔ وہ کبھی کیکڑے (ٹرک) سے کالج پہنچتی اور کبھی بس سے! کوئی سواری نہ ملتی تو بیل گاڑی ہی میں سوار ہوجاتی۔ یوں آنسو نے تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔
آنسو کے گاؤں میں 400 گھرانے آباد ہیں۔ ان سے تعلق رکھنے والا کوئی لڑکا یا لڑکی میٹرک تک نہ پہنچا تھا۔ یہ اعزاز ہمت کی شناور، آنسو کوہلی ہی کو ملا۔ گاؤں میں تعلیم یافتہ لوگوں کا قحط دیکھ کر ہی آنسو کے باپ کو احساس ہوا ''میری بیٹی کو استاد بننا چاہیے۔'' ایک سیانے کا قول ہے ''استاد ہمیں ماضی دکھاتا، حال کو سامنے رکھتا اور مستقبل تخلیق کرتا ہے۔'' اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں استاد کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔
جب آنسو کو بھی استاد کے بلند مقام و مرتبے کا اندازہ ہوا، تو اس نے بھی ٹیچر بننے کا فیصلہ کرلیا۔ جن دنوں آنسو میٹرک کے پرچے دے رہی تھی، کمبھومل بیمار ہوا اور آناً فاناً چل بسا۔ بستر مرگ پر اس نے بیٹی سے وعدہ لیا کہ وہ استاد بن کر اس کا دیرینہ خواب پورا کرے گی۔ باپ کے بچھڑنے سے آنسو کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ اسے لگا کہ وہ اچانک گھنے درخت کی چھاؤں سے نکل کر تپتی دھوپ میں آپہنچی ہے۔ مگر باپ سے کیے گئے وعدے نے اسے ہمت دی اور وہ بدستور تعلیم حاصل کرتی رہی۔
اس کی ماں، رانی نے بھی بیٹی کا بھر پور ساتھ دیا۔ چناں چہ میٹرک میں پاس ہوکر آنسو نے کنری ڈگری کالج میں داخلہ لے لیا۔ کنری ڈگری کالج سے آنسو نے ایف اے پاس کیا اور پھر بی اے کرنے لگی۔ 2014ء میں اس نے کوشش کی کہ اسے کسی مقامی سرکاری سکول میں داخلہ مل جائے، لیکن وہ ناکام رہی۔ اس کے پاس سفارش تھی اور نہ کوئی بااثر سرپرست میسر تھا۔
نظام تعلیم میں خرابیاں پا کر وہ بددل ہوئی،مگر حوصلہ نہ ہارا۔ چناں چہ اس نے اپنے گاؤں میں اپنا اسکول کھول لیا۔ شروع میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ کہتے ''ارے انہیں پڑھانے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ان کو آخر کھیتوں میں مزدوری ہی کرنا ہے۔'' آنسو نے والدین کو یہ سمجھانے کے لیے بہت پاپڑ بیلے کہ تعلیم پاکر ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر بن سکتے ہیں۔ آنسو کی مستقل مزاجی اور نیک نیتی رنگ لائی اور ماں باپ اپنے بچوں کو اس کے سکول بھیجنے لگے، جہاں آنسو انھیں مفت تعلیم دیتی تھی۔اس کے نزدیک پڑھانا منفعت بخش ذریعہ نہیں بلکہ خدمت انسانیت کا ایک بہترین روپ ہے۔
آج آنسو سارا دن اپنے سکول میں بچوں کو پڑھاتی ہے۔ ایک سو سے زائد صبح کی شفٹ میں اور اتنے ہی سہ پہر کو اس سے علم پاتے اور اپنا مستقبل سنوارنے کی سعی کرتے ہیں۔ نومبر 2014ء میں آنسو نے گریجویشن کرلی۔ وہ اپنے علاقے میں گریجویٹ ہونے کااعزاز رکھنے والی پہلی لڑکی ہے۔ افسوسناک بات یہ کہ آنسو کوہلی کے علاقے میں واقع دیہات میں لڑکے لڑکیوں کے سرکاری پرائمری سکول موجود ہیں۔
لیکن وہاں کوئی استاد پڑھانے نہیں آتا...سب گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے تھے۔ دوسری طرف اس معذور لڑکی کا زبردست جذبہ اور عزم دیکھیے کہ اس نے نہ صرف خود تعلیم پائی بلکہ جہالت کی دلدل میں پھنسے بچوں کو بھی یہ زیور پہنانے لگی۔ جب قومی و عالمی میڈیا میں آنسو کی خدمات و شخصیت کا چرچا ہوا، تو حکومت سندھ کو ہوش آیا۔ اب صوبائی حکومت کے تعاون سے گاؤں میں اس کا سکول زیر تعمیر ہے۔ نیز بطور استاد اسے 5 ہزار تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔
آنسو کوہلی کی بے مثال داستان میں خصوصاً ہزارہا سرکاری اساتذہ کے واسطے دو سبق موجود ہیں۔ اول یہ کہ وہ صدق دل سے طلباء و طالبات کو تعلیم دیں اور صرف پیسے کی خاطر نہ پڑھائیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے اسکول سے غیر حاضر نہ رہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھا کر تنخواہ کو حلال بنائیں۔