فیفا کرپشن کیس میں امریکی دلچسپی پر دنیا حیران
اگر کوئی اپنی بدعنوان تنظیم کے ذریعے ہماری حدود میں آئے تو جواب دہ ہونا پڑے گا، ایف بی آئی
ABBOTABAD:
فیفا کرپشن کیس میں امریکی دلچسپی پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے،امریکی حکام نے فٹبال کی گورننگ باڈی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف بڑی تحقیقات کی تھیں،ان کی درخواست پر بدھ کی صبح سوئس پولیس نے 7عہدیداروں کو حراست میں لیا تھا۔
ایک ایسا ملک جہاں فٹبال کی جڑیں زیادہ مضبوط نہیں ہیں، وہ کیسے اس عالمی کھیل کا کرتا دھرتا بن گیا؟ بطور احتجاج استعفیٰ دینے والی فیفا کے انسداد رشوت کی سابق مشیر الیگزینڈرہ وریج نے کہا کہ کھیل کی عالمی تنظیم نے بہت سے ممالک کو خوفزدہ کر دیا، جب بین الاقوامی سطح پر معمول کے مطابق رشوت لی گئی تو امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ اگر کوئی اور نہیں کرتا تو وہ خود اس کرپشن کی تحقیقات کرے گا، سوئٹزرلینڈ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی نے بتایا تھا کہ کیوں امریکا نے کارروائی کی ہے؟انھوں نے کہاکہ کوئی بھی قانون سے بالاتر یا آگے نہیں ہے۔
اگر آپ اپنی بدعنوان تنظیم کے ذریعے ہماری حدود میں آئے چاہے وہ ملاقاتوں کے ذریعے ہو یا پھر ہمارے بہترین بینکنگ نظام کے ذریعے تو اس کرپشن کے لیے جواب دہ ہونا ہوگا۔امریکی الزامات سے ثابت ہو گیاکہ بہت سے فٹبال حکام یہ دونوں کام کر رہے تھے۔غیر ملکیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے امریکی حکام کو ان کے ملک سے تعلقات کا معمولی سا ثبوت درکار ہے، جو الزامات بدھ کو منظر عام پر آئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مبینہ کرپشن نے امریکا میں فٹبال کے کھیل کے دل پر وار کیا ہے، الزامات کے تحت فیفا اور کنفیڈریشنز ورلڈ کپ و دوسرے ٹورنامنٹ کراتے وقت مارکیٹنگ اور میڈیا حقوق بیچ کر پیسے بناتے ہیں۔
جیمز کومی نے بتایا کہ زیادہ تر الزامات کا تعلق طریقہ کار کے تحت ادائیگیوں اور کمیشن کے طور پر پیسے واپس کرنے سے ہے جو مارکیٹنگ انتظامیہ کے ارکان ٹورنامنٹس کے حقوق حاصل کرنے کے اپنے مواقع بڑھانے کے لیے انھیں دیتے تھے۔یہ رشوت امریکا میں ملاقاتوں کے دوران دی گئیں اور ان میں کچھ رقوم تو امریکی بینک کھاتوں کے ذریعے بھیجی گئی ہیں۔نیو یارک کے مشرقی ضلع کے اٹارنی کیلی کری نے کہاکہ'بین الاقوامی فٹبال میں اس قسم کی رشوت اور کرپشن کے واقعات گزشتہ 2 دہائیوں سے جاری ہیں، ہماری تحقیقات کو بھی بہت سے سال لگے ۔
یہ واضح نہیں ہے کہ خاص طور پر کس ایونٹ کے لیے یہ کرپشن ہوئی۔ بعض لوگوں نے 2010 میں ہونی والی 2022 کے عالمی کپ میزبانی کی بولی کی طرف اشارہ کیا جسے امریکا حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تھا، شبہات ہیں کہ قطر کے حق میں ووٹنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے رشوت دی گئی تھی، وہاں شدید گرمی کے موسم میں عالمی کپ کرانے کے فیصلے سے شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
یہ حقیقت اور بھی کھٹکی جب فیفا کی ٹاسک فورس نے جون جولائی کے بجائے نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں میچز کرانے کی تجویز دی تھی۔بدھ کو ہونے والی گرفتاریوں کے بعد سوئس حکام نے 2018 اور 2022 میں ہونے والے عالمی مقابلوں کے لیے ہوئی بولی کے لیے علحیدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ اہم عہدیداروں میں سیکریٹری جنرل چک بلیزر بھی ہیں جو ماضی میں فیفا کی اعلیٰ کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے، وہ2013 میں کرپشن سے متعلق بہت سے الزامات میں جرم قبول کر چکے تھے۔چند ماہ قبل نیو یارک ڈیلی نیوز میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ بلیزر امریکی حکام کے لیے مخبری کا کام کر رہے تھے۔
2012 کے لندن اولمپکس کے دوران وہ فٹبال حکام سے ملے تھے اور بات چیت کے دوران خفیہ مائیک کا استعمال کیا تھا تاکہ معلومات جمع کر سکیں تاہم اس خبر کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ حکام کا کہنا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کومی کا کہنا ہے کہ'کوئی بھی قانون سے بالاتر یا آگے نہیں ہے۔ہم تب تک نہیں رکیں گے جب تک یہ پیغام میں نہ دے دیں کہ کام اس طرح سے نہیں ہوتا انھیں کسی اور طریقے سے کرنا چاہیے۔'
فیفا کرپشن کیس میں امریکی دلچسپی پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے،امریکی حکام نے فٹبال کی گورننگ باڈی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف بڑی تحقیقات کی تھیں،ان کی درخواست پر بدھ کی صبح سوئس پولیس نے 7عہدیداروں کو حراست میں لیا تھا۔
ایک ایسا ملک جہاں فٹبال کی جڑیں زیادہ مضبوط نہیں ہیں، وہ کیسے اس عالمی کھیل کا کرتا دھرتا بن گیا؟ بطور احتجاج استعفیٰ دینے والی فیفا کے انسداد رشوت کی سابق مشیر الیگزینڈرہ وریج نے کہا کہ کھیل کی عالمی تنظیم نے بہت سے ممالک کو خوفزدہ کر دیا، جب بین الاقوامی سطح پر معمول کے مطابق رشوت لی گئی تو امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ اگر کوئی اور نہیں کرتا تو وہ خود اس کرپشن کی تحقیقات کرے گا، سوئٹزرلینڈ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی نے بتایا تھا کہ کیوں امریکا نے کارروائی کی ہے؟انھوں نے کہاکہ کوئی بھی قانون سے بالاتر یا آگے نہیں ہے۔
اگر آپ اپنی بدعنوان تنظیم کے ذریعے ہماری حدود میں آئے چاہے وہ ملاقاتوں کے ذریعے ہو یا پھر ہمارے بہترین بینکنگ نظام کے ذریعے تو اس کرپشن کے لیے جواب دہ ہونا ہوگا۔امریکی الزامات سے ثابت ہو گیاکہ بہت سے فٹبال حکام یہ دونوں کام کر رہے تھے۔غیر ملکیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے امریکی حکام کو ان کے ملک سے تعلقات کا معمولی سا ثبوت درکار ہے، جو الزامات بدھ کو منظر عام پر آئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مبینہ کرپشن نے امریکا میں فٹبال کے کھیل کے دل پر وار کیا ہے، الزامات کے تحت فیفا اور کنفیڈریشنز ورلڈ کپ و دوسرے ٹورنامنٹ کراتے وقت مارکیٹنگ اور میڈیا حقوق بیچ کر پیسے بناتے ہیں۔
جیمز کومی نے بتایا کہ زیادہ تر الزامات کا تعلق طریقہ کار کے تحت ادائیگیوں اور کمیشن کے طور پر پیسے واپس کرنے سے ہے جو مارکیٹنگ انتظامیہ کے ارکان ٹورنامنٹس کے حقوق حاصل کرنے کے اپنے مواقع بڑھانے کے لیے انھیں دیتے تھے۔یہ رشوت امریکا میں ملاقاتوں کے دوران دی گئیں اور ان میں کچھ رقوم تو امریکی بینک کھاتوں کے ذریعے بھیجی گئی ہیں۔نیو یارک کے مشرقی ضلع کے اٹارنی کیلی کری نے کہاکہ'بین الاقوامی فٹبال میں اس قسم کی رشوت اور کرپشن کے واقعات گزشتہ 2 دہائیوں سے جاری ہیں، ہماری تحقیقات کو بھی بہت سے سال لگے ۔
یہ واضح نہیں ہے کہ خاص طور پر کس ایونٹ کے لیے یہ کرپشن ہوئی۔ بعض لوگوں نے 2010 میں ہونی والی 2022 کے عالمی کپ میزبانی کی بولی کی طرف اشارہ کیا جسے امریکا حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تھا، شبہات ہیں کہ قطر کے حق میں ووٹنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے رشوت دی گئی تھی، وہاں شدید گرمی کے موسم میں عالمی کپ کرانے کے فیصلے سے شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
یہ حقیقت اور بھی کھٹکی جب فیفا کی ٹاسک فورس نے جون جولائی کے بجائے نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں میچز کرانے کی تجویز دی تھی۔بدھ کو ہونے والی گرفتاریوں کے بعد سوئس حکام نے 2018 اور 2022 میں ہونے والے عالمی مقابلوں کے لیے ہوئی بولی کے لیے علحیدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ اہم عہدیداروں میں سیکریٹری جنرل چک بلیزر بھی ہیں جو ماضی میں فیفا کی اعلیٰ کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے، وہ2013 میں کرپشن سے متعلق بہت سے الزامات میں جرم قبول کر چکے تھے۔چند ماہ قبل نیو یارک ڈیلی نیوز میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ بلیزر امریکی حکام کے لیے مخبری کا کام کر رہے تھے۔
2012 کے لندن اولمپکس کے دوران وہ فٹبال حکام سے ملے تھے اور بات چیت کے دوران خفیہ مائیک کا استعمال کیا تھا تاکہ معلومات جمع کر سکیں تاہم اس خبر کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ حکام کا کہنا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کومی کا کہنا ہے کہ'کوئی بھی قانون سے بالاتر یا آگے نہیں ہے۔ہم تب تک نہیں رکیں گے جب تک یہ پیغام میں نہ دے دیں کہ کام اس طرح سے نہیں ہوتا انھیں کسی اور طریقے سے کرنا چاہیے۔'